محمداعظم شاہد
اردو کے معتبر افسانہ نگار، ڈرامہ نویس اور فلموں کے لئے مکالمے اور منظر نامے لکھنے والے ساگر سرحدی (گنگاساگرتلوار) اس سال مارچ میں ہم سے بچھڑ گئے۔ تقسیم ہند کی ہولناکیوں کا ان کے ذہن پر گہرا اثر پڑا۔ جو ان کا اپنا ملک (غیر منقسم ) تھا اس کے دو ٹکڑے ہونے کے بعد وہ اپنے کنبہ کے ساتھ دلی آکر بس گئے۔ پناہ گزیں کے طور پر بارہ سال کی عمر میں انہوں نے جو تقسیم کی تباہ کاریاں دیکھیں وہ ان کی لکھی کہانیوں میں سمائی ہوئی ہیں۔ یش چوپڑہ کے لئے انہوں نے ’’کبھی کبھی‘‘، ’’نوری‘‘، ’’سلسلے‘‘ اور ’’چاندنی‘‘ جیسی فلمیں لکھیں تو ’’بازار‘‘ جیسی یادگار فلم کی ہدایت بھی دی۔ اپنے نام کے ساتھ ’’سرحدی‘‘ کا لاحقہ انہوں نے اپنے گائوں سے بے یاس و مددگار اپنے اہل خاندان کے ساتھ جو ہجرت کی تھی‘ ان زخم الٓود ’’سرحد کی یادوں کو‘‘ انہوں اپنے نام سے جوڑ لیا تھا۔ ساگر سرحدی باہمی اعتماد و ایقان، بھائی چارہ اور ہم آہنگی جیسے روشن خیال اقدار کو اپنی کہانیوں میں ہی نہیں‘ بلکہ اپنی تقاریر میں بھی ان امور پر روشنی ڈالتے رہے۔ تقسیم ملک کے درد کو بیان کرنے والے ڈرامے لکھے۔ ساگر سرحدی نے جو ’’دستک‘‘ مجموعہ میں شائع ہوئے ہیں۔ اس ممتاز ڈرامہ نویس کی فکرِ روشن ملک کے موجودہ حالات کے تناظر میں غور وفکر کی دعوت دیتی ہے۔ تھیٹر سے جڑی نامور شخصیت ظفرمحی الدین کے ’کٹھ پتلیاں‘ گروپ نے ساگر سرحدی کو خراج عقیدت پیش کرنے ’دستک‘ میں شامل ان کے تین ڈرامے اسٹیج کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ ’’مرزا صاحبان‘‘، ’’کسی سیما (سرحد) کی ایک معمولی سی گھٹنہ‘‘ (واردات) اور ’’خیال کی دستک‘‘ سو منٹ پر مشتمل یہ تینوں ڈرامے مشہور ثقافتی مرکز ’’رنگاشنکرا‘‘ میں اسٹیج کئے جارہے ہیں۔
مزرا صاحبان‘ مذہب کے نام پر پھیلتی منافرت کس طرح لوگوں میں رنجش اور دڑاڑ پیدا کرتی ہے‘ اس تلخ حقیقت کو پیش کیا گیا ہے۔ ہم آہنگی کے فروغ کے آرزومند احباب اور مذہبی کٹر پسندوں کے ٹکرائو کی عکاسی کرنے والے اس ڈرامہ میں باہمی یگانگت کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔ ’کسی سیما کی ایک معمولی سی گھٹنہ‘‘، ملکوں کی تقسیم اور سرحدوں کے بکھیڑوں کو اُجاگر کرنا یہ ڈرامہ ایک طرح سے سرحدوں کی بندشوں پر یہ ایک طنز ہے۔ وہ سرحدیں جو ملکوں کو بانٹ دیتی ہیں‘ فاصلے پھیلادیتی ہیں۔ دوریاں بڑھا دیتی ہیں جو محسوس ہوتی ہیں‘ مگر نظر نہیں آتیں۔ ’’خیال کی دستک‘‘ میں دو بچھڑے چاہنے والے طویل عرصہ بعد ملتے ہیں۔ مختصر سے وقفے میں ان کے درمیان ہونے والی گفتگو میں حالات کی ستم ظریفی اور وقت کی بندشوں کی کسک بیان کی گئی ہے۔
ظفرمحی الدین کوئی چالیس برسوں سے تھیٹر (ڈرامہ کی دنیا) سے جڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے عصری منظر نامے کی عکاسی کرنے والے کئی ڈرامے اپنی ہدایت میں پیش کئے ہیں۔ گزشتہ مہینوں اصغر وجاہت کا لکھا ڈرامہ ’جس نے لاہور نہیں دیکھا‘ ظفر نے پیش کیا تھا جو تقسیم کے دوران رونما ہونے والے حالات کے پس منظر میں نفرت اور محبتوں کے تصادم پر مرکوز تھا۔ اپنی ریاست کرناٹک میں انگریزی اور کنڑا تھیٹر کافی متحرک ہے۔ مگر اردو اور ہندی زبانوں میں ڈرامے شاذ و نادر ہی پیش ہوا کرتے ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں‘ ویسے ہمارے ہاں اردو میں ڈرامے لکھنے اور پیش کرنے کی رفتار دیگر زبانوں کے مقابلے میں اب نہیں کے برابر ہے۔ ظفر ’کٹھ پتلیاں‘ گروپ کے ذریعہ اس جمود کو توڑنے کی کوشش کرتے آئے ہیں۔ ڈرامہ ہماری تہذیب و ثقافت کا اٹوٹ حصہ رہا ہے۔ اردو کے حوالے سے دیکھیں تو ماضی میں اس کی شاندار روایات تھیں مگر بدلتی ترجیحات اور رجحانات کے باعث ڈرامہ جیسا موثر ذریعہ ترسیل و تفریح متاثر ہوکر رہ گیا ہے۔
اپنی ہدایت میں ظفر نے پہلی بار اردو کے ممتاز افسانہ نگار کرشن چندر کا لکھا ڈرامہ ’دروازے کھول دو‘ پیشکش سے لے کر اپنے حالیہ ’’جس نے لاہور نہیں دیکھا‘‘ تک اپنی فنی مہارت کا سفر کامیابی سے طئے کیا ہے۔ گو کہ یہ سفر آسان نہیں رہا۔ یہ صبر اور مشقت طلب بھی ہے۔ ظفر محی الدین جیسے فنکاروں کی ہنرمندی کی حوصلہ افزائی ضروری ہے۔