ضلع ڈوڈہ میں محکمہ دہی ترقی کے ملازمین قانون کی دھجیاں اڑانے پر بضد
محمد اشفاق/ فرید احمد نائک
ڈوڈہ؍؍حق جانکاری قانون یعنی کہ آر ٹی آئی ایک ایسا قانون ہے جس کے تحت ہر خاص و عام سرکاری دفاتر سے کسی بھی قسم کی جانکاری حاصل کر سکتا ہے، لیکن مختلف محکموں میں تعینات آفیسران نے اس قانون کے اہمیت و افادیت کو یکسر نظر انداز کرنا شروع کر دیا ہے۔ جموں و کشمیر اور خاص طور پر وادی چناب میں کسی بھی دفتر میں تعینات عوامی اطلاعات آفیسر اس قانون کی دھجیاں اڑانے میں ملوث پائے گئے ہیں۔ آر ٹی آئی کے تحت عرضیاں دائر کرنے والے اکثر لوگوں کے ساتھ دھوکہ دہی کر کے انہیں ٹال دیا جاتا ہے، اور اکثر موقعوں پر تو عارضی دائر کرنے والے افراد کو ڈرایا اور دھمکایا بھی جاتا۔اس سلسلے کی اہم مثال ضلع ڈوڈہ کا گھٹ بلاک ہے، اور اس دفتر میں تعینات اکثر ملازمین اس قانون کو چوہے بلی کا کھیل سمجھ کر بنا کسی خوف کے سرکاری خزانے کو چونا لگانے میں مصروف ہیں، اور حق جانکاری قانون کے تحت جانکاری حاصل کرنے کے خواہاں لوگوں کو اکثر یا تو گول مول جواب فراہم کیے جاتے ہیں یا پھر ان کے سوالوں کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔اسی بلاک سے تعلق رکھنے والے ایک سماجی کارکن نے لازوال کو اطلاعات فراہم کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے آج سے پانچ ماہ قبل حق جانکاری کے تحت مزکورہ بلاک سے چند کاغذات طلب کئے تھے لیکن پانچ ماہ گزرنے تک انہیں کوئی جواب موصول نہیں ہوا اور پانچواں مہینہ ختم ہوتے ہی انہیں ڈاکخانہ کے ذریے ایک لفافہ موصول ہوا اور وہ لفافہ چاک کرتے ہی ان کے ہوش اڑ گئے،کیوں کہ لفافے میں ایک کاغذ موجود تھا جس میں پردھان منتری اوس یوجنا کے متعلق بنیادی جانکاری جس تک ہر انسان انٹرنیٹ کے ذریعے رسائی حاصل کر سکتا ہے فراہم کی گئی تھی۔ اور آخر میں چند ویب سائٹس کے لنک درج تھے جو کسی بھی ویب براؤزر سے نہیں کھل رہے تھے۔مذکورہ سماجی کارکن نے مزید معلومات فراہم کرتے ہوئے کہا کہ بلاک گھٹ میں محکمہ دہی ترقی کے ملازمین فرضی وینڈروں اور فرضی کاموں کے نام پر کروڑوں روپے خرد برد کر کے سرکاری خزانے کو چونا لگا چکے ہیں، جو کہ انتہائی تشویشناک بات ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آر ٹی آئی کے ذریعے جانکاری حاصل کرنے کے خواہاں لوگوں کو گول مول جواب فراہم کرنے کے پیچے آخر کون سا راز چھپا ہوا ہے، اور ضلعی اور ریاستی سطح کے آفیسران اس سلسلے میں شکایات موصول ہونے کے باوجود بھی خاموش کیوں ہیں؟ اور سب سے بڑی بات یہ کہ جب جواب میں ویب سائٹس کے لنک اور غیر ضروری معلومات ہی فراہم کی جا رہی ہیں تو یہ ایکٹ نافذ کرنے کے فوائد آخر کار کیا ہو سکتے ہیں ؟