نام بدلنے کا بڑھتا جنون

0
0

محمد شاہد اعظم

مختلف مذاہب کے ماننے والے مختلف زبانیں بولنے والے صدیوں سے ہندوستان میں رہتے آئے ہیں – اس عظیم ملک کی تعمیروتشکیل میں سب کا یکساں کردار رہا ہے – آزاد ہندوستان میں ملک کے سکیولر کردارکو تقویت فراہم کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں – مگر جب سے اس ملک کو ہندوراشٹرا اور’’اکھنڈبھارت‘‘ بنانے کا نعرہ بلند ہوا ہے – تب سے مذہب کے نام پر نفرت بھڑکائی جارہی ہے اورمسلمانوں کو اس نفرت کا نشانہ بنایا جارہا ہے – صدیوں سے جو مشترکہ تہذیب اس ملک کی وراثت رہی ہے -اس کو داغدار کرنے کی مذموم کوششیں ہورہی ہیں -ویسے مرکزی حکومت ہویا پھر ریاستی حکومتیں ان کے لئے کرنے کے اہم بہت سے کام پڑے ہیں جن پر ترجیحاً فوری توجہ کی ضرورت ہے – مگر ملک کے سلگتے مسائل کے حل پر فوری توجہ دینے سے بہترمرکزی اور چند ریاستیں جہاں ہندوواد قائم کرنے کا رجحان ہے وہاں اپنے سیاسی مفادات کے حصول کیلئے نئے نئے تنازعات کھڑے کئے جارہے ہیں – صدیوں قبل ملک کی چند ریاستوں میں مسلم حکمرانوں کے رکھے تاریخی شہروں کے نام بدلنے کا رجحان بھی پچھلے چند برسوں سے زور پکڑ رہا ہے – ہندوتوا کی لہر عام کرنے تاریخی شہروں اورمقامات کے ناموں کا ’’ہندوکرن‘‘یا ’’ہندی کرن‘‘ کیا جاتا رہا ہے -اترپردیش حکومت کوششیں کرتی آرہی ہے کہ اس ریاست میں ’’مسلمانوں کے خلاف نفرت ممکنہ حد تک پھیلائی جائے – اس ریاست میں سال 1992 کے دوران وزیراعلیٰ کلیان سنگھ نے تاریخی شہر علی گڑھ کانام بدل کر ’’ہری گڑھ ‘‘کرنے کی کوشش کی تھی – مگر مخالفتوں کے بعد یہ کام ادھورا رہ گیا تھا- اب چونکہ اگلے چھ ماہ بعد اترپردیش اسمبلی انتخابات ہونے جارہے ہیں اس لئے ایک بار پھر علی گڑھ کو ’’ہری گڑھ‘‘ کرنے کا منصوبہ بنایا جارہا ہے –
اترپردیش میں شہروں کے نام بدلنا کوئی نئی بات نہیں ہے – گذشتہ ہفتے 16 اگست کو علی گڑھ ڈسٹرکٹ پنچایت بورڈ نے یوپی حکومت کو یہ تجویز منظوری کیلئے بھجوائی کہ علی گڑھ کانام بدل کر ’’ہری گڑھ‘‘ کردیا جائے اور اس شہر کاایرپورٹ (Airport) سابق وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ کے نام پر رکھا جائے -پچھلے دو سالوں سے کورونا وباء کے زیراثر بگڑی معیشت کے زیراثر یوپی میں روزافزوں بڑھتی بے روزگاری ،مہنگائی ٹھپ پڑی تجارت وصنعت میں سدھار لانے کے بجائے اسمبلی انتخابات میں یوگی حکومت ہندو توا کارڈ استعمال کرنا چاہتی ہے تاکہ مذہب کی بنیاد پر ووٹ کا بٹوارہ ممکن ہوسکے اور پھر ایک بار یوگی حکومت برسراقتدار آئے-اس کوشش میں شہروں کا نیانام کرنا اب اولین ترجیح بنتا جارہا ہے –
2017 میں یوپی میں یوگی راج کے بعد مسلمانوں کی تعمیرکردہ تاریخی عمارتوں کو مندر قرار دیا ، اور کئی تاریخی مساجد پر جبراً قبضہ ہونے کی دلیلیں پیش کرنا یہاں تک کہ تاج محل کو بھی مندر ثابت کرنے کی کمزور دلیلیں پیش ہوتی رہی ہیں -سال 2018 میں الٰہ آباد شہرکانام پریاگ راج کردیا گیا – فیض آباد ضلع کو ’’ایودھیا‘‘ نام دیا گیا – مشہور ریلوے جنکشن ’’مغل سرائے‘‘ کو دین دیال اُپادھیائے جنکشن بنادیا گیا – اوراب نگاہیں آگرہ ،مظفرنگر اورسلطان پور پر لگی ہیں کہ یہ نام بدلے جائیں -پوروانچل کے ضلع مرزاپور کانام ’’وندھیہ دھام‘‘ رکھنے کی تجویز بھی زیر غورہے – ضلع اُناؤ میں ’’میاںگنج‘‘ کو ’’مایاگنج‘‘ نام دینے کی تجویز ضلع کے کلکٹر نے یوپی حکومت کو بھجوائی ہے -نام بدلنے کی جستجواس قدر انتہا پسند ہورہی ہے کہ لگتا ہے کہ مفاد پرست حکومتیں موقع کی تلاش رہتی ہیں – راجیو گاندھی ’’کھیل رتنا ایوارڈ‘‘ کانام بدل کر ’’دھیان چندایوارڈ‘‘ کردیا گیا -ملک کی آزادی کے 75 سال کے جشن کے پوسٹر میں انڈین کونسل فار ہسٹاریکل ریسرچ ICHR نے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کانام اور تصاویر کو شامل نہیں کیا ہے – ساورکر جس نے انگریزوں سے معافی مانگ کر جیل سے رہائی پائی ایسے شخص کو ہیرو بنایا جارہا ہے -کرنے کے بہت سے کام ادھورے پڑے ہیں یا پھر شروع ہی نہیں ہوئے ہیں – مگر حکومتوں کی نام بدلنے کی لت اور اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے کے لالچ نے امن پسند لوگوں میں بے چینی پیدا کررکھی ہے -بہ حیثیت مجموعی ملک میں بسنے والے مسلمانوں کے خلاف نت نئی سازشیں اب معمول بن چکی ہیں – ملک میں اپوزیشن نام بدلنے کے چلن پر اس قدر متحرک نہیں ہے جتنی کہ امیدیں وابستہ کی جاتی ہیں –

 

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا