صدام پٹیل (جلگاؤں)
جب ایمان کمزور ہوجاتا ہے، اخلاق ختم ہوجاتے ہے، اقدار کی بجائے مال و دولت کی حوس بڑھ جاتی ہے، مقصد سے زیادہ عزیز جان بن جاتی ہے، محنت و مشقت کی بجائے سستی و کاہلی آجاتی ہے اور اتحاد و اتفاق کی بجائے انتشار و مخالفت جب کسی انسانی گروہ میں پیدا ہوجاتے ہے تو سمجھ لیجیے کے اس کا وقت مکمل ہوا۔ جو سفر اب تک عروج کی طرف تھا اب وہی سفر چوگنی تیزی سے زوال کی طرف شروع ہوجاتا ہے۔ کسی گروہ کی کامیابی میں اس کی مجموعی تصویر کلیدی حیثیت کی حامل ہوتی ہے۔ جب دیکھنے والے تصویر میں داغ دیکھے گے تو اس کی قدر نہیں کرینگے اور اس کی قیمت داغ کی وجہ سے کم ہوجائے گی۔ اسی طرح جب کسی انسانی گروہ میں غیر اخلاقیت، بے مقصدیت، سستی و کاہلی اور انتشار کے داغ لگ جاتے ہے تو وہ اپنا مقام کائنات میں کم کر لیتے ہے۔
ان داغ کا سب سے زیادہ اثر نئی نسل میں دکھائی دیتا ہے۔ اور دشمن بھی انہی پر اپنی زیادہ قوت کا استعمال کرتا ہے۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہی وہ طبقہ ہے جو اپنے اندر زندگی کی قوت و صلاحیت رکھتا ہے۔ اگر اسے نقصان نہیں پہنچایا گیا تو اس ملت کی زندگی یو ہی برقرار رہے گی۔ یاد رکھیے ایک فرد کی زندگی کا انحصار اسی کی ذات پر ہوتا ہے جب کےایک گروہ کی زندگی کاانحصار اپنی نئی نسل پر۔ یہ نئی نسل ہی ہوتی ہے جو اپنے گروہ کی زندگی کا تعین کرتی ہے۔ ان ہی کے پاس ملت کے مستقبل کا خاکہ ہوتا ہے، یہی اپنی ملت کو زمانہ سے ہم آہنگ رکھتے ہے۔ان ہی کے وجود سے قوم اپنے خوابوں کو وسعت دیتی ہے۔ نئے محاذوں کے راستے تلاش کرکے کامیابی سے زیر کرتی ہے۔
یہ سب جب ہی ممکن ہوتا ہے جب ملت اپنی نئی نسل کی تربیت پر توجہ دیتی ہے۔ جو ملتیں اپنی نئی نسل کی تربیت کو یقینی نہیں بناتی ہو اپنی موت آپ مر جاتی ہے۔ تربیت ایک ایسا محاذ ہے جس پر ہر وقت کام ہوتے رہنا چاہئے۔ موجودہ حالات پر جب غور کیا جاتا ہے تو یہاں تربیت کی ذمہ دای تعلیمی اداروں کے سپرد کی گئی ہے، لیکن جب ان کی صورتحال پرغور کیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ وہ قتل گاہیں بن گئے ہیں جو باطل قوتوں کے ادھورے کام کو مکمل کرتے ہیں۔ آج کے تعلمی اداروں میں عقاب کے بچوں کو خاک پروازی کی تعلیم دی جاتی ہے۔ یہاں ان کی صلاحیت، مقصد، تخلیقیت، نیک جذبہ اور صالحیت کو قتل کر دیا جاتا ہے۔
اگر کسی ملت کو اپنی زندگی برقرار رکھنا ہے تو تربیت کے وسائل پر خصوصی توجہ دینا بہت ضروری ہے۔ خاص کر کے تعلمی اداروں کا تزکیہ ایک اہم کام ہے۔ ان ہی میں ملت کی اکثریت تربیت پاتی ہے اور اپنی ملت کی زندگی کو قائم رکھتی ہے۔
تعلیمی اداروں کے بعد جہاں یہ تربیت پاتے ہیں وہ اپنا ماحول ہے۔ ہم جانتے ہے کہ صحراؤں میں کبھی باغ آباد نہیں ہوتا۔ ایک مچھلی زمین پر زندہ نہیں رہ سکتی ہے اور نہ ہی ایک ہاتھی پانی میں۔ اسی کے ساتھ صحرہ میں کڑوے درخت ہی ملیں گے۔ اور باغ میں شریں و ذائقہ دار پھل۔ بالکل اسی طرح ماحول(سماج)کی تربیت میں اپنی حیثیت ہے۔ جو سماج اخلاقی اور صلاحیتی اعتبار سے جتنے مضبوط وہ ہوتے ہے ان کی نئی نسل بھی اتنی ہی بااخلاق و صلاحیت مند ہوتی ہے۔اگر ماحول ان کو مقصد سے لگاؤ کی تربیت دیتا ہے تو یہ مقصد کے لیے جانیں دیتے ہیں۔ جب سماج سے ان کو انسانیت کی مدد کرنے کی تعلیم دی جاتی ہے تو یہ سب سے بہترین مدد کرنے والے ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس جب ماحول سے ان کو بداخلاقی وبے مقصدیت کی تربیت ملتی ہے تو یہ بھی بد اخلاق و بے مقصد ہوجاتے ہے۔
اگر کوئی ملت اپنے نوجوانوں کے ساتھ شفقت کا رویہ اختیار کرتی ہے تو یہ نوجوان ملت کو بہادری دیتے ہے۔ جب سماج ان کی قدر کرتا ہے تو یہ اخلاقیت کے سب اونچے مقام پر جانے کی کوشش کرتے ہے۔ اس لیے تربیت میں ماحول کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اگر آپ چاہتے ہے کہ آپ کی نوجوان نسل بااخلاق ہو تو آپ کی ماحول کی ہر چیز اس مقصد کے گرد گردش کرتے نظر آنا چاہیے۔ یہ تو ممکن نہیں کہ صحرہ میں آپ پھل دار درخت کی امید کرے ۔
تعلمی اداروں اور سماج کے بعد جہاں نئی نسل کا وقت سب سے زیادہ صرف ہوتا ہے وہ ہے وہ گھرہے۔ تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جب گھر میں بچپن ہی سے صحیح تربیت ملنا شروع ہوجاتی ہے تو بچپن ہی سے عظیم کام بھی شروع ہوجاتے ہے۔ انسان کے سب سے زیادہ جذبات اپنے گھر سے وابستہ ہوتے ہے۔اور یہی سے انسان کو اخلاق و صالحیت میں استقامت ملتی ہے۔ جو نوجوان نسل یہ دیکھ کر بڑی ہوتی ہو کہ ان کے والدین مقصد کے حصول کے لیے اپنی جانیں تک دے سکتے ہیں اور اپنے کردار کی حفاظت کے لیے بڑی سے بڑی آزمائش سے گزر سکتے ہیں۔ وہ نسل کیسے بے مقصد رہ سکتی ہے۔
اگر نوجوان نسل کی گھر ہی سے تربیت شروع ہوجائے توماحول اور زیادہ مضبوط بن جاتا ہے۔
جب ہم موجودہ مسلم دنیا کا ایک سرسری جائزہ لیتے ہے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ امت مسلمہ کی زوال ایک بڑی وجہ تربیت کا نظام ہے۔ ہمارے تربیتی نظام میں نہ وہ قوت ہے اور نہ وہ صلاحیت جو زندہ قوموں کے نظام ِ تربیت میں پائی جاتی ہے۔ ایمان ،اخلاق، مقصد، اتحاداور اقدار یہ وہ بنیادی ستون ہے جس پر امت مسلمہ کا تربیتی نظام تعمیر ہوتا ہے۔ جب ہم اپنے تعلیمی ادارے، سماج اور گھر کا ان عناصر(ایمان ،اخلاق، مقصد، اتحاداور اقدار) کے حوالے سے جائزہ لیتے ہے توانتہائی کمزور پاتے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے گھر، سماج اور تعلمی اداروں کو مظبوط کرے۔ اور سب سے پہلے اپنی نوجوان نسل کی تربیت کا ایک منظم منصوبہ بنائے۔ یہ کام سب سے پہلے کرنے کا ہے۔ کیونکہ ہماری نوجوان نسل باطل قوتوں سے تربیت حاصل کر رہی ہیں اور ان کا کام خود کر کے اپنی ملت کو موت کی طرف لے جارہی ہے۔
یاد رکھیے زندہ ملت کی زندگی اس کے تربیتی نظام پر منحصر ہے۔