محمد اعظم شاہد
ہندوستان میں جنمی پلی پروان چڑھی زبان اُردو کے ساتھ حصول آزادی کے بعد کس طرح کا رویہ رہا ہے، یہ جگ ظاہر ہے- مگر یہ حقیقت بھی ہے کہ اس زبان کے بولنے والوں میں تمام مذاہب کے لوگ شامل ہیں -ہماری گنگاجمنی تہذیب کی شان رہی ہے،اردو جس کے شیدائیوں نے اپنے دلوں میں اِسے بسا رکھا ہے -اپنی آنکھوں پہ اردو کو بٹھا رکھا ہے جو اس زبان کی تاریخ،روایات اور اس کی فصاحت وبلاغت سے واقف ہیں وہ اس کے قدر دان رہے ہیں -دلی میں ہرسال منایا جانے والا ’’جشن ریختہ‘‘ کی مقبولیت سب پر عیاں ہے۔ اس جشن میں نوے فی صد احباب جن میں نوجوانوں کی کثرت دیکھی جاتی ہے وہ غیرمسلم ہیں-ایک سازش عرصۂ دراز سے چل پڑی ہے کہ اردو کو مسلمانوں کی زبان قرار دے دیا جاتا ہے اور فرقہ واریت کا رنگ اس پر چڑھایا جاتا رہا ہے ، مگر کمزور معلومات رکھنے والے عقل کے اندھوں کو کون سمجھائے- اُردو اس ملک کی شان ہے جس کے بغیر یہاں کی فضائیں ویران (ایسا کبھی نہ ہو) ہوجائیں گی -تمام مذاہب کے ماننے والوں نے اس زبان کی ثروت مندی میں اپنی محبت وعقیدت سے اضافہ کیا ہے -مگر حالات بگاڑنے کی تمنا رکھنے والے اردو کے نام پر مسلمانوں سے اپنی دشمنی کا برملا اظہارکرتے آئے ہیں -یعنی کہیں پہ نگاہیں کہیں پہ نشانہ والی بات ہے -ہرسال دیوالی جو سارے ملک میں بڑے دھوم کے ساتھ منایا جانے والا تہوار ہے-اس تہوار کے موقع پر الگ الگ مصنوعات (Products) بنانے والی بڑی بڑی کمپنیاں گاہکوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے دلچسپ اشتہار بناتی ہیں جو پرنٹ اورسوشیل میڈیا پر پیش کئے جاتے ہیں – ایسا ہی ایک اشتہار دیوالی کے موقع پر تیار شدہ ہندوستانی ملبوسات کی کمپنی فیاب انڈیا Fabindia نے اپنے اشتہار میں ’’جشن رواز‘‘ (اُردو لفظ ’’رواج‘‘ کا غلط روپ) استعمال کیا ہے -یعنی بتایا گیا کہ دیوالی رسم ورواج اورروایات کا جشن ہے -جیسے ہی یہ اشتہار عام ہوا بنگلور کے رکن پارلیمان تیجسوی سوریہ جو بی جے پی کے یوامورچہ کے صدر ہیں ،یہ مہاشئے نے فیاب انڈیا کمپنی کے خلاف یہ کہہ کر ہنگامہ کھڑا کردیا کہ دیوالی کو اسلامی رنگ دیا جارہا ہے -اپنے ایک ٹوئٹ میں اس ایم پی نے کہاکہ اشتہار میں ماڈلس فیر ہندولباس پہنے ہوئے ہیں اوران کی پیشانیوں پر بندی بھی نہیں ہے – کمپنی کو انتباہ کراتے ہوئے ذمہ دار اور ہندوستانی کلچر کے اس نام نہاد رکھوالے نے یہ بھی کہاکہ اپنی تجارت میں اس طرح کے اقدامات سے انہیں قیمت چکانی پڑے گی -اس ٹوئٹ کے بعد اور ہندوتوا نظریہ کے حامیوں نے ٹوئٹر پر بائیکاٹ فیاب انڈیا ابھیان چلانا شروع کردیا -اس سے پہلے بھی کئی بار دیگر کمپنیوں کی طرح فیاب انڈیا نے اُردو کے الفاظ کا اپنی ملبوسات کی الگ الگ رینج کیلئے کئی بار استعمال کیا ہے اور ملک بھر میں کاروباری معاملات میں اردو کے حُسن کے پیش نظر اردو الفاظ کا استعمال ہوتا رہا ہے – یہ اس لئے بھی کہ ان الفاظ میں اپنی جانب متوجہ کرنے اور راغب کرنے کی خوبی موجود ہے -جشن رواج کی مخالفت کرنے والوں نے ہندوستانی روایات کو سمجھا ہی نہیں یا پھر سمجھ کر چشم پوشی کررہے ہیں -فیاب انڈیا کے اس اشتہار کے ویڈیو میں ہندوستان میں دیوالی کا جشن کن روایات کا حامل ہے دکھایا گیا ہے – اورتمام کردار ہندوستانی روایتی لباس میں نظر آتے ہیں – ہنگامہ مچاکر ’’جشن‘‘ کے لفظ کی مخالفت کرنے والوں نے اردو دشمنی کا ثبوت دیا ہے – ایک بارپھر اردو کو ایک خاص فرقے سے جوڑنے کی دانستہ طورپر سازش رچی ہے -ایک طرح سے رواداری کے ماحول کو مشتعل کرنے کی کوششیں کی ہیں -دراصل فیاب انڈیا فیبرک (ملبوسات) آف انڈیا، کا شارٹ فارم ہے -کاٹن اورسلک کے ملبوسات جو خالص ہندوستانی جولاہوں اور کاریگروں کے ہاتھوں سے بنائے ہوئے خوشنما ملبوسات کا برانڈ ہے -فیاب انڈیا جو نہ صرف ہندوستان بلکہ بیرونی ممالک میں بھی مقبول ہے -خود میرے اپنے گھر والے اس برانڈ کے شوقین ہیں – بہرکیف اپنے کاروباری مفادات کے پیش نظر فیاب انڈیا کمپنی نے ’’جشن رواز‘‘ کا اشتہار واپس لے لیا اوریہ تاویل پیش کی کہ یہ دیوالی کے ملبوسات کیلئے نہیں تھا- دیوالی کا کلکشن’ جھل مل سی دیوالی‘ کے نام سے عنقریب آنے والا ہے -اشتہار کا واپس لیا جانا شرپسندوں کی جیت ضرور رہی ہوگی کہ انہوں نے اردو کو مسلمانوں سے جوڑکر اپنی بنیاد پرستی کو مضبوط کرلیا ہے -Right wing کی حمایت کرنے والوں نے ظاہر کیا ہے کہ اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کرلی ہے-مگر درحقیقت انہوں نے اس ملک کی عظیم صدیوں پرانی مشترکہ تہذیب کو داغدار کرنے کی مجرمانہ کوشش کی ہے -ٹیلی ویژن اورنیوز چینلس پر بحث ومباحثے کے دوران جشن کے لفظ کو فرقہ پرستی سے جوڑنے والوں کو روشن خیال احباب نے منہ توڑ جواب دیا ہے – اپنے ہر پراڈکٹ کے ساتھ فیاب انڈیا کا ایک Tag لگا ہوتا ہے جس پر انگریزی میں لکھا ہوتا ہے made with pride in India یعنی فخر کے ساتھ ہندوستان میں تیار کردہ ہے – خیراندھوں کو اندھیرے میں کیا خاک نظر آئے گا –
اِسی طرح کا معاملہ گذشتہ سال دیوالی تہوار کے دوران پیش آیاتھا، جب ٹاٹا کمپنی کی ’’تانشک جیولری‘‘ نے ایک اشتہاری فلم میں ایک مسلمان خاندان کو اپنی ہندوبہو کی گود بھرائی کی رسم کو دکھایا گیا تھا- مذہبی رواداری کے موضوع پر بنی اس Ad Film پر ’’لوجہاد‘‘ کو فروغ دینے کا الزام لگاکر مخالفت کی گئی -نتیجے میں ٹاٹا جیسی قدیم اوربڑی کمپنی نے فرقہ پرستی کے روبرو گھٹنے ٹیک دئے اوراشتہار واپس لے لیا گیا اورمعافی مانگ لی گئی-مگر گھروں کو کھانے پینے کی چیزیں فراہم کرنے والی نئی کمپنی ’’زوماٹو‘‘ Zomato کے ایک مسلمان نوجوان ’’ڈیلیوری بوائے‘‘ سے پارسل لینے سے انکارکرنے والے ایک گاہک کو کمپنی نے جواب دیا تھاکہ ’’غذا کا کوئی مذہب نہیں ہوتا‘‘ اپنے اصول پر قائم رہنے والی کمپنی نے اپنی ثابت قدمی کے باعث امن پسند لوگوں سے بے حد ستائش حاصل کی -اٹھارہویں صدی میں اُردو کو فرقہ واریت کی نظریہ سے دیکھنے والوں کو شاید نہیں معلوم کہ عوامی شاعر کہلانے والے عظیم شاعر نظیراکبرآبادی جیسے شاعروں نے کئی ہندوستانی تہواروں کی عظمت پرکئی نظمیں لکھی ہیں جو آج بھی اہل نظر میں بے حد مقبول ہیں -نظیراکبرآبادی کی نظم ’’سماں دیوالی کا‘‘ میں آپ نے کہا ہے –
ہر اک مکان میں جلا پھر دیا دیوالی کا
ہر ایک طرف کو اجالا ہوا دیوالی کا
سبھی کے دل میں سماں بھا گیا دیوالی کا
کسی کے دل کو مزہ خوش لگادیوالی کا
آج بہار کا ہے دن دیوالی کا
azamshahid1786@gmail.com Cell: 9986831777