۔اسلام زندہ ہوتا ھے ہر کربلا کے بعد۔

0
0

از قلم۔۔۔۔چوہدری محمد اقبال پوسوال سینیر لکچرر پونچھ۔۔
رابطہ نمبر۔۔۔۔۔۔7006514209

شاَہ اَست حُسَین باَدشاہ اَست حُسَین
دین اَست حسین دین پناَہ اَست حسین
سرَ دَاد نہ دَاد دَست دَر دَستِ یزید
حقَا کہ بِنإے لاالہٰ اَست حُسیَن

سانحہ کربلا یا واقعہ کربلا یا کربلا کی جنگ 10 محرم 61 ھ بمطابق 9 یا 10 اکتوبر 680 عسوی کو موجودہ عراق میں کربلا کے مقام پر پیش آہی۔۔۔۔واقعہ کربلا تاریخِ بشریت کا وہ منفرد واقعہ ھے۔ جسں میں جتنا غور و فکر کریں۔تو اتنا ہی انسان کی حیرت اور تعجب میں اضافہ ہوتا جاتا ھے۔۔ ہر برس ہر سال اس واقعے کا تزکرہ ہوتا ھے۔۔لیکن انسان کو نہ اِس سے تھکن کا احساس ہوتا ھے۔ اور نہ ہی پرانے پن کی بُو آتی ھے۔۔بلکہ ہر ساعت اور ہر لمحہ تازگی اور محبت کی خوشبو ہر سو مہکتی ھے۔۔اور ہر سال دنیا بر میں اس پاک دن کو جگہ جگہ سُننے اور سنانے کے اہتمام میں جدت اور شدت ہی دیکھاہی دیتی ھے۔۔ہر سال محرم کی آمد سے قبل ہی لوگ ہر گلی کوچہ کو سجاتے ہیں۔اور بے تاب نظر آتے ہیں۔وجہ کیا ھے اِسلۓ کہ واقعہ کربلا حق و باطل کی جنگ کا نام ھے۔۔اور دینِ اسلام کی سرفرازی اور سر بلندی کا نام کربلا ھے ۔اس واقعہ سے انسان کو انسانیت سازی اور خود سازی کا درسِ عظیم ملتا ھے۔ ہر فرد و بشر کے اندر استقامت ۔صبر ۔ شجاعت۔ غیرت۔ عزت۔ جرت ۔صداقت ۔امانت ۔شرافت ۔وفاداری ۔اور سرشاری کا عظيم اور جامعہ پیغام مل جاتا ھے۔۔

اور تاریخِ انسانیت میں جتنی جاویدانگٸ اور بلندی واقعہ کربلا کو حاصل ہوہٸ کسی دیگر واقعۓ کو یہ مقام و مرتبہ مقدر نہ بن سکا۔۔۔٦١ ھ میں پیش آنے والا یہ سانحہ آج بھی تاریخ کے دل میں زندہ حقیقت بن کر بشر کے دلوں کو گرما رہا ھے۔۔چونکہ اس واقعہ کا تعلق ایک ایسی عظیم المرتبت ہستی سے ھے۔۔ جو کاہٸنات کی ممتاز ترین شخصيت رحمت اللعالمین کے نواسے شیرِ خدا کے بیٹۓ اور جگر گوشہ بتول ہیں۔۔۔

آنحضرت ﷺ نے جن کے بارے میں فرمایا میں حسين علہ سلام سے ہوں اور حسين علہ سلام مجھ سے ہیں۔الله پاک اِس سے محبت فرماتا ھے۔جو حسين علہ سلام سے محبت کرے۔ نیز آپ ﷺ کا یہ بھی فرمان اور ارشاد ھے۔ کہ شہادت ِ حسین ابنِ علی سے مومنین کے دلوں میں ایسی حرارت پیدا ہوگٸ جو کبھی سرد نہیں پڑے گی انکی شہادت نے دینِ اسلام کو حیاتِ جاودانگٸ سے ہمکنار کیا ۔۔۔۔۔۔

حسین یو ہی نہیں سر کٹا کے سوہے ہیں
زمانہ سویا تھا اسکو جگا کے سوہے ہیں۔
شہادتِ امام نے وہ پیغام دیا ھے کہ رہتی دنیا تک کوہی یزید پلید کا نام تک نہ لۓ گا ہر زمانے میں چرچہ حسین کا ہوگا ۔۔یزید پلید نے تو انسانی فطرت کے موافق زرین اصولوں اور پاکیزہ قوانین کو امتِ اسلامیہ کے ذہنوں سے دلوں سے نکالنے کی ناکام کوشش کی تھی۔۔دینِ محمدی کے اصولوں اور فروعات میں تحریف و کمی کر ڈالی تھی۔ عقل اور فطرتِ انسانی کے خلاف خود ساختہ ۔بناوٹی اور بے بنیاد باتوں کو اسلام ناب محمدی کی تعلیمات کا حصہ قرار دے دیا تھا۔ بنو امیہ اور انکے دستر خواں پر حرام غزا سے پیٹ بھرنے والے نادانوں اور ظالموں نے ظلم و ستم کا بازار گرم کر کے امتِ محمدی کا جینا حرام اور دشوار کر رکھا تھا۔۔۔
اسلامی معاشرے سے امنیت اور چین و سکون کی نعمت چھین کر مسلمانوں کو وحشت۔خوف۔اور ظلم وستم اور بر بریت کی تاریک فضا کی گہراٸی میں حیوانی زندگی گزارنے پر مجبور کر رکھا تھا۔ مسلم معاشرے میں حق اور دینی حقائق دفن ہوچکے تھے۔۔اسلام کا چہرہ مسخ اور میلا ہونے کو تھا۔اس حالت میں سید الشہدا نے قیام فرمایا۔جس کے نتيجہ میں جنگِ کربلا یا سانحہ کربلا معرضِ وجود میں آیا۔

قربانی حسين علہ سلام اور دیگر رفقا کی شہادت نے حق کا بول بالا اور باطل کو تا قیامت سر نگوں کردیا۔۔امام عالی مقام نے اپنا اور اپنے خاندانِ پاک کا مقدس لہو دے کر اقدارِ اسلامی کو جامعہ اسلامی میں زندہ و تابیندہ کردیا۔اور نانا جان کے دینِ مبارک کو بچا لیا۔اور پیغام دیا جو حق کے ساتھ ہوتا ھے۔ وہی کامیاب ھوتا ھے ۔اور حق تعالی بھی اسی کا مدد گار ہوتا ھے۔باطل ایک دن مٹ جاتا ھے۔ باطل کا ساتھی بھی لعنتی ہوجاتا ھے۔ شہادتِ حسين علہ سلام نے ہمارے لہے عزت اور ذلت کے راستوں کی نشاندہی کرواہی۔ بشریت اور انسانیت کو جینے اور مرنے کا سلیقہ سکھایا ۔ریتی دنیا تک کے انسانوں کے لۓ نجات اور گمراہی کے رموز و اسرار سے واقف کروایا۔ قیامت تک آنے والی نسلوں کو یہ پیغامِ حق سکھایا ۔اور یہ منطق اپنے عمل اور کردار کے ذریعے بتا گے ۔کہ ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ھے۔ باطل کی کثریت سے خوف زدہ اور مرغوب ہونے کے بجاہے۔ اسکے ساتھ پوری جوانمردی و ہمت سے مقابلہ کرنے میں انسان کی عافیت اور سلامتی پوشیدہ ھے۔ کامیابی حق و صداقت کا مقدر بنتی ھے۔ اور باطل خواہ افرادی قوت زیادہ ہی کیوں نہ رکھتا ہو۔۔ بالآخر فنا اور نابود ہو جاتا ھے۔۔۔۔۔
اللهّ پاک کے بتاہے ہوہے راستوں پر چل کر قرآن و شریعت اور سنتِ و فرامینِ مصطفا ﷺ کو نمونہ حیات اور مقصد زیست بنا کر امام عالی مقام نے ایک عظیم مقصد اور نانا جان کے دین کی بقا اور سربلندی و سرفرازی کے لۓ شہادت کو گلۓ سے لگایا۔ امام نے اپنے آباہی وطن کو چھوڑا حج جیسی عبادت کو عمرہ میں تبدیل کروایا۔ تین دن کی بھوک پیاس برداشت کی خود اپنی اور اپنے رفقا کی قربانی دی۔یہاں تک کہ اہلِ حرم کی اسیری برداشت کرنے کے لۓ آمادہ ہوگے۔ انکے پیشِ نظر صرف خوشنودٸ خدا ۔ بقإ دین حفاظتِ شریعت اور تحفظِ انسانیت تھی۔۔بظاہر آپکی شمع حیات بجھ گٸ۔۔لیکن حقیقت میں آپ نے حیاتِ جاویدانٸ پاٸ۔۔اور لاکھوں کروڑوں نہیں بلکہ عربوں انسانوں کی زندگیوں کو تا قیامت تک کے لۓ ایک نجات کی شمع جلاہی جسکی روشنی سے وہ راہِ حق تک پہنچ جاہیں گے۔۔آپکی قربانی نے بشریت کو عرفان کی منزل کا پتہ بتایا۔۔تہزیبٸ اور اخلاقی اقدار کو بچا لیا۔۔شرافت کو موت کے گھاٹ اترنے سے بچایا۔۔ظلم وستم کے سامنے قیام کرنے کی ہمت و جرت دی۔ حق اور باطل کے سامنے حدِ فاضل قاہم کی۔۔۔۔۔

یزیدی فکر کو ہمیشہ ہمیشہ کے لہے دفن کر دیا۔۔مالک کا کرم اور انعام پالیا ۔آج گھر گھر سے یہ صداۓ آرہی ہیں۔۔۔اور بچہ بچہ آپ پر قربان ہونے کو مچل رہا ھے۔۔آپکی قربانی سے دین بچھ گیا ۔انسانیت سرخرو ہوگی۔۔۔۔۔۔آج کوہی یزید پلید کا نام تک لینے کو تیار نہیں ۔دوسری طرف ہر فرد و بشر اپنا نام اپنی اولاد کا نام فخر سے حسین رکھتا ھے ۔اور اس نسبت کو ذریعہ نجات مانتا ھے۔اور ہر عاسقِ مصطفاﷺ اور عاشقِ حسین علہ سلام پکارتا ھے۔۔۔

نبی کا نورِ عین ہیں
ہمارے دل کا چین ہیں
کہانٸ صرف اتنی ھے
یزید تھا۔ حسین ہیں

 

خلاصہ کلام یوں عرض کروں کہ آج کے اس پُر فتن دور میں کیا واقعہ ہی یا حقیقتن ہم عاشقِ رسول ﷺ اور عاشقِ حسين علہ سلام ہیں۔یا صرف دعوے اور زبانی لزت ھے۔۔کیا ہم آج طبيعت کی مان رہے ہیں ۔یا شریعت کی مان رہے ہیں۔۔ہمارے کام سے ہماری بات چیت سے ہمارے اسلامی معاشرے سے کون سا رنگ نظر آرہا ھے۔ اور کس فکر کی طرف جارہے ہیں۔۔پیدایش سے موت تک ہم جن جن رسومات کو کرتے ۔مانتے۔ یا شریک ہوتے ہیں۔ وہ حسینی فکر ھے۔ یا یزیدی فکر ھے ۔فیصلہ ہم نے لینا ھے۔زندگی صرف ایک بار ملتی ھے۔اور اس کی ایک سانس قبر کے ہزاروں سال سے بہتر ھے۔۔اس میں ہم ذکر۔فکر اور توبہ کے علاوہ اسلامی معاشرے میں رہ کر خدمتِ خلق کرسکتے ہیں جو باعث نجات ھے۔۔

آج ہمیں سوچنا ہوگا اگر ہم یا ہمارا کوہی قرابت دار یا دیگر کوہی مسلمان اگر کسی غلط راستے پر چل کر یزیدی فکر کو آم کر رہا ھے۔۔اُس غلیز و پلید فعل کو کر رہا ھے ۔جس سے کسی نہ کسی طرح براہی کو تقویت ملتی ھے۔۔۔۔۔چاہے وہ سود ہو۔زنا ہو۔۔چوری ہو۔۔حق تلفی ہو۔۔ وعدہ خلافی ہو۔۔رشوت خوری ہو۔۔منافقت ہو۔۔امانت میں خیانت ہو۔۔محرومی ہو۔۔ بے انصافی ہو۔۔مفلس و نادار کو ہر مقام پر کچلا جاہے۔۔ظلم و ستم ہو۔۔حیوانی زندگی گزارنے پر انسان مجبور ہو۔۔۔عقل اور فطرتِ انسانی کے خلاف کام ہو۔۔ہم باطل کی کسی نہ کسی طرح قرابت رکھتے ہوں۔۔فرض شناسی میں کمی ہو۔۔معاشرے سے ادب ختم ہو۔۔اور بھی بہت ساری چیزیں ہیں۔۔جو یزیدی فکر و فعل کو تازگی بکشتی ہیں۔۔۔۔۔ہم سب کا فرض ھے خود بھی بچنے کی کوشش کریں اور اپنے گھر بار کو معاشرے کو مل کر بچانے کی کاوشوں کو تندی بخشیں اور معاشرے کو اسلامی معاشرہ بنانے میں مل جل کر کام کریں۔۔ہر کام کو اسکے طریقہ سے کریں۔یہ صرف کسی ایک کا کام نہیں بلکہ پوری امتِ مسلمہ کے ہر فرد وبشر کی ذمہ داری بنتی ھے۔۔۔۔۔۔۔۔
آج ہم نے جان کی قربانی نہیں دینی ھے۔اولاد اور کنبہ کو نثار نہیں کرنا ھے۔۔بلکہ سب کچھ ہم سے پہلے ہوچکا ھے۔۔ہم نے قران و سنت راہِ راست اور دینِ متین پر چلنا ھے۔اور قوانینِ خدا تعالی و فرامین مصطفاﷺ پر کاربند رہ کر زندگی گزارنی ھے۔۔اسی صورت میں ہم نیک بندے۔سچے امتی اور پکے عاشقِ حسین علہ سلام بن سکتے ہیں۔۔اصل معنوں میں یہی خراجِ عقیدت کا اصل طریقہ ھے۔۔۔اسی صورت الله پاک اور نبی پاک ہم سے راضی ہوں گے۔ ہماری دنیا و آخرت بہتر ہوگی۔۔۔۔مالک۔حسین علہ سلام اور تمام شہدا کربلا کے درجات بلند فرماہے۔۔ہم سب کی مشکلات آسان فرماہے۔ راہِ دینِ اسلام کی رکاوٹيں دور اور راستے پر نور بناہے۔۔۔۔آمین ثمہ آمین،،،،،،،،،،

ہر ابتدا سے پہلے ہر انتہا کے بعد
ذاتِ نبیﷺ بلند ھے، ذاتِ خدا کے بعد
دنیا میں احترام کے قابل ہیں جتنے لوگ
میں سب کو مانتا ہوں،مگر مصطفیٰ کے بعد
قتلِ حسين اصل میں مرگِ یزید ھے
اسلام زندہ ہوتا ھے ہر کربلا کے بعد

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا