پروفیسرڈاکٹر شمس کمال انجمؔ اور سوشل میڈیا (یو میات کے حوالے سے کچھ باتیں)

0
0

کالم نگار:۔ڈاکٹر مجدّدی مصطفٰی ضیفؔ
سرینگر کشمیر
عہد حاضر سائنس و ٹکنالوجی کا دور ہے جس کی بدولت زندگی کے ہر شعبے میں ترقی اور تیز رفتاری کا عمل جاری و ساری ہے، دوریوں کا تصور ختم ہو چکا ہے اور عالمگیریت کے تصور نے ہماری دنیا کو عالمی گائوں میںتبدیل کر تے ہوئے نہ صرف (Post Modern Cultural Condition)میں داخل کر دیا ہے بلکہ ہم پو سٹ ،پو سٹ ماڈرن (Post-Post Modern)ثقافتی عہد میں قدم رکھ چکے ہیں اور اس ثقافتی صورت حال نے چھو ٹی اور ضمنی تہذیبوں یا ثقافتوں ( Sub Altern Cultures) کے ساتھ ساتھ بڑی اور ترقی یا فتہ ثقافتوں کے عناصر کو ایک دوسرے میں ضم یا جذب و انجذاب کے عمل میںاہم کر دار ادا کیا ہے اور یہ عمل تیزی کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ دوریوں کو کم کرنے یا ثقافتی لین دین کے اس عملِ مسلسل میں جو ہمارے کل علمی سرمائے پر مشتمل ہے سوشل میڈیا کا کردار اہمیت کا حامل ہے۔گویا سوشل میڈیا کے ذریعے ہم نے نہ صرف کسی دوسرے کلچر تک رسائی حاصل کی ہے بلکہ اس نے ملکی و جغرافیائی حدود کے تصور کو ختم کر تے ہوئے مختلف لسانی،نسلی اور مذہبی گروہوں کے لیے ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع بھی فراہم کیا ہے۔
سوشل میڈیا کے اس مثبت کر دار کو ذہن میں رکھتے ہوئے اگربرِ صغیر یا ہندوستان خاص طور پر اردو زبان کے حوالے سے بات کی جائے تو اس میںبابا غلام شاہ بادشاہ یونی ورسٹی میں شعبہ عربی اور اسلامیات کے سر براہ پروفیسر ڈاکٹر شمس کمال انجم ؔکا نام قابل ذکر ہے جو بنیادی طور پر عربی زبان وادب کے اسکالر اور عربی ادب و علم دین پرگہری نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ اردو زبان و ادب،ادبی تحریکات، رجحانات و روایات(Urdu Culturology)سے بھی گہری واقفیت رکھتے ہیںنیز انہوں نے نہ صرف عربی زبان وادب کی تاریخ وتنقید پر مبنی اہم کتب کے اردو تراجم کر کے دنیا کی اس قدیم اور بڑی زبان کے ادبی ذخیرے اور ادبی روایات سے ہم اردو والوں کو روشناس کرا یا ہے بلکہ ان کا شمار اردو کے اعلیٰ شعراء میں بھی ہوتا ہے اور وہ فنِ شعر کی باریکیوں کا علم بھی رکھتے ہیں۔پروفیسر صاحب نے اپنی شعری ونثری تخلیقات کے ذریعے اردو کے علمی و ادبی سرمائے میں جو اضافہ کیا ہے وہ گنجہائے گرانمایہ ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر شمس کمال انجمؔ اپنے علمی،ادبی اور ثقافتی تجربات و مشاہدات کا اظہار عوامی رابطے کے سب سے بڑ ے ذریعے فیس بک پر’’یو میاـــــــــــــــــــــــــــــــ ــــــــــــــــــــــــــــ ت ‘‘کے عنوان سے کر تے رہتے ہیں اور سوشل میڈیاپر ان کی اس عنوان سے پیش کردہ تحریروں کونہ صرف شوق سے پڑھا جاتا ہے بلکہ علمی و ادبی حلقوں میں بڑے احترام سے دیکھا بھی جاتا ہے جس کی مثال کے طور پر (Comment Section ) میں باذوق قارئین کی طرف سے کیے جا نے والے ان تبصروں اور خیالات کو پیش کیا جا سکتا ہے جو گہری علمی بصیرت کے حامل ہیں۔
’’ یومیات‘‘ کے سوتے معروف عربی شاعر وادیب طحٰہ حسین جن کا عربی ادب میں اپنا ایک مقام ہے کے دورِ طالب علمی کے تجر بات پر مبنی ان کی ڈائری(روزنامچہ)جو انہوں نے ’’الایام‘‘ کے نام سے لکھی اور بعد میںاسی نام سے شائع بھی کی سے ملتے ہیں۔’’الایام‘‘میں جہاں طحٰہ حسین نے دور طالب علمی کے مختلف تجربات کا اظہار عربی زبان میں کیا ہے وہیں ’’یومیات ‘‘ میں پروفیسر شمس کمال انجمؔ اردو زبان کے وسیلے سے عرب و عجم کی معروف ادبی شخصیات کے حالات زندگی اور ادبی خدمات اور ان کی اہم تصنیفات پر خامہ فرسائی کے علاوہ اپنے ذاتی تجربات،تاریخی باتیں،علمِ عروض،صرف ونحو،مذہبیات،ادیبوں کے خاکے،عربی وہندی سماجی و ثقافتی علوم کاتعارف،دانشوروں اور عوام الناس کے مسائل،امراء کے قصے،سیاسی امور،مذہبی معاملات،طالب علمی کے دور اور یو نی ورسٹی کے ایام کی علمی سر گر میاں اور شب وروز کی باتیں وغیرہ متعدد یامختلف النوع موضوعات پر مبنی ایک ایسا تحریری سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیںجس کی نظیر اردوادب اور سوشل میڈیا کے موجودہ منظر نامے پر بہت کم ملتی ہے یا ملتی ہی نہیں۔
پروفیسر شمس کمال انجم ؔکی تحریروں خاص طور پر’’ یو میات‘‘ کے سوشل میڈیا پر اثرات کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو میں اس طرح کہوں گا کہ یہ سلسلہ علم و آگہی یا شعور کے پر چار کا دورِ حاضر میں نہایت ہی مؤثر ذریعہ ہے۔’’یومیات‘‘ کے ذیل میں پروفیسر موصوف جو کچھ بھی تحریر کرتے ہیں اس سے بہترین معاشرتی اقدار کے فروغ کے ساتھ ساتھ مجموعی طور پر نوجوانوں کا ذہن فکری سطح پر بھی مثبت سمت میں آگے کا سفر طے کرتا ہے۔’’یومیات‘‘ میں وہ جو کچھ بھی تحریر کرتے ہیںاسے ’’ابلاغِ صدق‘‘ کے ذیل میں رکھا جا سکتا ہے،یعنی اظہارِ خیال کے اس سلسلے کے ذریعے وہ قارئین تک صحیح اور سچی جانکاری پہنچاتے ہیں جو پیغمبرانہ روش ہے۔’’یومیات‘‘ کے عنوان سے پیش کی گئی تمام تر تحریروں کا مقصد یہ بھی ہے کہ فیس بک پہ آکے ان کا مطالعہ کرنے والے تمام قارئین خاص طور پر نوجوانوں کی ذہنی تربیت کچھ اس ڈھنگ سے کی جائے کہ وہ اظہارِ رائے کے اس پلیٹ فارم کا استعمال علمی میراث کے فروغ،بازیافت یااچھے تعمیراتی اورنیک مقاصد کے لیے کریں۔
’’یومیات‘‘ علم و حکمت کی باتوں سے مزین اپنی نوعیت کاایک ایسا تحریری سلسلہ ہے جس کی نظیر بر صغیر کے اردو ادیبوں کے ہاں بہت کم ہی ملتی ہے یا ملتی ہی نہیں۔اس تحریری سلسلے کے بارے میں بات کرتے ہوئے یا ’’یومیات‘‘میں پیش کردہ پروفیسر شمس کمال انجمؔ کی تحریروں کا مطالعہ کر تے ہوے میرے ذہن میں محسنِ انسانیت حضرت رسول اکرم ﷺ کا یہ مقدس ارشادِ گرامی گردش کرتا رہتا ہے کہ’’حکمت کی بات بندہ مومن کی گمشدہ میراث ہے‘‘اور ’’ یومیات‘‘ کی اکثر تحریریں اس میراثِ عظیم کی باز یافت کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔
اس سلسلے کے تحت لکھی گئی ہر تحریر فرد اور جماعت کو سنوارتی اور صالح بناتی ہوئی نظر آتی ہے اور اگر عصر حاضر میںسوشل میڈیا کے منفی اثرات ذہن میں رکھتے ہوئے بات کریں تو یہ تحریریں نوجوانوں کی سوچ اور نفسیات کو مثبت راہوں کے سراغ دکھانے کی جستجو کرتی ہوئی نظر آتی ہیں،ان کے مطالعے سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ مصنف اور تحریر دونوں نوجوانوں کے ذہنوں میںغیر معمولی انقلاب برپا کرنے کی آرزو رکھتے ہیں،ایسا انقلاب جس کا بنیادی مقصد اپنی جڑوں کی تلاش،اپنی تہذیبی وثقافتی روایات کی بازیافت اور تحفظ ہو۔اس مقصد کے حصول کی غرض سے پروفیسر ڈاکٹر شمس کمال انجمؔ اکثر و بیش تر بڑے اور اہم عربی ادباء و دانشوروں کے سوانحی کوائف اور ادبی وعلمی خدمات اختصار مگر کمال ہنر مندی کے ساتھ کچھ اس انداز میں پیش کرتے ہیں کہ بقول شاعر:۔
؎ دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے‘‘ (ختم شُد)
نوٹ:(کالم نگار ادب میں ڈاکٹریٹ،اسکالرو براڈکاسٹراور شعبہ درس و تدریس سے وابستہ ہیں)۔
٭٭٭٭٭٭

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا