پابندیوں کے باوجودزرعی اور آبی اول اراضی پر تعمیرات کا نہ تھمنے والا سلسلہ جاری
سرینگر؍؍انتظامیہ نے غیر قانونی تعمیرات کے سامنے اپنے ہتھیار ڈال دئے ہیں جس کی وجہ سے زرعی اور باغبانی رقبہ بڑی تیزی کے ساتھ نیست نابود ہورہا ہے ۔ وادی کے بیشتر علاقوں میں زرعی اور آبی اول اراضی پر پابندیوں کے باوجود تعمیرات کا نہ تھمنے والا سلسلہ بڑے پیمانے پر جاری ہے جس کی وجہ سے زرعی پیدوار کی سالانہ پیدوار میںخاصی کمی آرہی ہے ۔ اس دوران زرعی ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو وادی میں اگلے کچھ برسوںمیں پیدوار میںخاصی کمی آئے گی ۔ اس بارے میں سی این ایس کو ملی تفصیلات کے مطابق وادی کے بیشتر علاقوں میں زرعی اراضی خاص طور سے آبی اول پر بڑے پیمانے پر تعمیرات بنانے کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا جو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے اگر چہ اس پر سرکار کی طرف سے پابندی بھی عائد ہے مگر اس کے باوجود زمین کی خرید وفروخت پامامور دلال پوری وادی میں اس طرح سے سرگرم ہیں کہ وہ دن کو ہی نہیں بلکہ اب رات کے دوران بھی زرعی اراضی کی خرید وفروخت کیلئے کام میںلگے ہیں ۔بتایا جاتا ہے کہ اس وجہ سے وادی کے بیشتر علاقوں میں زرعی اراضی پر بڑے بڑے شاپنگ کمپلیکس اور رہائشی تعمیرات کھڑا کرنے کا سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔ زمین کی خریداری میں سرمایہ دار ایسے زمین مالکان کو موٹی موٹی قیمتیں ادا کرتے ہیں جس کے بعد یہ سرمایہ دار اس زمین کی بھر پائی کر کے اس پر بڑے بڑے کمپلیکس ، دکانات ، رہائشی کالونیاں اور دوسرے کارخانے قائم کررہے ہیں ۔ بتایا جاتا ہے کہ اس کام کے لئے خاص طور دلال مامور ہیں جو زرعی زمین کی خرید وفروخت میں لاکھوں روپے کیمشن حاصل کرتے ہیں ۔ عام لوگ حیران ہیں کہ پوری وادی میں ایسے دلال اس طرح سے سرگرم ہوگئے ہیں کہ اب باضابطہ انہوںنے کئی جگہوں پر اپنے دفاتر قائم کئے ہیں جن کی کوئی رجسٹریشن ہی نہیں ہوتی ہے ۔ لوگ اس بات پر حیران ہیں کہ ایک طرف زرعی اراضی خاص کر آبی اول پر تعمیرات کی پابندی ہے مگر اب زراعی اراضی کو بڑی تیزی کے ساتھ ختم کیا جارہا ہے ۔ کرنٹ نیوز سروس کے نمائندوں نے وادی کے مختلف علاقوں سے اطلاع فراہم کرتے ہوئے کہا ہے کہ زرعی اراضی پر تعمیرات کھڑی کر نے کے بعد اس میںکارخانے لگائے جاتے ہیں یا ان کو پھر کسی بھی کام کے لئے کرایہ پردیا جاتا ہے ۔ ہمارے نمائندوں کے مطابق شالہ ٹینگ سے سمبل جانے والی شاہرہ کے دونوں اطراف جو زرعی اراضی ہے اس اراضی کا بیشتر حصہ پہلے ہی تعمیرات کی زد میں آچکا ہے ۔یا اس کی بھر پائی کی جارہی ہے اس طرح شالہ ٹینگ بارہمولہ شاہراہ پر ایسا ہی کچھ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ جبکہ پانپور، بڈگام ، اننت ناگ، گاندربل کے علاوہ دوسرے علاقوں میں یہ سلسلہ برابر جاری ہے ۔ زرعی رقبے پر بنائی جانے والی تعمیرات کی وجہ سے وادی میں زرعی پیدوار میںخاصی کمی دیکھنے کو مل رہی ہے جس پر زرعی ماہرین نے بھی کافی تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر یہ نہ تھمنے والا سلسلہ جاری رہا تھو اگلے کچھ سالوں میں زراعت خاص کر دھان کی پیدوار میںکافی کمی آئے گی جو کہ مستقبل میں وادی کے لوگوں خاص کر دیہاتی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کے لئے کافی مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ ان ماہرین کے مطابق اگرچہ حکومت نے فوری طور اس کیلئے اقدامات نہیں اٹھائے تو حالات زیادہ سنگین رُخ اختیار کرسکتے ہیں۔ اس بارے میں انتظامیہ کے ایک اعلیٰ آ فیسر نے دوٹوک الفاظ میں کہاکہ زرعی اراضی پر کسی بھی قسم کی تعمیرات کھڑی کرنے کی اجازت نہیں ہے بلکہ اس کیلئے باضابطہ ایک قانون ہے ۔ انہوںنے کہا کہ جب بھی ان کی نوٹس میںایسی کوئی شکایت آتی ہے تو وہ اس پر کاروائی کرتے ہیں۔ اس سوال کے جواب میں کیا وادی کے بیشتر علاقوں میںیہ سلسلہ ہنوز جاری ہے تو انہوںنے یقین دلایا کہ وہ اس بارے میں تمام ڈپٹی کمشنروں کو ہدایت دیں گے وہ اس پر کاروائی کریں اور ایسی کسی بھی تعمیر کی اجازت نہ دیں۔