احمد رشید
گلی رہٹ والا کنواں،سرائے رحمن، علی گڑھ
فون: 989711153
چاروں طرف آسمان کو چھوتی ہوئی آگ کی سنسناہٹ اور مظلوم چیخ پکار کا بے ہنگم شور تھا۔ سانپ کے پھنوں جیسی لپٹوں کی پھنکاریں جھونپڑوں کو ڈس رہی تھیں اور انسانوں کے جسم موم کی طرح پگھل رہے تھے۔ زمین اور آسمان کے درمیان آ ہا ہاکار کی گونج تھی، لیکن ان کی دادوفریاد سننے والا کوئی نہیں تھا۔ دو تین خاندانوں پر مشتمل کچے مکان جلا دئے گئے، مرنے ولوں کا کوئی حساب نہیں، کتنے زندہ رہے اور کتنے بچ کر بھاگ گئے اس کی بھی گنتی نہیں تھی۔ کہاں بھاگے اس کی بھی کوئی اطلاع نہیں تھی۔ ملیچ تھے انسان تھوڑیٔ تھے جوان کی خبر لیتا۔ انسان تو صرف سرونڑ جاتیہ کے لوگ ہوتے ہیں جن کی ایک بیٹی ایک نوجوان ملیچ کے ساتھ بھاگ گئی تھی۔ یہ تو خدا جانے کہ کون کس کو بھگا کر لے گیا اور کہاں لے گیا؟ ملیچوں کو سزا اس لیے ملی کہ وہ اپنی مرضی سے نیچ ذات میں پیدا ہو گئے اور بھاگنے والی لڑکی کو سنو نڑجاتیہ کے مطالبہ پربھگوان نے ان کے پریوار میں پیدا کر دیا۔ جنم کے اس انتر نے ہی نوجوان ملیچ کو قصور وار ٹھہرایا حالانکہ محبت اندھی ہوتی ہے۔ اس میں لڑکی کا بھی کیا قصور؟ یہ تو ملیچ کو سوچنا تھا کہ جوانی کا نشہ ہو یا محبت کا سپنا کہ وہ اپنی آنکھ کھلی رکھے۔
آگ و خون کے لپلپاتے شعلوں نے کچے مکانوں کو ڈھیر کر دیا اور مکینوں کو خاک کر دیا تھا۔ ان جھونپڑوں کے آس پاس دومٹی کے گھر مسلمانوں کے بھی تھے آخر گندی قوم تو وہ بھی ہے چماروں اور ہریجنوں کی بستی میں رہنا ان کا مقدر ہے یا دلتوں کے لیے مسلم بستیاں پناہ گاہیں ہیں۔ گاؤں میں کثیر آبادی ٹھاکروں کے ساتھ پانچ پختہ مکان پنڈتوں کے بھی تھے جن کے حکم کے تابعدار ٹھاکر باہوبلی ہونے کا کرتویہّ نبھاتے جو بولے پنڈت اس پر ٹھاکر چلے اور ویش نہ چلے تو پاپ لگے کیونکہ اسے کرانہ کی دوکان چلانی ہے۔ گاؤں میں پھوٹ پڑے یا آگ لگے بنئے کو تو مال کمانا ہے پھر اَدھرمی ہونے کا پاپ اپنے سر لینے کی مجال کس جاتی کو ہے۔ بیچارے پنڈت تو ویسے بھی اتنے رحم دل اور دیالو ہوتے ہیں کہ وہ کبھی خون میں ہاتھ نہیں رنگتے، خون کو دیکھنا بھی وہ پسند نہیں کرتے۔ زندہ یا مردہ انسانوں کو جلنے اور جلوانے میں خون نہ تو دکھائی دیتا ہے اور نہ دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے خون خرابے کا پاپ وہ کیوں کریں؟ یہ گھناؤنا اور دہشت ناک کام تو ہریجنوں سے آسانی سے لیا جاسکتا ہے۔ بس شراب اور پیٹ بھر کھانے کا بندوبست کرنا ہے کام نہ چلے تو گرَؤ سے بولو ہندو ہونے کا نعرہ، بدلے میں لوٹ پاٹ مفت میں۔ جانور ہونے کے بعد خون سے بالکل ڈر نہیں لگتا پھر زندہ انسانوں کو جلانے کا منظر تو قابل دید ہوتا ہے اور آسان بھی پلک جھپکتے ہی انسان اور مکان نیست و نابود اس طرح کہ ارتھی استھیوں میں بدل جاتی ہے نہ کوئی نشان اور نہ کوئی ثبوت بات صرف بلوے کے دائرے میں جاتی ہے پھر دفع 302/307کیوں کر لگے اتنی آزادی ہمارے آئین نے دی ہے کہ کسی بھی قتل کو ماب لنچنگ اور بلوے میں بدل دیں۔ یہ سب قتل اور ارادہ قتل ،کے دائرے میں نہیں آتا۔ پھر یہ مہان دیش ، پولس اور عدالت ہماری ہیں اگر ہماری مرضی اور آستھا کی حفاظت نہیں کرے گی تو ہمیں اس کے حکم اور فیصلے کو نہ ماننے کا پورا پورا حق ہے۔ اس مہان اور پوتر دیش کا آئین بھی تو ایک دلت نے مرتب کیا پھر کیوں آئین کی مانیں، کیوں اس ترنگے کو مانیں جو کثرت میں وحدت کی علامت بن کر ہمیں چڑاتا ہے۔ اکھنڈ بھارت کا راشٹریہ دھوج بھی ایک رنگ ہونا ہی ہمارا سپنا ہے۔ دیش سے اونچا راشٹر یہ واد ہے اس میں وِوَاد کیا ہے؟
گاؤں میں ایک کہانی پر چلت ہے جو سینہ بہ سینہ چلی آرہی ہے، بزرگوں کی بزبانی بیان کی جاتی ہے کہ گاؤں میں نصیب خاں، سید شرافت اور موہن لال کی دوستی بہت مشہور تھی۔ موہن لال کی فطرت جی حضور ی کی تھی، ہر وقت دونوں دوستوں کی خوشامد اور تابعدادری میں لگے رہنا اس کی عادت تھی۔ ٹھاکر ہرپال سنگھ کی آنکھوں میں ان کی یہ دوستی کھٹکتی رہتی وہ ہر سمے ان کے درمیان پھوٹ ڈالنے کے اپائے سوچتا رہتا تھا۔ ایک دن اپنے دکھ کا اظہار اس نے پنڈت رام پھل سے کیا۔ پنڈت رام پھل مسکرائے اور گردن ہلاتے ہوئے بولے ’’برہما کی بدّھی اور مشتک میرے پاس ہے اور باہوبل تیرے پاس، گاؤں میرا اور تو میری شکتی، چرن داس ہریجن کو ملالے۔ بس رام کا پھل کھائے جا۔‘‘
ایک روز دو دوست کھیتوں کے بیچ پگڈنڈی سے گزر رہے تھے۔ دونوں طرف گنّوں کی پکی ہوئی فصل آسمان کی جانب منھ اٹھائے شرشّیا کی طرح بھیشم پتاما کی منتظر تھی ’’اوئی چمرّا کے تیری یہ ہمت کہ میرے کھیت سے بِنا میری مرجی کے گنّا توڑے، سارے کسی گھمنڈ میں مت رہیو۔۔۔۔۔ ہم سید ساب کی بہت اجّت کرتے ہیں‘‘ موہن پٹ پٹ کر لال ہوتا رہا اور روتا رہا۔۔۔۔۔ وقت نے آنسو پونچھ دیے، دل میںگر ہ لگ گئی، بات آئی گئی ہوگئی۔
کچھ دنوں بعد شرافت نے گنّا توڑا اور ابھی چھیلنے بھی نہ پائے تھے کہ ان کا بھی وہی حال ہوا ’’ابے ہوگا تو سید کا، گھر کی کھیتی ہے کیا۔۔۔۔ سارے ساری اجّت تیری کھاک میں ملا دو ںگا۔۔۔۔۔۔ کھان ساب کی بات الگ رہی۔ ہم ان کی بہت اجّت کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔ ان کے لیے تو اپنی جان دے دیں گے اور ان کے اوپر آنچ بھی نہیں آنے دیں گے۔۔۔۔۔۔ ہماری طرح ان کی بھی مونچ لمبی ہے۔۔۔۔۔۔ بلوان، بلوان کا ساتھی ہوتا ہے۔ سید صاحب پٹتے رہے، ارے بھئی ارے بھئی کہتے رہے اور عزت اترتی رہی۔۔۔۔۔ اور ان کی شرافت خاک میں ملتی رہی۔
ایک دن ایسا بھی ہوا کہ گنّا توڑنے کے جرم میں خان صاحب کی بھی شامت آگئی، مونچھ تنی رہی اور آبرو مٹّی میں ملتی رہی۔ سوچنے لگے دودھ، دہی، مٹھا اور گھی کو تو مہنگائی چاٹ گئی اور بچی کچی پونجی، چنے کا ساگ، باجرہ، مکئی جو گاؤں ہونے کی نشانیاں تھیں نو سنسکرتی کھا گئی، تہذیب کی اس نئی پری بھاشا نے ایسی آگ لگائی کہ اس میں پریم، سادگی، ملنساری جیسی پرانی ہر شے جل کر بھسم ہو گئی ۔ بس مارو ،مارو، سسروں کو اِن کی بدّھی بھرشٹ ہو گئی ہے کی گونج سارے گاؤں سنائی دے رہی ہے اور آگ اور دھوئیں کی فصل کھیتوں میں اُگ رہی ہے۔
سید صاحب کی شرافت لٹی، خان صاحب کی آن بان شان مٹی، آگ جب لگتی ہے تو وہ دیکھتی کم ہے اور جلاتی زیادہ ہے۔ موہن لال سمیت صدیوں سے دلتوں کی ہڈیوں کا پتہ بھی نہیں ہے۔ قسمت سے گاؤں میں پنڈت رام بھکت کی لگائی ہوئی آگ سے ایک چھ سالہ معصوم بچہ کیسے بچ گیا۔ خدا جانے، کہتے ہیں مارنے والے سے بچانے والا زیادہ طاقت ور ہوتا ہے۔ ایک مسلمان نے اپنا نصیب سمجھ کر اسے گود میں اٹھا لیا اور آنسوؤں میں ڈوبی ہوئی آنکھوں سے اظہار کیا ’’کہ میں اسے پال پوس کر بڑا کروں گا۔‘‘
دوسرے مسلمان نے کہا ’’جیادہ ججباتی ہونے کی جرورت ناہی۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہندو کا بچہ ہے۔۔۔۔۔۔۔کھول کر دیکھ لے۔‘‘
مجھے کھول کر دیکھنے کی جرورت ناہی۔۔۔۔۔۔۔ یہ دلت کا چھورا ہے۔۔۔۔۔۔ وہ اپنا جیتو چمار جو بیچارا جل گیا کہ جانے بچ گیا۔‘‘
’’تو مسلمان ہے کوئی ناگہانی آپھت گلے پڑ جائے گی۔۔۔۔۔ اور مسلمانوں کے چار پانچ گھر مصیبت میں آجائیں گے۔۔۔۔۔۔ تجھے یاد ہے کچھ ہی دن پہلے ٹوپی لگائے، ڈاڑھی والے مسلمان کو ان ٹھاکروں نے پنڈت رام بھکت کی شہ پر اتنا مارا کہ وہ چیختا رہا اور چلاتا رہا۔۔۔۔۔ اور مر گیا۔۔۔۔۔ پورا گاؤں تماشہ دیکھتا رہا۔۔۔۔۔پولس آئی پوچھ گچھ پر پنڈت نے بیان دیا ’’کہ سرکار آتنک وادی تھا۔‘‘ تصدیق ٹھاکروں نے کردی اور کیس ختم ہو گیا۔۔۔۔۔ مسلمان دیکھتے رہے رہ گئے ۔۔ ۔۔سہمے، ڈرے، بے زبان جانوروں کی طرح۔۔ ۔۔ بارہ سالہ معصوم بچے کی آنکھیں کبوتر کی طرح ٹھہر گئی تھیں اور ان آنکھوں میں خون تھا جو پانی بن کر کوروں میں اٹک گیا تھا۔ فرشتوں جیسا تقدّس اس کے چہرے سے نمایاں تھا اور اس کی بے زبانی کسمپرسی کی داستان بیان کر رہی تھی۔
ایسا کہا جاتا ہے کہ نیچ ذات کے یہاں پیدا ہونے والے گورے چٹّے بچّے طبقہ اشرافیہ کی خوبصورت غلطیوں کی نتیجہ ہوتے ہیں ،چاہے وہ عمل بالجبر ہو یا فعل راضی بارضا ہو، معاملہ خرید و فروخت کا بھی ہوسکتا ہے، بحالت مجبوری یابر بنائے آزادی۔ دراصل محبت اور روٹی کا بہت گہرا تعلق ہوتا ہے۔ پیٹ میں روٹی ہو تو انسان لومڑی کی طرح کلانچیں بھرتا ہے ۔بھوکے پیٹ تو ایک اور ایک دو روٹی یاد رہتی ہے محبت بالعیوض روٹی ہو تو اسے بھوک کہتے ہیں۔ بھوک وہ چاہے روٹی کی ہو یا عورت کی دونوں ہی صورتوں میں جسم اور جنس کا رشتہ استوار ہوتا ہے پھر زندہ رہنے کے لیے روح کی ضرورت ہی نہیں ہوتی، دلت بھی بنا آتما کی جاتی ہے اور مسلمانوں کی حالت بھی اس سے زیادہ بدتر ہے۔ دونوں مسلمان بچہ کو لے کر پنڈت رام بھکت کی حویلی پر پہنچے۔
’’پنڈت جی یہ ہندو بچّہ ہے۔‘‘
’’کاہے۔۔۔۔ ہندو کیسے ہوجائے گا یہ تو دلت ہے۔‘‘
’’ہمارے پاس رہے گا تو مسلمانوں کا چلن سیکھ لے گا۔۔۔۔۔ اسی لیے آپ کی سیوا میں لائے ہیں۔‘‘
اس سے پہلے پنڈت جی کچھ بولتے ’’ٹھیک ہے ٹھیک ہے جھوڑ جاؤ‘‘ پنڈتائن کی آواز اندر سے آئی جو کمرے کی چوکھٹ پر کھڑ ی تھیں اور پنڈت جی ہچکچاتے ہوئے خاموش ہو گئے جیسے ان کا منھ کسی نے سی دیا ہو۔
دونوں مسلمان کھڑے کھڑے حویلی کی ڈیوڑھی سے لوٹ آئے اور پنڈت جی پلاسٹک کی کرسی پر اکیلے رہ گئے۔ پنڈتانی کمرے سے باہر آئیں ’’ایک کونے میں پڑا رہے گا، ہزار دھندے کرے گا ،فری میں تھوڑی کھائے گا۔ ہماری لاڈلی رام دلاری کا من بھی لگ جائے گا، بیچاری اکیلی رہتی ہے۔‘‘
پنڈت جی کی دس سالہ بیٹی رام دلاری ان کو بہت عزیز تھی وہ اس کے لیے کچھ بھی کر سکتے تھے کیونکہ شادی کے چھ سال کے بعد بڑے ٹوٹکوں سے وہ پیداہوئی تھی۔ جنم سے تین سال پہلے ان کی ماتا جی رام پیاری یہ ارمان دل میں لے کر بھگوان کو پیاری ہو گئیں۔ اس کے جنم پر بڑی خوشیاں منائی گئیں پورے گاؤں میں پرساد بٹا اور دہی بورا کی دعوت ہوئی۔
’’کیا ہے رے تیرا نام‘‘ پنڈت جی نے چپ کھڑے ہوئے بچّے سے پوچھا۔
وہ خاموش رہا۔اپنے پیروں کی طرف نگاہ جمائے ہوئے۔
’’ابے گونگا ہے، کیا دیکھ رہا ہے نیچے کی اور‘‘
’’اپنی پیروں کے نیچے زمین دیکھ رہا ہوں‘‘ اس نے چونک کر کہا۔
’’اپنی زمین مت دیکھ، میرے جوتے دیکھ کہا ںہیں‘‘
اس نے ادھر ادھر جوتے دیکھ اور پنڈت جی کے سامنے رکھ دیے۔
’’میرے پیروں میںپہنا۔۔۔۔ تو نے اپنا نام نہیں بتایا‘‘
’’جی میرانام چرن داس ہے۔‘‘
’’ہاں تو چرن داس ، آج سے تو جوتے پہنائے گا، گھر کے کپڑے دھوئے گا، بھینسوں کو چارہ کھلائے گا اور رام دلاری کو اسکول پہنچائے گا اور چھٹی میں واپس لائے گا۔‘‘
وہ سر جھکائے پنڈت جی کے تمام احکامات سنتا رہا۔
’’اس کا بھی داخلہ رام دلاری کے اسکول میں کرا دو، وہاں اس کی پوری دیکھ بھال رکھے گا، ساتھ لیکر اسکول جائے گا اور آئے گا۔ گاؤں کا کوئی بچہ اس کے ساتھ مار پیٹ نہ کرے دھیان رکھے گا۔‘‘ پنڈتائن نے ٹھوکا دیا۔
پنڈتائین کے مفید مشورے کو سن کر پنڈت رام بھکت چراغ پا ہو گئے اور تڑک کر بولے ’’پنڈتائن پگلا گئی ہوکیا؟‘‘
’’کاہے، ہماری چھوری کی سارے دِن رکھوالی کرے گا۔‘‘
’’بات شکچھا اور گیان کی ہے اس پر تو ہمارا ادھیکار ہے۔۔۔۔ تم تو صدیوں کی پرمپرا توڑ رہی ہو۔‘‘
’’پرمپرا تو بہت پہلے ٹوٹ گئی‘‘۔۔۔۔ کہہ کر خاموش ہو گئی۔
’’ادھرمیوں نے دیس کا برا حال کر دیا، جاتی واد جو دھرم کی آتما ہے ،کو اسے وہ جاتی واد دانوسے لڑنے کی صلاح دیتے ہیں۔ دیش کو خطرناک وائرس کے نرک میں ڈھکیلنے والے وہی دانو ہیں جو چھواچھوت کا وِرودھ کرتے ہیں۔‘‘
پنڈتائن، پنڈت رام بھکت کی جھنجھلاہٹ پر مسکرائیں۔
’’شودر ہے پڑھ جائے گا تو سر پر موتے گا‘‘ پنڈت رام بھکت پھر شروع ہو گئے۔
’’مجھے نہیں لگتا کہ دلت ہے، رنگ و روپ سے تو۔۔۔۔
پنڈت جی سوچ کر بولے ’’ہمیں بزرگوں کی دھروہر میں ’’کل جگ‘‘ ملا ہے کہ زر، زمین اور کمین کے بھاؤ بڑھ گئے۔‘‘
’’موہ مایا جال میں جب دھرم ادھیکاری پھنس جائیں گے تو بھاؤ تو بڑھ ہی جائیں گے اور کمین اس لیے منھ کو آئے کہ ان کی استریوں کو اندھیاری راتوں میں اپنے بستروں میں سلایا اور تڑکے دھتکار دیا۔۔۔۔ ان کی پیڑھیوں میں وہی رکت سر چڑھ کر بول رہا ہے۔۔۔۔ دیکھو تو کتنا ملوک ہے اور نام ہے چرن داس۔۔۔۔
’’اوئے تو یہاں کیا کررہا ہے۔۔۔۔ چل دور کونے میں بیٹھ۔۔۔۔ اور وہ نظریں جھکائے چوکھٹ ہی پر بیٹھ گیا۔
پنڈتائین نے رام دلاری کو آواز لگائی ’’بٹیا، چرن داس کو دو روٹی، پیاز کی گانٹھ اور ہری مرچ پروس دے۔‘‘
رام دلاری پیتل کی تھالی پروس کر رسوئی سے جیسے ہی نکلی ’’اری پتّر میں لا‘‘ پنڈت رام بھکت نے آواز لگائی۔
رام دلاری الٹے پاؤں رسوئی میں لوٹ گئی۔
پنڈتائین طنزیہ مسکرائیں اور سختی سے بولیں ’’تم کا ہے کے رام بھکت ہو۔۔۔۔ رام کی دلاری سے کچھ نہ کہنا، یہ گھر کی لکشمی ہے۔۔۔۔ قریب کھڑے ہوئے پنڈت جی کے کان پر منھ رکھ بدبدائیں۔۔۔۔۔ بھول گئے چھوری گنگا جی کاوردان ہے۔‘‘
رام بھکت کی بولتی بند ہو گئی جیسے ان کی دکھتی رگ پر ظالم نے انگلی رکھ دی ہو۔۔۔۔۔ اور وہ تڑپ کر پیچھے ہٹ گئے۔۔۔۔ چرن داس ہکاّ بکّا ان دونوں کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔مگر اس کے کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ ماجرا کیا ہے۔
چرن داس کا داخلہ بھی رام دلاری کے اسکول میں ایک ہی کلاس میں مل گیا۔ کلاس فیلوز ہونا دونوں کے ساتھ ساتھ رہنے سہنے کی وجہ بنا۔
پنڈت جی کوبچپن کی معصوم دوستی اندر ہی اندر اس لیے گدگداتی تھی کہ جگر کے ٹکڑے کا سائیں سائیں حویلی میں اکیلا پن دور ہو گیا۔۔۔۔۔لیکن ایک ساتھ کھان پان پر پابندی تھی، برتن علیحدہ کر دیے گئے، جنہیں وہ خود دھوتا ایک کھڑیا (چھوٹی کوٹھری) جو بھینسوں کے بھس رکھنے کی تھی دے دی گئی جس میں وہ رات کو سوتا اور پڑھتا ۔ اسکول کے بعد سارا دن خدمت گاری میں لگا رہتا اور گھریلو کام کاج ذمہ داری سے نبھاتا لیکن پنڈت جی کو جوتے پہنانے کا کام کبھی نہیں بھولتا۔ حویلی کی حدود کے باہر ڈیوڑھی کے ایک کونے میں کتّے کی طرح ایک تھالی جسے وہ ہاتھ میں لیتا اور پنڈتائن کھانا پروس دیتیں۔ اس معاملہ میں پنڈت جی کو رام دلاری پر قطعاً وشواس نہیں تھا کیوں کہ ایک دن صحت مند کھان کی تھالی پروسنے کو وہ دیکھ چکے تھے۔۔۔۔ اس میں کوئی گھاٹا نہیں تھا کہ تین پراڑیوں کے پریوار کا بچا کچا جھوٹن اور خوراک کی کمی کو پورا کرنے کی غرض سے کچھ تازہ کھانا اس میں ڈال دیا جاتا۔ خصوصی طور سے پنڈت جی کی موجودگی میں یہ معمول رہتا۔۔۔۔ اور ان کی غیر موجودگی میں پنڈتائین کی آنکھ بچا کر تازہ بھوجن کی صحت مند تھالی رام دلاری، چرن داس کو ایسے کھلاتی جیسے وہ بھی پریوار کا چوتھا پراڑی اور اہم سدسیہ ہو۔
دسواں درجہ امتیازی نمبروں سے پاس کرنے پر پنڈت جی کو ایک جلن اور کڑھن ہوئی ، سوچنے لگے دلت کے مقابلے میں پنڈت کی بیٹی گیان شکچھا جس پر اس کا جنم سدھ ادھیکار ہے کیوں کر پیچھے ہو۔ انہوں نے اپنے دُکھ کا اظہار اپنی دھرم پتنی سے کیا تو وہ مسکرائی اور کہنے لگی ’’گیان اور شکچھا کسی ویکتی وشیش کی جاگیر نہیں۔ جو محنت کرے گا، لگن اور دھیان سے پراپت کریگا، یہ اسی کی سگی ہوتی ہے۔‘‘
یہ سن کر خاموش ہو گئے اور تلملاتے ہوئے منھ ہی منھ میں بڑبڑائے ’’ہے رام۔۔۔۔ کانوں میں سیسہ پگھلانے کا رواج کیوں سماپت ہو گیا‘‘ اور من ہی من میں سنوودھان اور سنو ودھان رچیتا کو کوسنے لگے۔۔۔۔ نیچ ذات جب سے گیانی ہوئے ہیں یہ تو آزادی اور ادھیکاروں کی بات کرنے لگے۔۔۔۔ برہمنی دور میں اسی لیے ان کا پھن کُچلا جاتا تھا کہ اگر نچلی جاتی کے گیانی ہو گئے تو سانپ کی طرح برہمنوں کو ڈس لیں گے۔۔۔۔
’’ہاں جی۔۔۔ کن وچاروں میں ڈوبے ہو۔۔۔۔زیادہ مت سوچو۔۔۔۔ اس بہانے سے ہماری بٹیا پڑھ لکھ کر وِدوَان ہو رہی ہے۔۔۔۔ ورنہ دیہاتی گنوار رہ جائے گی۔۔۔۔ چرن داس اس کی بہت مدد کرتا ہے۔‘‘
اس رات پنڈت جی سو نہیں سکے یہ سوچ کر کہ برہمن کی بیٹی ایک دلت کے احسان سے شکچھا میں روچی لیتی ہے۔۔۔۔پھر اپنے آپ کو تسلّی دی کہ اس میں ہرج ہی کیا ہے۔۔۔۔ ہم اس نیچ کو یہ یاد دلاتے رہیں گے کہ تو دلت ہے۔۔۔۔ تاکہ زیادہ اڑان نہ بھرسکے اور بیٹی کا غلام بنا رہے۔
وقت کسی کا سگا نہیں ہوتا بڑے بڑے بلوان اور باہوبلی اس کے آگے سرنگوں ہوتے ہیں۔ ایک منھ زور گھوڑے کی طرح سر پٹ دوڑے جارہا تھا اور چرن داس اس گھوڑے کی لگام پوری طاقت سے تھامے تھا اور وہ اس کے زانوؤں کی گرفت میں جیسے بے بس ہو۔ ایک ماہر شہسوار کی طرح اسے سمت و رفتار دے رہا تھا۔ گریجویشن میں چرن داس نے ٹاپ کیا اور رام دلاری نے فرسٹ ڈویژن کی ڈگری اس کے چرنوں میں رکھتے ہوئے کہا ’’یہ تمہاری بدولت ہے‘‘ وہ مسکرایا ’’ یہ شکچھا ہے اس کی قدر کرو۔‘‘
دونوں نے ایم۔اے سیاسیات میں داخلہ لے لیا تھا۔ ادھر نہایت خاموشی سے چرن داس نے ایلائڈ سروس کی تیاری شروع کر دی چونکہ وہ جانتا تھا کہ پنڈت رام بھکت کے سینے میں سانپ لوٹ جائے گا۔ وہ پوری لگن اور دلچسپی سے رام دلاری کی تعلیم پر بھی توجہ دے رہا تھا۔ رام دلاری اپنی تعلیم سے زیادہ چرن داس پر ایسی توجہ دے رہی تھی کہ دل ہی دل میں وہ اس کی چرن داسی بنتی جارہی تھی۔ دراصل بیل نزدیکی درخت پر پروان چڑھتی ہے ۔ چرن داس کا قریب ہونا، گھر میں رہنا، کلاس فیلو کا دوستی میں بدلنایہ سب پریم سیڑھیاں ہیں۔ پنڈت رام بھکت کے چرنوں سے نکل کر چرن داس رام دلاری کے دل میں رام بن کر سما گیا تھا۔
کلاس کے بعد، دونوں اسٹوڈینٹس کینٹین کے ایک کونے میں بیٹھے تھے۔ چاروں طرف طلباء کی گپ شپ، ہنسی دلّگی اور مباحثوں کی گونج میں پرچ پیالیوں کے کھنکنے کا شور بھی شامل ہو گیا تھا۔ آج کا لکچر ،’’ شہریوں کے بنیادی حقوق‘‘ موضوع بحث تھا۔
’’آئین نے تمام شہریوں کو برابری کے حقوق دیے ہیں‘‘ رام دلاری نے گفتگو شروع کی۔
’’آزادی کے بعد بھی انسانی استحصال کا سب سے بھیانک روپ ہمیں ذات پات کی تفریق اور مذہبی تعصب میں نظر آتا ہے‘‘ چرن داس نے کہا۔
’’مسلم معاشرہ بھی اس سے الگ نہیں وہاں بھی ادنیٰ و اعلیٰ، چھوٹا بڑا، اونچ نیچ کا فرق بری صورت میں قائم ہے۔‘‘
’’مسلمان انسانی مساوات کا تصور اپنے ساتھ لے کر آئے لیکن ہندو معاشرہ کے اثرات نے اسے توڑ دیا۔۔۔۔ ان کے سماج میں برہمن وادی تقسیم اس قدر مضبوط ہوگئی ہے کہ ان کے اندر بھی سید ، پٹھان اور دھنے جلاہے کا فرق نظر آنے لگا ہے‘‘ چرن داس نے تاریخی حوالے سے اپنی بات کہی۔
’’لیکن اس فرق نے ظالمانہ صورت اختیار نہیں کی ہے صرف شادی بیاہ اور دیگر معاشرتی مسائل میں دکھائی پڑتا ہے‘‘ رام دلاری نے کہا۔
’’وہ بیچاری ہم سے زیادہ مظلوم قوم ہے کیونکہ اس کا سب سے بڑا جرم تو مسلمان ہونا ہے مطلب آتنک وادی ہونا ہے۔ قدرتی آفت ہو یادیش کے دیگر مسائل پیدا کرنے کا ذمہ دار ہونے کے سبب بھیانک ظلم کا شکار بھی ہوتا ہے۔‘‘
’’چھوڑو، کیا لے کر بیٹھ گئے ظلم و ستم کی باتیں۔۔۔۔ اپنے غموں سے فرصت نہیں، کیوں دوسروں کے دکھ درد کا حساب کریں‘‘ رام دلاری نے مسکراتے ہوئے چرن داس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔
چرن داس نے کینٹین کے چاروں طرف طائرانہ نظر ڈالی اور رام دلاری سے مخاطب ہوا۔ ’’کیا کہہ رہی ہو‘‘ کچھ نہیں۔۔۔۔ تمہاری آنکھوں میں جھانک رہی ہوں‘‘ زیر لب مسکراتے ہوئے۔
’’رہنے دو، ڈوب جاؤگی‘‘
’’کبھی نہ ابھرنے کے لیے ڈوبنا چاہتی ہوں‘‘ سنجیدگی سے
’’کیوں؟‘‘
’’موتی چننے کے لیے ڈوبنا ضروری ہے۔‘‘
’’جب تہہ میں جا کر کچھ ہاتھ نہیں آتا۔۔۔۔ تو آنکھیں آنسوؤں میں ڈوب جاتی ہیں۔‘‘
’’نہیں۔۔۔۔ موتی بٹورتی ہیں۔۔۔۔ (وقفے کے بعد) رام دلاری نے مسکراتے ہوئے کہا ’’تم میرے دل میں براجمان ہو‘‘
’’تم رام بھکت کی رام دلاری ہو۔۔۔۔ چرن کا دل میں براجمان ہونا، توہین دل ہے‘‘
’’تمہارے چرنوں میں آنکھیں بچھانا ہی میرے لیے سورگ سے کم نہیں‘‘ رام دلاری کی آنکھیں آنسوؤں میں ڈوب رہی تھیں۔
چرن داس سنجیدگی سے مسکرایا اور رخساروں پر بہتے ہوئے آنسوؤں کو اپنی انگلیوں سے مس کرتے ہوئے بولا ’’انہیں بچا کے رکھو یہ بہت قیمتی ہیں۔‘‘
شبِ تار کالے بادلوں میں لپٹ کر ڈراؤنی ہو گئی تھی۔ بھیانک بجلی تڑکی، بادل گرجے اور ایسی طوفانی بارش ہوئی کہ چاروں طرف ماہ مئی کی لگائی آگ ٹھنڈی ہو گئی ہو۔ سیاہ بادل چھنٹے آسمان کا سینہ چیر کر وہ صبح نمودار ہوئی جو سعی وجہد کے بعد کوئی پیغام لاتی ہے۔
چرن داس کے ڈی ایم ہونے کی اطلاع نے رام بھکت کے سر پر بم پھوٹنے کا سا کام کیا۔ منھ ہی منھ میں بدبدایا۔ ’’اب یہ ڈھیڑا ہمارے اوپر راج کریں گے‘ ‘ دل ہی دل میں کرانتی کاریوں کو گالی دی۔ کیا اس دن کے لیے دیس کو آزاد کرایا تھا، گوروں کا راج کیا برا تھا جن کے بارے میں منو سمرتی بھی خاموش ہے۔ ان کی گنتی بروں میں ہے نہ اچھوں میں۔۔۔۔ دور ریڈیو سے آواز آرہی تھی ایسا کل جگ آئے گا ہنس چگے گا دانہ دُنکا کوّا موتی کھائے گا۔ گانے کے انکشاف سے ہونٹ ہی ہونٹ میں محمد رفیع کو کوسا۔۔۔۔ اور منھ پر تالا سا لگ گیا۔
پنڈتانی پیتل کی تھالی میں کھووے کے لڈّو لائیں اور اپنے ہاتھوں سے چرن داس کے منھ میں رکھنے لگیں اور اسی ہاتھ سے رام دلاری اور پنڈت جی کو کھلائے۔
چرن داس نے جھک کر جیسے ہی پنڈت جی کے ننگے پاؤں میں جوتے پہنانے کی کوشش کی وہ ایک ہی جھٹکے میں پیچھے ہٹے اور ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہو گئے’’سرکار! مجھے کیوں پاپ کا بھاگیدرا بنارہے ہیں؟‘‘
اس بدلتے منظر نامے کو دیکھ کر رام دلاری مسکرا رہی تھی اور چرن داس کھڑا اپنے پاؤں کے نیچے اپنی زمین تلاش کررہا تھا۔
پنڈت رام بھکت، پنڈتائین کے کان میں کہہ رہے تھے ’’ دونوں کی سیتا اور رام کی سی جوڑی لگتی ہے۔‘‘
ہاں کہہ کر اوپر نیچے گردن ہلا رہی تھیں، سورج کی کرنیں چاروں طرف پھیل چکی تھیں۔
رخصت ہوتے وقت رام دلاری کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے یا کہ بچھڑنے کا غم یہ خود اس کو بھی پتہ نہیں تھا۔
’’ان آنسوؤں کا بچا کر رکھو، یہ بہت قیمتی ہیں بعد میں کام آئیں گے۔‘‘ چرن داس نے مسکراتے ہوئے اسے تسلی دی۔
دن، دنوں میں بدلے منتظر آنکھیں پتھرانے لگیں۔۔۔۔ جب کیفیت نے شدت اختیار کی تو محبت کی بیماری دل سے جسم کو لگنے لگی۔ مہینے سال میں بدل گئے ،دو سال تک چرن داس کا نہ فون آیا اور نہ ہی کوئی اطلاع ملی۔ رام دلاری کو کوئی ایسا جان لیوا روگ لگا جس نے پرانی عشقیہ داستانوں کی یادیں تازہ کر دیں جس میں محبوب کے لیے جان قربان کر دی جاتی ہے۔۔۔۔۔ پریم روگ نے اندر ہی اندر جسم کو دیمک کی طرح چاٹنا شروع کر دیا۔ کھانسی، بخار اور کمزوری نے ٹی۔بی کی شکل اختیار کر لی۔ لاغر بدن پیلا پڑتا گیا۔ آخر کار بستر سے لگ گئی۔۔۔۔ اورلب ودہن پر چرن داس نام کے وظیفہ کی رٹ لگ گئی۔
چرن داس کی اپنی زندگی تھی اور زندگی نوکری کے لے وقف تھی۔ اپنے ہی سماج میں اس نے ایک خوبصورت لڑکی سے یہ سوچ کر شادی کر لی کہ دلت کو ڈی ایم کی بیوی کہلانے کا مان نصیب ہو جو اسی کا حق ہے۔
ادھر رام دلاری کی حالت دن بدن بگڑتی جارہی تھی،پریم کا لاعلاج روگ کسی کسی کو ایسا لگتا ہے کہ آزارِ جاں بن جاتا ہے۔ رام بھکت کے سمجھانے بجھانے کے باوجود اس نے اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ میری آخری ملاقات کرا دی جائے۔
مرینہ سے گوالیار صرف ایک گھنٹہ کا سفر تھا۔ دوسروں کی مدد سے رام دلاری کو کار کی پچھلی سیٹ پر لٹا دیا گیا او رپنڈت جی آگے ڈرائیور کی سیٹ کے قریب بیٹھ گئے۔ کار ہوا کی رفتار سے ڈی۔ایم آفس پہنچی۔
پنڈت جی نے ڈی ۔ایم۔ آفس کی نیم پلیٹ پر نظر ڈالی سی۔ڈی۔گوتم(آئی۔اے۔ایس) سوچنے لگے چرن داس کا پد بڑا ہو گیا لیکن نام سکڑ کر چھوٹا ہو گیا۔ ڈی۔ایم۔ کی اجازت سے آفس کے اندر داخل ہوئے اور جاتے ہی ایک ہی سرعت میں چرنوں میں گر گئے اور سسکتے ہوئے بولے ’’سرکار! رام دلاری نے آپ کا بہت انتظار کیا۔۔۔۔ انتظار کی آخری گھڑی آپ کے درشن کے لیے تڑپ رہی ہے۔‘‘
اسی لمحہ چرن داس آفس سے نکلے، کار کی پچھلی کھڑکی کھولی، رام دلاری آخری سانسیں گن رہی تھیں۔ منتظر آنکھیں کھلنے کے ساتھ اس کی بندھی مٹھی کھلی، ہتھیلی پر سندور کی ڈبیہ کا ڈھکن کھلا تھا۔ ’’تم میرے من مندر میں دیوتا کی طرح براجمان ہو‘‘
اس نے چٹکی بھر سندور مانگ میں بھرا، رام دلاری کو لگا کہ ’’مانگ کا مون پردرشن‘‘ جیسے سپھل ہو گیا ہو، ہونٹوں پر آخری مسکراہٹ کو لیے صدا کے لیے آنکھیں موند لیں۔
٭٭٭