میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے

0
0

از قلم :سمانی سمیّہ عبدالحیٗ ساکی ناکہ،ممبئی

جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ اس ٹیکنالوجی کے دورمیں حیران کن ایجادات کی وجہ سے گھر بیٹھے ہمارے پاس مختلف النوع معلومات آتی رہتی ہیں ۔ بالخصوص سوشل میڈیا ایپس پر جن میں سے کچھ من گھڑت ، کچھ افواہیں اور چند ہی پکّی و سچّی ہوتی ہیں۔اسی قبیل کے واٹساپ پر بھی بہت سے مذہبی اور اخلاقی پیغامات بھی آتے ہیں لیکن ان میں سے کچھ پیغام کافی پُر اثر ہوتے ہیں جوہماری زندگی میں بدلاؤ بھی لا سکتے ہیں آپ کی فکر کو ایک نیا موڑ دے سکتے ہیں۔ میری زندگی میں بھی ایسا ہی رونما ہوا جس نے میری فکر ہی بدل دی لوگ سوشل میڈیا کا اعتبار نہیں کرتے لیکن اسی سوشل میڈیا نے مجھے اپنے خالق کے متعلق ایک مضبوط اعتبار دے دیا ۔
ایک دن میں واٹس ایپ پر آئے ہوئے میسجز دیکھ رہی تھی ان میں سے ایک پیغام کچھ اس طرح تھا کہ "ایک شخص روزانہ معمول کے مطابق اپنے کام پر جاتا اور ایمانداری سے اپنے کام کو پُرکر کے کام کا وقت ختم ہونے کے بعدلوٹ جاتا۔دن بدن کام بڑھتے رہے لیکن تنخواہ میں کچھ اضافہ نہ کیا گیا۔پھر بھی وہ شخص معمول کے مطابق خوش اسلوبی سے اپنے کام کو انجام دیتا اور اپنے گھر لوٹ جاتا تھا۔مالک یہ سوچ کر پریشان ہوا کہ نہ ہی اس شخص نے تنخواہ بڑھانے کی ضدکی اور نہ ہی کام زیادہ دینے پر غصے کا اظہارکیا۔ بلکہ دیے گئے کام کو خوش اسلوبی سے نبھا کر گھر لوٹ جاتا ۔ پھر اتفاق سے مالک نے اس کی تنخواہ میں پانچ ہزار روپے کا اضافہ کیا۔اس پر بھی اس شخص نے اپنے مالک کی خوش آمدید نہیں کی بلکہ وہ شخص پہلے کے جیسے ہی معمول کےمطابق آتا اور اپنے کام کو اسی طرح خوش اسلوبی سے نبھا تا اور گھر لوٹ جاتا ۔
مالک بہت ہی حیران و پریشان ہواکہ آخر کیا وجہ ہے کہ کام زیادہ ، تنخواہ کم ہونے پر بھی اس نے مجھ سے کوئی شکایت نہیں کی اور تنخواہ بڑھانے کے بعد بھی میری خوش آمدید نہیں کی۔مالک نے غصے میں آکرواپس سے اس کی تنخواہ کم کر دی۔ پھر بھی وہ شخص معمول کے مطابق کام کرتا اور گھر لوٹ جاتا۔آخرکار مالک سے ایک دن نہ رہا گیا اور اس نے وجہ دریافت کی کہ آخر کیا بات ہے؟ میں نے اتنا سب کچھ بدلا ؤکیا لیکن نہ ہی تم نےخوش آمدیدکی اورنہ ہی غصے کا اظہار کیا!!!!!
اس شخص نے اپنے مالک کی بات سن کر مسکرایا اور کہنے لگا کہ”جس دن آپ نے میری تنخواہ بڑھا ئی تھی اس دن میرے گھر میں ایک بچے کی پیدائش ہوئی تھی اور جس دن آپ نے میری تنخواہ گھٹا دی تھی اس دن میری ماں کا انتقال ہو گیا تھا۔تو مجھے شکوہ اور شکایت کس بات کی؟کیونکہ دینے والی ذات اللہ کی ہی ہے اوراس رب کو زیادہ بہتر پتہ ہے کہ کس کو؟ کس وقت؟ اور کتنی چیزوں کی ضرورت ہے؟ تو وہ رب، ضرورت کے حساب سے عطا کرتا ہے۔
"یہ بات سن کر مالک کی آنکھیں پھٹی کے پھٹی رہ گئیں اور اس کا یہ بھرم ٹوٹ گیا کہ واقعی رزق دیناکسی بندے کے بس کی بات نہیں بلکہ ضرورت کے مطابق عطا کرنے والی ذات اللہ رب العزت کی ہی ہے۔”
اس واقعے کے پڑھنے کے بعدیقین مانیں مجھےزندگی سے جو شکایت تھی کہ لاک ڈاؤن کے سبب تنخواہیں جو گھٹا دی گئی ہیں ، ہم جتنی محنت کرتے ہیں اس کے حساب سے ہم کو تنخواہ نہیں ملتی یعنی یہ تنخواہیں اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابرہیں وغیرہ وغیرہ۔یہ سارے شیطانی وسوسے دل میں جوچلتے رہتے تھے وہ دور ہوگںٔےاور صبر آگیا۔ الحمدللہ سارے شکوے شکایت دور ہو گئے کہ بےشک ہمیں جتنی ضرورت ہے اس کے مطابق اللہ ہمیں عطا کرتا ہے۔ایک بات گانٹھ باندھ لیں کہ” امید رب سے رکھیں، سب سے نہیں۔”
آخر میں رب سے یہی دعا ہے کہ اللہ رب العزت صبرو استقامت کے ساتھ جینے کاسلیقہ دے ،ایمان میں پختگی عطا فرما ۔دنیا اور آخرت میں ہر موڑ پر کامیابی عطا فرما!!!آمین یا رب العالمین!

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا