ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی
موبائل:8825051001 | 9906111091
ایک عمرہ کے دوران جب میں مقام ابراہیم پر دو رکعت واجب الطواف کی نماز پڑھ کر دعاؤں میں مشغول تھا تو میرے دائیں طرف بیٹھی ایک خاتون مجھ سے کہنے لگی ۔
’’بھائی جان! میرے لئے بھی دعاکریں۔ میں بہت ہی پریشان ہوں۔‘‘
’’محترمہ! میں بھی آپ کی طرح بلکہ ہر ایک کی طرح ہی اس درکا بھکاری ہوں۔’’سامنے کعبۃ اللہ ہے۔ اس سے بڑھ کر اور کون سی قبولیت ِ دعا کی جگہ ہوسکتی ہے۔
نہ جانے اس کو مجھ میں کیا ایسا نظر آیا کہ وہ مجھے دعاکرنے کے لئے کہہ رہی ہے ۔’’آپ بھی مانگو میں بھی مانگتا ہوں۔ اللہ سب کی سنتا ہے ۔ بس آپ نماز باقاعدگی سے ادا کرو اور صبر سے کام لو‘‘ ۔ میں نے اس خاتون سے کہا
’’ویسے آپ کو کیا پریشانی ہے؟‘‘
اگر مناسب سمجھو تو بتا دو۔ ورنہ اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔
یہ خاتون انتیس ۔ تیس سال کی تھی۔ اس کی جسامت اورشکل سے ہی پتہ چلتا تھا کہ وہ کسی بڑی مصیبت میں مُبتلاہے۔
وہ دبلی پتلی ہڈیوں کا ڈھانچہ تھی۔ اس کے چہرے کا رنگ زرد تھا۔آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی تھیں۔ پچکے ہوئے گال ، بکھرے بال اس کی داستان بتارہے تھے ۔
بولی’’! بھائی جان۔ میری شادی کو نوسال ہوگئے ہیں۔ میری کوئی اولاد نہیں ہے۔
سب جگہ علاج کروایا مگر بے سود ‘‘۔
’’سمجھا‘‘۔ میں بیچ میں بولا
’’گھر والا تنگ کرتاہوگا؟‘‘
’’وہ کم تنگ کرتاہے ۔ مگر میری ساس مجھے بہت ہی پریشان کرتی رہتی ہے۔اٹھتے بیٹھے طعنے دیتی ہے۔ کہتی ہے کہ تُو بانجھ ہے‘‘۔اس نے بولا۔
ایک دوماہ سے اب اپنے بیٹے کو دوسری شادی کرنے کی تیاری کررہی ہے
ایک جگہ تو اس نے پیغام بھی بھیجاہے ۔ وہ بھی مان گئے ہیں۔اگر میرے میاں کی دوسری جگہ شادی ہوگئی تو پھر میراجینا بہت ہی دشوار ہوجائے گا ۔ اِدھر میرے والدین کب کے فوت ہوچکے ہیں۔ میں بالکل بے سہارا ہوں‘‘۔
’’سنو!بیٹی۔ مجھے آپ کا مسئلہ سمجھ میں آگیا ۔
میں آپ کی مدد کرسکتا ہوں۔ اگر آپ جموں آجاؤ تو میں آپ کے رہنے اور کھانے پینے ، علاج معالجہ کاسب انتظام کروں گا ۔آپ دونوں کو صرف آنے جانے کا خرچہ کرنا ہوگا۔ باقی سب کچھ میں خود ہی کروں گا ۔میں خود بھی ڈاکٹر ہوں۔ وہاں میرے کافی ڈاکٹر دوست اور واقف کار ہیں۔ وہ سب آ پ کی پوری پوری مدد کریں گے۔آپ فیصلہ کرو ۔ میں آپ کو اپنامکمل ایڈریس اور فون نمبر دوں گا۔
آپ بے فکر ہوکر جموں آجاؤ ۔ باقی میرے ذمے۔ انشاء اللہ تعالیٰ آپ کا بہترین علاج کرواؤں گا ۔میں آپ کی پریشانی سمجھ سکتا ہوں ۔ کیونکہ میرے ایک قریبی رشتہ دار کی لڑکی کی بھی یہی پریشانی تھی۔ اس کو بھی اس کا خاوند اورساس بہت ستاتے تھے۔اللہ بہتر کرے گا ۔ علاج کے ساتھ ساتھ دعائیں ضرور رنگ لائیں گی۔ ‘‘ میں نے اس کو تسلّی دیتے ہوئے کہا۔
’’بڑی مشکل سے عمرہ کے لئے آنے کاانتظام کرکے یہاں آئی ہوں کہ یہاں اللہ کے حضور خوب دعائیں مانگوں گی‘‘۔ شبینہ نے کہا۔
’’آپ چہرے سے ہی نیک شخص دکھائی دیتے ہو اسی لئے آپ سے بھی دعا کرنے کی استدعا کررہی ہوں‘‘۔
’’چلو۔ اُٹھو۔ آپ نے بھی سعی کرنی ہوگی‘‘۔ میں نے کہا۔
مروہ پر پہنچ کر ہماری ملاقات ایک اور خاتون سے ہوئی۔ وہ پوچھ رہی تھی کہ سعی کے کتنے چکر ہیں ،صفا اورمروہ اور دوسبز روشنیوں کے درمیان کیا پڑھنا ہے۔ اور کیا دعامانگنی ہے؟
اس نے کہاکہ وہ پہلی بار عمرہ کرنے آئی ہیں ۔
’’ آپ کہاں سے آئی ہیں؟ ‘‘
میںنے پوچھا
’’میں فیصل آباد پاکستان سے آئی ہوں۔‘‘
فیصل آباد کانام سن کر شبینہ چونک گئی میں بھی فیصل آباد سے ہوں۔
’’یہ کون ہیں آپ کے ؟‘‘اس نے میری جانب اشارہ کرکے پوچھا۔
’’یہاں ہی مقام ابراہیم کے پاس ان سے ملاقات ہوئی۔
میں نے اُن کو اپنی پریشانی بتائی اور میرے لئے دعاکرنے کے لئے عرض کی۔
’’بڑے نیک انسان ہیں۔‘‘
’’جناب! میرے لئے بھی دعائیں کریں۔‘‘
’’میں بہت پریشان ہوں ‘‘۔ رابعہ نے کہا
’’آؤ۔ میرے ساتھ۔ میں بتاتا ہوں ۔ سات چکر کس طرح پورے کرنے ہیں۔ صفا اور مروہ پر کیا پڑھنا ہے ۔ کسی طرح دعا مانگنی ہے ۔میلین اخضرین میں آپ دونوں نے تیز تیز نہیں چلنا ہے۔ صرف مردوں نے ہی ایسا کرنا ہے۔ آپ عورتوں کی طرف سے حضرت ہاجرہؓ نے یہ کام کردیاہے ‘‘۔
شبینہ نے زم زم پینے کی خواہش کی۔
زم زم کے نل دیکھ کرہم تینوں زم زم پینے کے لئے رُکے
میں نے ان کو زم زم پینے کے آداب اوردعا سمجھائی۔
رابعہ نے اپنی بپتا مختصر کرکے سنائی۔
سن کرمیں نے دونوں کو کہا۔ ’’اللہ بہترکرے گا ۔آپ اطمینان رکھو۔‘‘
رابعہ نے سنایا کہ اس کے والدین اس کی شادی کسی ایسی جگہ کررہے ہیں جہاں اس کی رتی بھربھی مرضی نہیں ہے۔ اس کی مرضی دوسری جگہ ہے ۔ وہ گھر اور لڑکادونوں دیندار ہیں۔ میں اپنی پسند کی بات گھروالوں کونہیں کہہ سکتی ۔
میری والدہ کی ایک واقف کارعورت اپنے لڑکے کی شادی میرے ساتھ کرنے پر تلی ہوئی ہے۔
زم زم کے نلکوں کے پاس ایک بزرگ سے ہم تینوں کی ملاقات ہوئی۔
میں نے ان بزرگ کو زم زم کے دو تین گلاس بھر کردیئے۔ انہوں نے زم زم پی کر میرا شکریہ کیا۔
میں نے ان کودعا کرنے کے لئے کہا ۔ جوانہوںنے فوراً مان لیا ۔
’’آپ لوگ کہاں سے ہیں؟‘‘ بزرگ نے پوچھا
’’میں جموں سے ہوں اور یہ دونوں خواتین فیصل آباد سے ہیں۔
میری ان سے ملاقات یہاں ہی ہوئی‘‘۔
’’اللہ آپ دونوں کی حاجت پورے کرے۔آمین‘‘
’’آپ کے پاس کوئی کھانے کی چیز ہے۔ بزرگ نے شبینہ سے مخاطب ہوکر پوچھا۔‘‘
اس نے اپنا پرس ٹٹولا ۔ اس میں سے چند کھجوریں اور چار پانچ بادام نکلے۔
بزرگ نے کھجوریں لیکر ان پر کچھ کلمات پڑھ کردم کیا ۔اور واپس شبینہ کودیئے ۔
رابعہ قدرے مایوس ہوگئی کیونکہ اس کو انہوں نے کھجوریں نہ دیں۔
بزرگ اس کی مایوسی بھانپ گئے۔
’’آپ یہ کھجوریں کھالیں ۔ اس سے آپ دونوں کی پریشانیاں رفع ہوجائیں گی۔ انشاء اللہ‘‘
رابعہ نے اندر ہی اندر سوچاکہ اس کی پریشانی کس طرح دور ہوگی !تبرک تو شبینہ کوملا
بزرگ کی باطنی نظر تھی۔ وہ بولے
’’جب شبینہ کا مسئلہ حل ہوگا ۔ یعنی اس کے ہاںاولاد ہوگی تو آپ کا مسئلہ آٹو میٹی کلی حل ہوجائے گا ۔‘‘
یہ کہہ کر وہ بزرگ اپنی راہ چل دیا ۔
لگتا تھا جیسے کہ وہ اسی مقصد کے لئے وہاںآیا تھا ۔ میں نے ان دونوں کے فون نمبرات لئے۔
اور ان کو اپنا فون نمبر بھی دیا ۔
جموں پہنچ کرمیں ان دونوں سے فون کرکے خیرو خیریت پوچھتا رہتا
کافی ماہ بعد ایک روز مجھے شبینہ کا فون ملا ۔ اسنے بتایا
’’بھئی جان! مبارک ہے ۔ پرسوں میرے اللہ نے مجھے بیٹا عطا کیا ۔
یہ سب آپ کی اور ان بزرگ کی دعاؤں کا اثر ہے۔ جس کی وجہ سے میری دعائیں بھی قبول ہوگئیں۔
میں آپ دونوں بزرگان کی مشکور وممنون ہوں۔
میں اتنی خوش ہوں کہ سوچتی ہوں کہ یہ خوشیاں کہاں سنبھال کر رکھوں ‘‘۔ اس نے مزید کہا
’’جب میںنے یہ خوشخبری رابعہ کو سنائی تو وہ بھی بہت خوش ہوگئی۔
وہ مجھے اپنی خوشخبری بھی سنانا چاہ رہی تھی۔
اس کی ماں جہاں اس کی شادی کرنے کا سوچ رہی تھی۔ انہوں نے ادھر سے ہی نا کردی۔کیونکہ وہ اپنے بیٹے کی دوسری شادی اس لئے کرناچاہتی تھی کیونکہ ان کے کوئی اولاد نہ تھی۔ اب اس کی بہو کو تین دن قبل بیٹا پیدا ہوا۔ اس لئے وہ معافی مانگ رہی تھی۔
یہ سن کر میںنے اس کو کہاکہ رابعہ وہ میری ہی ساس تھی جو اپنے بیٹے کی شادی تجھ سے کراناچاہتی تھی کیونکہ میری کوئی اولاد نہ تھی۔
اب چونکہ میرے ہاں بیٹا پیدا ہوا ۔اس لئے میرا یہ مسئلہ ہی ختم ہوگیا ۔ اور بزرگ کا کہا بھی پورا ہوگیا۔
اس کی ماں کو یہ پتہ ہی نہ تھاکہ جہاں وہ اپنی بیٹی کا رشتہ کررہی ہے ۔ وہ لڑکا پہلے ہی سے شادی شدہ ہے اور اس کی بیوی حالِ حیات ہے ۔‘‘
دیکھئے کس طرح اللہ تعالیٰ ایک جنبش سے سارے مسائل حل کردیتا ہے۔
واقعی نگاہِ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں۔
٭٭٭