وارثینِ انبیاء کی فاقہ کشی اور ملی تنظیمات و تحریکات کی سرد مہری

0
0

____________________________
ازقلم: مولانا ارشد کبیر خاقان مظاہری
جنرل سیکریٹری، ابوالحسن علی ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ 82192 18181
____________________________

آج کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس امت کی جہاں پبلسٹی ہوتی ہو وہاں ساری مسلم تنظیمیں تعاون کے لیے جوق در جوق آتی ہیں، اور جہاں پر بظاہر کوئی فائدہ نظر نہیں آتا وہاں ہرگز بھی ہاتھ بڑھانے کے لئے کوئی تیار نہیں ہوتی ہے، جس کا بین ثبوت آپ کے سامنے ہے کہ اس لاک ڈاؤن نے سب سے زیادہ علماء و حفاظ اور خصوصاً مدارس دینیہ سے منسلک حضرات کو متاثر کیا ہے، ‏مگر کیا وجہ ہے کہ ان ڈیڑھ سالہ لاک ڈاؤن میں کہیں بھی کسی تنظیم نے مدارسِ دینیہ کے اساتذہ کرام کی کوئی خبر گیری نہیں لی؛ ‏کیوں کہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مدارس و مکاتب کے یہ اساتذہ مخلص اور خوددار ہوتے ہیں، یہ فاقہ کشی سے مرجانا پسند کریں گے؛ لیکن ذلت کا ایک لقمہ بھی اپنے حلق سے نیچے نہیں اترنے دیں گے، یقیناً اللہ پاک نے علمائے امت خصوصاً مدارس دینیہ کے اساتذہ کی دنیاوی ضروریات کا تکفل فرما کر دونوں جہان کی سرخروئی عطا فرمائے گا؛ لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ملت اسلامیہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے دیکھتی رہے، اور علمائے امت کی ضروریات پوری ہوتی رہے گی۔
ملت اسلامیہ کو یہ بات اچھی طرح سے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ علمائے کرام دین کے پہرے دار اور ہمارے رہبر و رہنما ہیں، جو ہمہ وقت دین کی ترویج و اشاعت اور قوم کی فلاح و بہبود کے لئے کمربستہ رہتے ہیں، جنہوں نے اپنی ساری زندگی دین متین کے لئے وقف کر دی ہو، ان علماء و حفاظ کی مکمل کفالت امت مسلمہ کا دینی فریضہ ہے، جب کہ آج سینکڑوں مدرسین و ائمہ حضرات فاقہ کشی کے عالم میں ہیں، ایسے میں امت مسلمہ کو چاہئے کہ وہ امت کے علماء وحفاظ کی ہر ممکن تعاون کریں، وہ علماء جو اپنی ساری زندگی اسلام کی اشاعت اور ہماری رہنمائی و رہبری کے لئے وقف کردیں، اور آج جب کہ قوم کے دینی قائدین معاشی مسائل کے شکار ہوگئے، تو قوم خاموش تماشائی بنے دیکھتی رہے۔
امت مسلمہ کے لئے انتہائی تشویشناک بات ہے کہ مدارس اسلامیہ سے وابستہ حضرات کا آج بے روزگاری، مفلسی، بھوک اور بیماری کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ ہوگیا ہے، جو گزشتہ تقریباً ڈیڑھ برسوں سے کینسر کی طرح لگا ہوا ہے، گھر کا ساز و سامان بیچ کر اہل و عیال کا پیٹ پال رہے ہیں؛ لیکن مشکل کی اس گھڑی میں اپنوں نے بھی ساتھ چھوڑ دیا۔ مفلسی کس قدر جاں سوز اور سماج کا رویہ کیا ہوتا ہے؟ اس کا اندازہ علمائے اہل مدارس کی زندگی سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ اس نازک گھڑی میں راقم الحروف کی ملاقات بعض ایسے حضرات سے ہوئی، جو اچھے، مستحکم ادارے میں درس و تدریس کا فرائض انجام دے رہے تھے، جن سے ان کا گزر بسر بآسانی چلتا تھا، مگر گزشتہ تقریباً ڈیڑھ سال سے تعلیمی ادارے بند پڑے ہیں، جن سے ان کی آمدنی کے ذرائع بھی پورے طور پر تھم گئے ہیں، اور نوبت یہ ہے کہ گھر کا ساز و سامان فروخت کرکے مکان مالک کو کرایہ اور بجلی کا بل ادا کرنے پر مجبور ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ اگر یہی حال رہا، تو یہ علماء و حفاظ اور دینی اداروں سے وابستہ حضرات مجبوراً معاشی بحران کی وجہ سے کوئی تجارت یا یومیہ محنت مزدوری کرنے کے لیے آمادہ ہو جائیں گے، پھر سمجھ لیجئے کہ وہ دن دور نہیں جب مسلمانوں کو جنازہ پڑھانے والا بھی کوئی نہیں ملے گا، کسی نے کیا ہی خوب کہا ہے!!
میں خون بیچ کے روٹی خرید لایا ہوں
امیر شہر بتا یہ حلال ہے یا نہیں؟
بہت افسوس ہے ان مسلمانوں پر جو اپنی منافقانہ حرکتوں سے باز نہیں آتے ہیں، اور ایسے لوگ ہر دور میں مسلمانوں کے پسِ پشت رہے ہیں، چاہے وہ عہدِ نبوی، یعنی آقائے نامدار، تاجدار کائنات ﷺ کا دور ہو، یا سلطان ٹیپو کا، یا اکابر و اسلاف کا، یا پھر موجودہ دور، گویا ایسے بےشمار منافقین ہر دور میں مل جائیں گے، جو مسلمان اور اسلام کے بڑے خیرخواہ اور ہمدردی کے دعوےدار ہیں، اور جب قوم کو ان کی ضرورت پڑتی ہے، تو یہ لوگ میدان سے غائب نظر آتے ہیں، جب بھی کہیں مسلمانوں کی خوں ریزی ہوئی، یا قدرتی کوئی آفات آئی ہو، اس کا ہر لحاظ سے ان جھوٹے مکاروں نے فائدہ اٹھایا ہے، اور یہ حقیقت ہے کہ ایسے کذاب لوگوں کے گھر کا چولہا خون مسلم کے عوض ملنے والی رقم سے جلتا ہے، مگر المیہ یہ ہے کہ آج مسلم قوم ایسے نام نہاد قائدین کی نشاندہی کرنے سے قاصر ہے، کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ اس ملک میں بے شمار تنظیمیں ہیں، کہیں مدارس کو آباد کرنے کے نام پر، کہیں مسلمانوں کی تحفظ کے نام پر، کہیں اسلام کی اشاعت وتبلیغ کے نام پر، کہیں ملی رفاہی کاموں کے لیے، تو کہیں مسلمانوں کی بد حالی کو دور کرنے کے نام پر وغیرہ وغیرہ، مگر کیا کسی نے آج تک صحیح طور پر اپنا فریضہ انجام دیا ؟ آخر کار کیوں نہیں کوئی تنظیم، یا اہل ثروت ان علماء و حفاظ اور ائمہ کی مالی معاونت کرنے کے لئے آگے آتے ہیں؟ آج وطن عزیز کے ہزاروں مدارسِ اسلامیہ میں تعلیمی نظام زیرِ التوا ہے، مگر افسوس کہ کسی کو بھی اس کی فکر نہیں ہے، اور کچھ مکار و فریبی لوگ آجاتے ہیں، جو مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہوئے ایک مذمتی بیان جاری کر کے سمجھتے ہیں کہ میں اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہوگیا ہوں، کیا ان مذمتی بیانات سے ان حضرات کے حالات بہتر ہوجائیں گے، جو مختصر سی تنخواہ پر دینی اداروں کی ملازمت کرکے اپنا گزر بسر کرتے تھے؛ لیکن یکایک لاک ڈاؤن لگنے سے ارباب مدارس نے انہیں تنخواہ دینے سے انکار کردیا،جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اکثروں کے گھر کھانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں، اور بعض حضرات سڑکوں پر بھیک مانگنے پر مجبور ہوگئے اور بعض اپنی بیٹیوں کی شادی کے لئے در بدر بھٹک رہے ہیں، مگر ان کے پاس اتنی وسعت نہیں ہے کہ وہ بچیوں کی شادیاں کرواسکیں۔ جس کے ذمہ دار صرف اور صرف یہ تمام ملی تنظیمات ہیں، خصوصاً "جمعیت علمائے ہند” اور اوقاف والے ہیں، جو مسلمانوں کے پورے سرمایہ کو غصب کئے ہوئے ہیں، پورے ملک میں مسلمانوں کے بے شمار سرمایہ اوقاف کے قبضے میں ہیں، جن سےماہانہ کروڑوں روپے کی آمدنی ہورہی ہے، آخر یہ رقم کہاں استعمال ہورہی ہے؟ کاش اگر ان ملی تنظیموں نے اپنی آمدنی کا ایک فیصد حصہ بھی لاک ڈاؤن میں علماء و حفاظ، ائمہ و مدرسین اور خدام مدارس دینیہ کے لیے بطورِ وظیفہ مقرر کر دیا ہوتا، تو شاید یہ دن دیکھنا نہیں پڑتا، اور آج کچھ اور ہی منظر ہوتا۔ امام بخش ناسخ نے کہا تھا!!
سیہ بختی میں کب کوئی کسی کا ساتھ دیتا ہے
کہ تاریکی میں سایہ بھی جدا رہتاہےانساں سے
تاہم علماء اور اہل مدارس کی حالت زار پر روشنی ڈالی جائے، اس سے قبل ایک نظر ڈالتے ہیں ائمہ مساجد کی اہمیت اور ان کے تئیں موجودہ حالات پر، دراصل اسلام اور مسلم معاشرے میں امامت ایک معزز منصب رہا ہے، اوراس پر فائز رہنے والے لوگوں کوعام و خاص ہر طبقے میں عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا ہے، جب دنیاکے بیشتر خطوں میں سیاسی و سماجی اور تہذیبی و علمی اعتبار سے مسلمانوں کاغلبہ تھا، اور مسلم تہذیب دنیاکی مقبول ترین تہذیب تھی، اس وقت امام کا مرتبہ اس اعتبار سے غیر معمولی تھا کہ وہ نہ صرف پنج وقتہ نماز، جمعہ و عیدین اور جنازے کی نمازوں میں مسلمانوں کے پیشوا ہوتے تھے؛ بلکہ اس کے ساتھ ساتھ لوگ اپنے روز مرہ کے مسائل و مشکلات کے حل کے لیے بھی انہی سے رجوع ہوا کرتے تھے، ماضی میں دین و دنیاکے کئی اہم کارنامے انجام دینے والے بے شمار اشخاص مساجدکے منبروں سے ہی وابستہ تھے۔ اسلامی کتب خانے کا اچھا خاصا ذخیرہ ائمہ کی علمی و فکری قابلیتوں کی منہ بولتی تصویر ہے۔ ان کی اہمیت و برتری اور فضیلت کو در اصل اللہ کے نبیﷺ نے اپنے قول و عمل کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں بٹھایا تھا؛ لہذا کتب احادیث میں ائمہ کے بارے میں اتنی فضیلتیں وارد ہیں، جنہیں جان کر ایک عام انسان کے دل میں حسرت پیدا ہونے لگتی ہے کہ کاش وہ بھی امام ہوتا؛ لیکن دوسری جانب جب ہم موجودہ وقت میں اپنے معاشرے کے ائمہ کی صورتِ حال اوران کے ساتھ لوگوں کے رویوں کامشاہدہ کرتے ہیں، تو نہایت افسوس اور تکلیف ہوتی ہے، اور پھر عام حالتوں میں کوئی بھی شخص امام بننے کاخواب نہیں دیکھتا؛ لہذا اِس وقت مسلمانوں میں بے شمار سماجی اصلاحات کے ساتھ ساتھ ایک اہم کام یہ بھی ہے کہ ائمہ اور موٴذنین کے تئیں لوگوں کے دلوں میں احترا م اور وقار کاجذبہ پیدا کیاجائے۔ اسلام میں ان کا جو مقام و مرتبہ بتایا گیاہے، اس سے لوگوں کو روشناس کرایا جائے، اور لوگوں کو مساجد سے جوڑتے ہوئے ائمہ کی مخلصانہ اقتدا کا ماحول بنایا جائے، اور امام کی ضروریات کا بھرپور خیال رکھا جائے؛ کیوں کہ آج کا دور تو اتنا مہنگا ہوگیاہے کہ لاکھوں کمانے والے بھی پریشان ہی رہتے ہیں؛ لیکن کیا مساجد کی تعمیر و تزئین میں لاکھوں کروڑوں خرچ کرنے والے ہم مسلمان اپنے ائمہ اور موٴذنین کو اتنی تنخواہیں نہیں دے سکتے کہ وہ بہتر اور اطمینان بخش زندگی گزارسکیں؟ آج کے دور میں ائمۂ و مؤذنین کی تنخواہیں تو نہایت ہی مختصر ہوتی ہیں، مگر افسوس کہ وہ بھی وقت پر موصول نہیں ہوتی ہیں، جن سے ان کی زندگیاں اجیرن بنی ہوئی ہے، پرائیویٹ اماموں کے احوال تو کچھ حد تک بہتر ہیں، مگر وقف بورڈ کے اماموں کے حالات بیان کرنے کے لائق ہی نہیں، خصوصاً ہریانہ وقف بورڈ کے تحت آنے والے ائمہ حضرات گزشتہ کئی ماہ سے ماہانہ مشاہرہ نہ ملنے سے پریشان ہیں، غور طلب ہے کہ گزشتہ ڈیڑھ سال سے ہریانہ وقف بورڈ کے چیئرمین کا تقرر ابھی تک نہ ہو سکا ہے، چیئرمین کی تقرری کا معاملہ پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے، بورڈ کا کوئی چیئرمین اور ایڈمنسٹریٹر نہیں ہونے کے سبب بورڈ کے جملہ امور بری طرح سے متاثر ہیں، شاید اسی وجہ سے ہی ائمہ کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، آخر ان مشکلات کا کب ہوگا حل؟ آج ہریانہ وقف بورڈ کے اماموں کی مفلسی اور فاقہ کشی کی آوازیں سرکار کی کانوں تک کیوں نہیں پہنچ رہی ہیں؟ اور نہ اوقاف پر اس کا کوئی اثر دیکھنے کو ملتا ہے، اس مہنگائی کے دور میں ایک معمولی پریوار کو ماہانہ گھر چلانے کے لئے کتنی رقم کی ضرورت پیش ہوتی ہے، یہ ہر کسی کے سامنے عیاں ہے، ایک امام جس کی مختصر سی تنخواہ ہوتی ہو اور وہ بھی وقت پر موصول نہ ہو تو اندازہ لگائیے کہ آخر وہ کس طرح ضروریات زندگی ان حالات میں پوری کرتے ہوں گے، اور ان کو کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہوگا؛ لہذا بورڈ کے ائمہ کے کچھ حقوق ہیں، جن پر اوقاف کی توجہ مبذول کرانے کی اشد ضرورت ہے، جیسے طبی امداد، مہنگائی بھتہ، بیٹیوں کی شادی میں تعاون، یہ سلب کر لیے گئے ہیں، عصرحاضر کے تناظر میں مطالبہ ہے کہ بورڈ ان تمام وظائف کو بدستور جاری کرے؛ تاکہ ائمہ بھی عام انسانوں کی طرح خوشحال زندگی بسر کرسکیں، ورنہ آج کے دور میں حالات کے مارے کچھ علمائے مدارس، حفاظ کرام اور ائمہ تو نظیر باقری کی اس شعر کو کہتے نظر آتے ہیں۔
کھڑاہوں آج بھی روٹی کے چار حرف لئے
سوال یہ ہےکتابوں نےکیا دیا مجھ کو ؟

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا