نشستم برخاستم:دِلی کِتنی دِلی ہے!

0
262
  •   جموں وکشمیرمیں نامسائدحالات،ریاست کے خصوصی درجے کودرپیش خطرات کے چلتے عوامی بے چینی اور یہاں سبز۔زعفرانی اتحادکی حکومت بننے کے بعدکی پیچیدگیوں نے صورتحال کواورزیادہ دھماکہ خیزبنادیاہے،دِلی میں اقتدارکی منتقلی ضرورہوئی لیکن جموں وکشمیرکے معاملے میں پالیسی میں کوئی خاص تبدیلی اورلچک کے بجائے اورزیادہ سختی اورجارحیت دیکھنے کومل رہی ہے، ایک طرف کشمیرمیں فوج ’آپریشن آل آئوٹ‘چلارہی ہے تودوسری طرف اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بندوق اُٹھانے سے گریزنہیں کررہے ہیں ، جبکہ سیاسی سطح پربھی خوب سیاست ہورہی ہے، مرکزی حکومت عالمی برادری کویہ بھی باورکراناچاہتی ہے کہ وہ کشمیرمیں ناراض لوگوں سے بات چیت میں مصروف ہے، ملک کے وزیرداخلہ بار بار کشمیرآرہے ہیں اور ہرمکتبہ فکرکے وفودسے مل رہے ہیں، دوسری جانب اپوزیشن جماعت کانگریس نے بھی فرصت کے لمحات میں مِشن کشمیرشروع کردیاہے، وزیرداخلہ ان دِنوں ریاست کے چار روزہ دورے پرہیں ، ان کاکہناہے کہ وہ کھلے ذہن سے آئے ہیں اورہرکسی سے ملناچاہیں گے جوملنے کی تمنارکھتاہو، لیکن ملنے بچھڑنے کااندازروایتی ہے،دِلی سے ہی منظورِنظرمین اسٹریمودیگرطبقہ جات کے ’خودساختہ ‘نمائندوںکے فہرستیںتیارہوتی ہیںجنہیںملاقات کیلئے مدعوکیاجاتاہے،ملنے کاوہی محدود انداز گوجر،پہاڑی ،سکھ ، اورہرایک سیاسی جماعت کے وفود ،تاجرطبقہ اور نام نہاد سیول سوسائٹی !، وہی گھسی پِٹی باتیں، پہاڑی طبقہ ایس ٹی کادرجہ مانگتے نہیں تھکتااورگوجربکروال طبقہ سیاسی ریزرویشن، خانہ بدوشوں کی بازآبادکاری، جنگلات پرحقوق وغیرہ ، لیکن پیش رفت ہمیشہ کی طرح صفررہتی ہے، وزیرداخلہ کھلے ذہن سے آئے ہیں اورکہتے ہیں جسے شکوہ ہے شکایت کرے ، لیکن جس طبقے سے بات چیت کرنی چاہئے ، جنہیں ملاقات پہ آمادہ کیاجاناچاہئے اُن کی اچھی خاصی بھیڑ این آئی اے کی تحویل میں ہے، جبکہ اعلیٰ مزاحمتی قیادت خانہ نظربندی میں یاپھر گرفتارہے، ایسے میں مرکزی وزیرداخلہ کایہ ملناملاناسب فضول مشق ہے، جبکہ اپوزیشن جماعت کادورہ بھی محض اپنے فرصت کے لمحات کوکچھ کام پہ لگانے کے مترادف ہے، کم از کم انہیں اپنی ہی پارٹی کے لیڈران سے اوراپنے خیرخواہوں ومنظورِ نظرلوگوں سے ملنے کے بجائے علیحدگی پسندوں تک پہنچنے کی کوشش کرنی تھی، کوشش ناکام ہی رہتی لیکن اپوزیشن جماعت ہونے کے ناطے جب وہ ایک طرف مرکزکی مودی سرکارپرالزام تراشی کرتی ہے کہ اس نے کشمیری عوام کیساتھ مفاہمت کے تمام راستے بندکردئیے ہیں توکم ازکم اپوزیشن کوخودتوکسی دروازے پردستک دیناچاہئے تھی۔مجموعی طورپریہ دورے محض عوام کی آنکھ میں دھول جھونکنے جیسے ہیں، جوملتے ہیں ان کے مطالبات پورے نہیں ہوتے اورجن سے ملناچاہئے اُن سے ملانہیں جاتا،یہ ملاقاتیں بس ’نشستم برخاستم‘جیسی ہیں ۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا