"یرو شلم کے بارودی حالات "۔

0
0

 

 

 

۔______________________
از قلم : شیبا کوثر
۔_____________________
ہوتی نہیں ہے یونہی ادا یہ نماز عشق

یا ں شر ط ہے کہ اپنے لہو سے وضو کرو

کیسے ممکن ہے کہ رمضان کا مہینہ ہو اور بیت المقدس (یرو شلم ) سے تشدد کی اطلا عات نہ آئیں ۔اس بار بھی لیلتہ القدر اسرائیلی پولیس اور مسجد اقصیٰ میں عبادت کے خواہش مند ہزاروں فلسطینو ں کے درمیان جھڑ پوں میں بیت گئی ۔
گذشتہ دس روز سے ہونے والے ہنگا موں میں پانچ سو زائد فلسطینی زخمی ہو چکے ہیں ۔زیادہ تر جواں سال مگر ان میں پندرہ برس سے کم عمر کے انتیس بچے بھی شامل ہیں ۔اور جو سینکڑوں فلسطینی گرفتار ہوئے ہیں ان میں بھی کم از کم دس بچے ہیں زخمیوں کو اٹھانے والی ایمبولینسوں کو بھی اسرائیلی پولیس نے بار بار روکا اور طبی امداد دینے والے ایک عارضی کلینک کو بھی نقصان پہنچایا ۔
ہنگا مے اتنے شدید ہیں کہ با ئیڈن انتظامیہ کو تشویش نوٹس لینا پڑ گیا ہے۔وہائٹ ہاؤس کے ایک بیان میں اسرائیل اہل کاروں پر زور دیا گیا ہے کہ "وہ مشرق یر و شلم کے رہائشوں سے نرمی اور عزت سے پیش آئیں۔”
تازہ جھگڑا جب شرو ع ہوا ؟ جب یرو شلم کی ایک ضلعی عد ا لت نے گذشتہ ماہ حکم صا در کیا کہ مشرقی یرو شلم کے قدیم محلے شیخ جراح میں تقریبا ًستر برس سے آباد چھ فلسطینی پناہ گز یں کنبے یکم مئی تک گھر خالی کر دیں تا کہ ان میں یہودی آباد کاروں کو بسایا جا سکے ۔سات دیگر خاندانوں کو گھر خالی کرنے کیلئے یکم اگست تک مہلت دی گئی ہے اس حکم پر عمل در آمد کے نتیجے میں سترہ بچوں سمیت انٹھاون فلسطینی چھت سے محروم ہو جائیں گے ۔یہ سب آچا نک نہیں ہوا ۔جگہ انیس سو تہتر ،(1973) میں وزیر اعظم گولڈ اما ئر کی کا بینہ کے اس فیصلے کے مطابق ہے جس کے تحت مقبو ضہ یرو شلم میں نوے فیصد./. 90 عرب آبادی کو مرحلہ وار بے دخل کر کے شہر میں آبادی کا تنا سب ستر( 70) میں کرنا ہے ۔یعنی ستر فیصد یہودی اور تیس فیصد فلسطینی عرب ۔
فلسطینی مشرقی یرو شلم کو مستقبل کی ریاست کا دارا لحکومت سمجھتے ہیں جبکہ اسرائیل پورے یرو شلم کا دعوے دار ہے چنانچہ انیس سو سرسٹھ (1967) میں فوجی قصبے کے بعد یرو شلم کی آبادی کا تنا سب بدلنے کے لئے اب تک دو لاکھ یہودی بسا ئے جا چکے ہیں ۔ایک لاکھ چالیس ہزار فلسطینوں کو طرح طرح کے قانونی حیلو ں کے ذریعےباہر دھکیلا جا چکا ہے اور شہر میں ان کے دوبارہ بسنے پر قانونی پابندی ہے ۔
گذشتہ برس مشرقی یرو شلم میں یہودی کے لئے مذید ساڑھے چار ہزار نئے گھر تعمیر کئے گئے اسی عرصے میں پرانے شہر میں ایک سو پانچ گھروں سمیت ایک سو ستر فلسطینی املا ک منہدم کی گئیں ۔یوں مذید تین سو پچاسی فلسطینی بے گھر ہو گئے ۔
اپریل کے وسط میں نئی بے دخلی کا ماحول بنانے کیلئے کٹر قوم پرست یہودی گرہ ہوں نے پرانے شہر میں گشت شرو ع کر دیا اور پولیس کی موجو دگی میں فلسطینی باشندوں کو تشد د کا نشانہ بنایا گیا تاکہ خوف و ہرا س کی فضا میں اگلے مرحلے کی راہ ہموار ہو سکے ۔یکم مئی کو اسرائیلی پولیس کے پہر ے میں شیخ جرا ح محلے کے چھ گھروں سے فلسطینی خاندانوں کو باہر نکال کر انکا سامان پھینک دیا گیا ۔اور گھروں کو ان یہودیوں کے حوالے کر دیا گیا جو گذشتہ سال امریکہ سے یہاں مستقل آباد ہونے کی نیت سے پہنچے ہیں ۔جب ایک فلسطینی لڑکی اپنے ہی گھر میں گھسنے والے یہودی آبادکار پر چیخی کہ تمہیں کیا حق ہے ہمیں باہر نکالنے کا ۔اس آباد کار نے جواب دیا "اگر میں قبضہ نا کرتا تو کوئی اور کر لیتا "۔
اگرچہ بین الاقوامی قوا نین کے تحت فوج کے زیر انتظام مقبو ضہ علا قوں میں قابض طاقت کا عدالتی نظام لاگو نہیں ہو سکتا ہے مگر اسرائیلی قانونی حصّہ ہے لہذا یہاں بھی ریاستی قوا نین کی عمل و بر تری ہوگی ۔
گذشتہ ماہ کی ستا ئیس تاریخ کو انسانی حقوق کی سرکر دہ تنظیم ہیو مین رائٹس واچ نے اسرائیل کی مرحلہ وار نسل کشی پالیسیوں پر پہلی بار دو سو تیرہ صفحات کی ایک تفصیلی رپورٹ جا ری کی رپو رٹ جا ری کی ۔رپو رٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ پچھلے تہتر (73) سال میں اسرائیل اپنی سلامتی کے نام پر جتنی بھی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے ۔ان کا تعلق سلامتی سے کم اور نسل پرستا نہ طرز عمل اپنا کر ایک پوری قوم کا محاصرہ کر کے بے دخل کرنے کی کو ششوں سے زیادہ ہے رپو رٹ کے مطابق یہ پالیسی چار ستو نوں پر کھڑی ہے ۔کردار کشی ،سیاسی و سماجی علیحدگی مسلسل دباؤ ۔بے دخلی ،اس پالیسی کی کامیابی کیلئے کثیر سمتی اقدامات مسلسل ہیں ۔یعنی زمینی حقا ئق بدلنے کے لئے آباد کاری کا عمل تیز تر کیا جائے ۔پرانی آبادی کو قانون کی آڑ میں گھروں سے بے دخل کیا جائے ۔زر حی راضی کو ہر قانونی حیلے بہانے سے ہڑپ کیا جائے۔فلسطینی عربوں کو نئے تعمیراتی پر قطعاً جاری نہ کئےجائیں ۔ان کے روزگار کو پوری طرح کنٹرول کیا جائے ۔چیک پوسٹوں پر ذلّت آمیز سلوک کے ذریعےعدم تحفظ و بےچینی کی کیفیت میں رکھا جائے۔جب ان پالیسیوں کے خلاف احتجاجی رد عمل ہو تو بلا امتیاز تشد د ،گرفتا ریوں تار چر اور ہلا کتوں کے ذریعے دبایا جائے۔
رپو رٹ میں کہا گیا ہے کہ ان پالیسیوں کا تعلق اسرائیل کی جغرا فیائ سیکورٹی کی جائز ضروریات سے کم اور انسانی حقو ق کی با ضبطہ پامالی زیادہ ہے کسی بھی سیکو رٹی نظریے کی آڑ میں بنیاد ی حقوق پامال نہیں کئے جا سکتے ۔اسرائیل ان پالیسیوں کے سبب ایک اپا ر تھائید ریاست کی تعریف پر لگ بھگ پورا اترتا ہے ہیومین رائٹس واچ کی اس کھلی رپور ٹس پر امریکہ نے حسب توقع بس یہ کہاکہ "فریقین کو صبر تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے ۔”مگر رپورٹ اتنی سنسنی خیز تھی کہ بی بی سی اور برطانوی اخبار گارڈین کے علاوہ۔ امریکی۔ چینل سی این این۔ اخبار نیو یارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ بھی اس کے تذ کرے پر مجبور ہو گئے ۔حالانکہ امریکی میڈیا یا با لخصو ص اسرائیل پر تنقیدی آرا ءنشریا شایعءکرنے سے محتاط روی برتتا ہے ۔
مگر سب سے زیادہ حیرت کینیڈا کے رویےپر ہے کینیڈا کی شہرت یہ ہے کہ وہ انسانی حقوق کے معاملات کو نہ صرف روایتی سنجیدگی سے لیتا ہے بلکہ باضابطہ رائے بھی دیتا ہے چین میں شن چیا نگ کے مسلمانوں کا معا ملہ ہو ،یا شام میں انسانی حقو ق کی ابتری یا سعودی عرب میں انسانی حقو ق کار کنو ں کی ہرا ست یا برما میں فوجی آمریت کا عوام پر تشدد وزیر اعظم جسٹس ٹرو ڈواور ان کے۔ وزیر خارجہ مارک گارنوول کی بات کھلم کھلا کہنے سے بھی چوکتے ۔مگر اسرائیل کے بارے میں ہیومین رائٹس واچ کی بارودی رپورٹ شایع ء ہو نے بعد سے حکومت خاموش ہے سوائے دی کینیڈین پریس وائر اور اور اخبار دی گلوب اینڈمیل پورے میڈیا کو سانپ سونگھ گیا ہے اگر کینینڈا جیسا ملک بھی آنکھ ملانے کو تیار نہیں ہے تو اس سے اسرائیل لابی کی طاقت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔..!

sheebakausar35@gmail.com

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا