نقی احمد ندوی
ریاض، سعودی عرب
آپ جو کچھ بھی تصور کریں اس دنیا میں ناممکن نہیں ہے۔ اگر آپ کو اپنے مقصد اور اپنی ذات پر بھروسہ اور اعتماد ہے تو وسائل اللہ تعالیٰ فراہم کردیتے ہیں۔ اگر خود اپنے اوپر بھروسہ اور یقین نہیں تو دنیا کی کوئی طاقت آپ کو کامیابی نہیں دلاسکتی۔ کامیابی کوئی ایسی جنس نہیں جو بازار میں ملتی ہو، وہ کوئی ایسا تحفہ نہیں جو دوسرا شخص آپ کو پیش کردے۔ وہ کوئی ایسی بھیک نہیں جو دوسروں سے مانگی جاسکے۔ وہ کوئی ایکسیڈنٹ نہیں جو اچانک کہیں آپ سے ٹکرا جائے بلکہ کامیابی سب سے پہلے اپنے دماغ میں تخلیق کی جاتی ہے پھر اس کے لیے قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ اپنی جان، مال اور وقت لگانا پڑتا ہے اور خواہشات کو دبانا پڑتا ہے اور ایک طویل مدت تک محنت، لگن ، جانفشانی کرنے کے بعد کامیابی کی کنجی ہاتھ لگتی ہے۔
جن لوگوں نے ناممکن کو ممکن کردکھایا ہے ان میں ایک نام اس لڑکی کا بھی ہے، جو صرف دو سال کی عمر میں ایک ایسی بیماری کا شکار ہوگئی تھی جس کی وجہ سے وہ نہ تو بول سکتی تھی، نہ سن سکتی تھی اور نہ ہی دیکھ سکتی تھی، جس معصوم بچی کی بصارت، سماعت اور قوتِ گویائی سب کچھ چھن گئی ہو اس بچی سے کیا امید کی جاسکتی ہے؟ اندھاپن ہی انسان کو اپاہج بنانے کے لیے کافی ہوتا ہے وہ نہ صرف دوسروں کا محتاج بنادیتا ہے بلکہ اس کی زندگی خود اپنے لیے بوجھ بن جاتی ہے۔ مگر ایک ساتھ اندھا، بہرا اور گونگا ہوجانا وہ بھی دو سال کی عمر میں یقینا قدرت کا امتحان نہیں تو اور کیا ہے؟ مگر اس اندھی، بہری اور گونگی بچی نے جو کچھ کر دکھایا، وہ یقینا آنے والی نسلوں کے لیے ایک مشعلِ راہ سے کم نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان سمیت دنیا کے نہ جانے کتنے ممالک میں اس بچی کی زندگی کی کہانی اسکولوں اور کالجوں میں پڑھائی جاتی ہے اور یہ بتایا جاتا ہے کہ جو دیکھ نہیں سکتی، بول نہیں سکتی اور سن نہیں سکتی، وہ اگر علم حاصل کرکے اپنے ملک، قوم اور سب سے بڑھ کر انسانیت کی خدمت کی ایک عظیم مثال قائم کرسکتی ہے تو تم نہ تو بہرے ہو، نہ اندھے ہو اور نہ ہی گونگے ہو، لہٰذا تم سے اگر قوم، ملک اور انسانیت کو کچھ امیدیں اگر وابستہ ہیں تو غلط نہیں؟
یہ کہانی ہے ہیلن کیلر کی، جو شمالی الابامہ کے چھوٹے سے شہر توسکومبیا میں 27جون1880میں پیدا ہوئی، ولادت کے بعد وہ دوسرے بچوں ہی کی طرح نارمل تھی، اپنی ماں کی گود میں ہنستی کھیلتی بچی کو ایک دن بخار آگیا، بخاربہت تیز تھا، کچھ علاج معالجہ کے بعد بخار تو چلا گیا، مگر اس معصوم بچی کو بہرا، گونگا اور اندھا بناگیا۔ہیلن کیلر اپنی آپ بیتی میں اس کی تفصیل بیان کرتی ہوئی خود لکھتی ہیں:
فروری کے اندوہناک مہینہ میں وہ بیماری آئی، جس نے میری آنکھوں اور کانوں دونوں کو بند کردیا اور مجھے ایک نوموجود بچہ کی لاشعوری کیفیت میں ڈھکیل دیا۔ وہ لوگ پیٹ اور دماغ کی بیماری کہتے تھے۔ ڈاکٹر نے سوچا کہ میں بچ نہیں پاؤں گی۔ ایک دن صبح کو وہ بخار پھر اچانک چلا گیا جس طرح اچانک آیا تھا، گھر میں خوشی چھا گئی مگر کسی کو پتہ نہیں تھا، کہ میں اب کبھی نہ دیکھ سکتی ہوں اور نہ سن سکتی ہوں۔‘
اس بیماری کے بعد ہیلن نے چند سال ایک عجیب خاموش دنیا میں گزارے، جہاں پر بچپن کی کچھ دھندلی یادوں کے سوا کچھ نہ تھا، اسے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے پوری کائنات پر یک دم خاموشی سی چھا گئی ہو، وقت تھم گیا ہو، سنّاٹا چھا گیا ہو، اور بیک وقت اس کے آس پاس کی پوری دنیا ٹھہر سی گئی ہو۔
اپنی بیٹی کی حالت دیکھ کر ماں کو چین نہیں آتا تھا، وہ چاہتی تھی کہ اس کی ننھی سی گڑیا بھی عام بچوں کی طرح لکھے پڑھے، مگر اس بچی کو کیسے پڑھایا جاسکتا تھا جو نہ تو بول سکتی تھی نہ سن سکتی تھی اور نہ ہی دیکھ سکتی تھی۔ ماں تو ماں ہوتی ہے، اس نے اپنی کوشش جاری رکھی، ایک جگہ اس نے پڑھا کہ کسی شخص نے ایک اندھی اور بہری عورت کو لکھنا پڑھنا سکھایا تھا، وہ در بدر کی ٹھوکریں کھاتی رہی اور اپنی بیٹی کی تعلیم کا نظم کرنے میں لگی رہی تاآںکہ کسی طرح ٹیلی فون کے موجد ڈاکٹر گراہم بیل سے اس کی ملاقات ہوگئی جنھوں نے ہیلن کی ماں کو اسپیشل بچوں کی استانی مس سیلوان تک پہنچادیا۔
مس سیلوان ہیلن کیلر کی زندگی میں ایک انقلاب بن کر آئی، مس سیلوان نے ہیلن کیلر کے ہاتھ پر الفاظ لکھ لکھ کر احساسات کے ذریعہ اسے حروف تہجی سے متعارف کروانا شروع کیا، مس سیلوان ہیلن کے لیے تحفہ میں جو گڑیا لے کر آئی تھی، اس گڑیا کو اس کے ہاتھ میں پکڑا کر اس کے ہاتھ پر گڑیا کی حروف تہجی لکھا کرتی، پانی کے نل سے پانی اس کے ہاتھ پر گرا کر پانی کی ہجے یاد کراتی، یہاں تک کہ ہیلن کے تجسس کی تسکین کے لیے مس سیلوان نے ہیلن کی ہتھیلی پر انڈہ سے جوزے نکلنے کا عمل تک مکمل کروایا، اس طرح ہیلن کی ابتدائی تعلیم کا آغاز ہوا۔
1894ء میں مس سیلوان ہیلن کو لے کر نیویارک چلی آئیں جہاں مزید تعلیم کے مواقع موجود تھے۔ چنانچہ ان کا داخلہ Wright-Humason School for Deaf میں ہوگیا۔ پھر اس کے دو سال بعد ہوسٹن کے ایک اسکول Horace Mann School for Deafمیں تعلیم حاصل کی، اس کے بعد ہیلن نے Cambridge School for Young Ladies میں داخلہ لیا اور اس کے بعد ہاروارڈ یونیورسٹی کے Radeliffe College میں ایڈمیشن لیا۔
1904ء میں چوبیس سال کی عمر میں ہیلن کیلر نے بیچلر آف آرٹس کی ڈگری حاصل کی اور اس طرح پوری دنیا میں وہ پہلی شخصیت بنیں جس نے اندھے، بہرے اور گونگے ہونے کے باوجود یہ ڈگری حاصل کی تھی، اپنی تعلیم کے دوران وہ بولنا بھی سیکھتی رہیں، چنانچہ اپنی زندگی کے پہلوؤں پر تقریریں اور لیکچرس بھی دینے لگی تھیں۔ لوگوں کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ کر ان کی باتوں کو سمجھنا بھی سیکھ لیا تھا اور ساتھ ہی بریل کے ذریعہ پڑھنے میں ماہر بن چکی تھیں۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعدہیلن نے اپنے تجربات کا استعمال کرتے ہوئے ایک مصنف اور خطیب بننے کی طرف توجہ مبذول کردی اور دنیا کے معذوروں اور عورتوں کے حقوق کی بازیابی کے لیے کام کرنا شروع کیا ۔ 1915ء میں پینتیس سال کی عمر میں جورج اے کیلر کے ساتھ مل کر Helen Keller International Organization قائم کیا جس کا مقصد اور مشن بصارت، صحت اور غذائیت کے شعبے میں تحقیق اور ریسرچ کرنا تھا۔
آنے والے سالوں اور دہائیوں میں ہیلن نے اپنا لیکچر جاری رکھا اور مس سیلوان کے ساتھ چالیس سے زائد ممالک کا دورہ کیا۔ ہیلن نے بارہ کتابیں لکھیں، آج بھی ہیلن کیلر کی شخصیت کے اثرات ان کی تصنیفات اور مقالات، ان کی تقریروں اور خطبات اور ان کی تنظیموں کی شکل میں محسوس کیے جاسکتے ہیں۔
1964ء میں امریکہ کے صدر Lyndon B. Johnsonنے ہیلن کیلر کو امریکہ کا سب سے امتیازی ایوارڈThe Presidential Medal of Freedom عطا کیا۔ گرچہ ہیلن کیلر ایک جون 1968ء کو انتقال کرگئی مگر آج بھی ان کی زندگی کی تگ و دو، محنت1964ء میں امریکہ کے صدر Lyndon B. Johnsonنے ہیلن کیلر کو امریکہ کا سب سے امتیازی ایوارڈThe Presidential Medal of Freedom عطا کیا۔ گرچہ ہیلن کیلر ایک جون 1968ء کو انتقال کرگئی مگر آج بھی ان کی زندگی کی تگ و دو، محنت و مشقت، ہمت و حوصلہ اور تصنیفات اور لیکچرس پوری دنیا کے لوگوں کو متاثر کررہی ہیں۔
ہیلن کیلر ایک رول ماڈل تھیں، انھوں نے یہ ثابت کردکھایا کہ گونگے، بہرے اور اندھے لوگ بھی ایک عام آدمی کی طرح نہ صرف باتیں کرسکتے ہیں بلکہ اونچی سے اونچی تعلیم حاصل کرسکتے ہیں ، میں سمجھتا ہوں کہ آپ جس حال میں ہیں اور جہاں کہیں بھی ہیں، آپ اس معذور لڑکی سے کہیں زیادہ بہتر ، کہیں زیادہ طاقتور اور کہیں زیادہ وسائل سے لیس ہیں اگر آپ چاہیں اورسچ مچ چاہیں تو آپ اپنے مقصد میں ضرور کامیاب ہوسکتے ہیں کوشش کرکے تو دیکھئے۔