ادب و صحافت میں بھی سرخ رو ہیں فارغین مدارس

0
0
ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
فارغین مدارس کی علمی، ادبی و صحافتی خدمات
اکثر و بیشتر یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ وہ کون لوگ ہیں جن کے دم سے اردو زندہ ہے۔ باد مخالف کے باوجود اردو ترویج و اشاعت، ترقی و تنوع میں کسی بھی دوسری زبان سے پیچھے نہیں ہے۔ اس میں اہل مدارس یا یونیورسٹیوں کے شعبہ اردو کا کیا کردار ہے۔ ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو مدرسہ بیک گراونڈ کے اکابرین، فارغین اور دینی حلقوں کی ادبی خدمات کو لے کر سوال کرتا ہے کہ کیا ان سے کوئی نامور ادیب، شاعر، افسانہ نگار، ناول نگار، نقاد یا مورخ پیدا ہوا؟ اس بارے میں آپ کی رائے مختلف ہو سکتی ہے لیکن ہر رائے کی قدر کی جانی چاہیے۔ جائزہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اردو کے فروغ کی جو خدمت دینی مدارس کر رہے ہیں وہ یونیورسٹیوں کے شعبہ اردو نہیں کر پا رہے۔ اردو شعبوں میں ادب تو پیدا ہوا لیکن اس کو قدردان اور قارئین دینی مدارس نے فراہم کئے۔ اس مختصر مضمون میں کچھ ایسی شخصیات کا اجمالی تذکرہ کیا گیا ہے جنہوں نے مدرسہ یا دینی بیک گراونڈ کے ہونے کے باوجود اردو ادب میں نہ صرف نام پیدا کیا بلکہ ان کے بغیر زبان و ادب کی مکمل تاریخ کا تصور ممکن نہیں۔
مولانا ابوالکلام آزاد نے کسی کالج یا یونیورسٹی سے فراغت حاصل نہیں کی تھی۔ ان کی تعلیم گھر پر دینی پس منظر میں ہوئی تھی۔ سب سے پہلے ان کے والد مولانا خیر الدین نے جو بہت بڑے پیر تھے، انھیں عربی، فارسی کی ابتدائی تعلیم دی۔ بعد میں مولانا آزاد نے عربی، فارسی، اردو انگریزی میں ازخود دسترس حاصل کی۔ ان کی ادبی و صحافتی خدمات سے انکار کرنے کی آج کسی میں بھی جرا ¿ت نہیں ہے۔ چونکہ مولانا کے بارے میں پوری دنیا جانتی ہے،اس لیے یہاں مزید اظہار خیال کی ضرورت نہیں ہے۔
سرسید احمد خاں گو کہ مولوی نہیں تھے لیکن ان کا پس منظر بھی دینی تھا۔ انھوں نے رسالہ تہذیب الاخلاق نکال کر ادبی و مذہبی صحافت میں جو معیار قائم کیا، اس سے ہر اہل علم واقف ہے۔ ان کی مذہبی تصنیفات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ اس وقت تہذیب الاخلاق کی ادارت سعود عالم قاسمی کے حوالے ہے۔ جو دارالعلوم دیوبند سے فارغ اور علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ سنی تھیولوجی میں پروفیسر ہیں۔
رسالہ مخزن، ہمایوں، شاہکار اور ادبی دنیا وغیرہ سے شہرت کی بلندیوں پر فائز ہونے والے علامہ تاجور نجیب آبادی شمس العلما ہونے کے ساتھ ادیب الملک بھی تھے۔ انھوں نے ادبی مرکز کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا تھا جس کے فیض سے بے شمار ادباءو شعراءپیدا ہوئے جن میں اختر شیرانی، احسان دانش، روش صدیقی، اصغر گونڈوی اور جگر مرادآبادی قابل ذکر ہیں۔ پنجاب میں اردو کی ترویج میں علامہ تاجور نجیب آبادی کا اہم کردار ہے۔ تلوک چند اور موہن سنگھ دیواکر جیسے حضرات بھی ان سے اصلاح لیتے تھے۔ علامہ کی ابتدائی تعلیم دارالعلوم دیوبند میں ہوئی تھی۔ سید ممتاز علی دیوبندی انہیں کے ہم عصر تھے۔ انہوں نے دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد یکم جولائی 1898 میں لاہور سے’ تہذیب نسواں‘جاری کیا جو 1949 تک پابندی سے شائع ہوتا رہا۔ اس کے حلقہ ادارت میں عبدالمجید سالک، امتیاز علی تاج اور احمد ندیم قاسمی جیسے ممتاز ادباءشامل رہ چکے ہیں۔ انہوں نے بعد میں مشیر مادر اور بچوں کا رسالہ ’پھول‘ نکالا۔ پھول کو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی۔ مخزن، ہمایوں، شاہکار اور تہذیب نسواں نے جو ادبی کارنامے انجام دیے، وہ اردو ادب کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے ہوئے ہیں۔
 نامور ادیب، نقاد، محقق، مترجم، مورخ، صحافی اور ماہر لسانیات علامہ نیاز فتح پوری کی ادبی صحافت میں مجتہدانہ حیثیت ہے۔ وہ تقریباً 35 کتابوں کے مصنف تھے۔ انھوں نے 1922 میں ایک ادبی جریدہ ’نگار‘ جاری کیا جو تھوڑے ہی عرصے میں اردو میں روشن خیالی کا مظہر بن گیا۔ نگار محض ادبی جریدہ ہی نہیں بلکہ ایک ادارہ، ایک رجحان اور ایک قدر تھا۔’نگار‘ کا نام ندوةالعلمائ، سلطان المدارس اور لکھنو یونیورسٹی کے ساتھ لیا جاتا تھااور نگار میں مضمون چھپ جانا ویسا ہی تھا جیسے ان علمی اداروں سے سند مل جائے۔ نیاز فتح پوری بھی مذہبی ادارے کے تعلیم یافتہ تھے۔
معروف ادیب، صحافی، ناول نگار اور مجاہد آزادی حیات اللہ انصاری کو کون نہیں جانتا۔ انھوں نے لکھنو کے علمائے فرنگی محل کے مشہور علمی خانوادے میں آنکھیں کھولیں۔ بچپن میں مذہبی تعلیم پائی اور دارالعلوم فرنگی محل سے سند فراغت سے سرافراز ہوئے۔ انھوں نے وہاں تین سال تک مدرسی بھی کی۔ روزنامہ قومی آواز، ہفت روزہ ہندوستان، ہفت روزہ سب ساتھ اور ہفت روزہ سچ رنگ سے انھوں نے زبان و ادب کی جو خدمت کی وہ غیر معمولی ہے۔ انھوں نے 2618 صفحات پر مشتمل ناول ’لہو کے پھول‘ لکھا جو ادب میں ایک مقام رکھتا ہے اور جسے ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ ملا تھا۔ لہو کے پھول پانچ جلدوں میں ہے۔
علامہ راشد الخیری عربی مدرسے کے تعلیم یافتہ تھے۔ انھوں نے 1908 میں ماہنامہ’عصمت‘کا اجرا کیا تھا۔عصمت اپنے زمانے کا بہترین رسالہ تھا۔ اس نے خواتین میں پائی جانے والی فرسودہ رسوم و روایات کو ختم کیا اور ان کے اندر ادبی ذوق پیدا کیا۔ ان کا شمار بڑے افسانہ نویس و ناول نگاروں میں ہوتا ہے۔ انھوں نے کئی تاریخی ناول بھی لکھے ہیں۔
علامہ سید سلیمان ندوی کے قلم نے دس بیس سال نہیں ،پچاس سال تک دین، علم اور ادب کی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ علامہ شبلی نعمانی کی علمی وراثت کو انہوں نے سنبھالااور اپنے استاد کی جانشینی کا حق ادا کیا۔ شبلی نعمانی نے اپنے لائق شاگرد کو مرتے دم وصیت کی تھی کہ سیرة النبی کے کام کو پورا کرنا ہے اور سید صاحب نے اس عظیم الشان کام کو اس خوبی کے ساتھ انجام دیا کہ وہ دین و اخلاق اور تاریخ و ادب کا قابل فخر کارنامہ بن گیا۔ انھوں نے الندوہ اور الہلال میں اپنے مضامین کے ذریعے جو خدمات انجام دیں وہ بھی ناقابل فراموش ہیں۔ علامہ شبلی نے اپنی زندگی میں’دارالمصنفین‘ کا خاکہ تیار کیا تھا۔ ان کے انتقال کے بعد 1915 میں اعظم گڑھ میں اس کی بنیاد ڈالی۔ 1916 کے رمضان المبارک میں سید سلیمان ندوی کی ادارت میں ’معارف‘ کے نام سے اس کا آرگن جاری ہوا۔ معارف آج بھی ایک معتبر علمی رسالہ ہے۔ خود علامہ شبلی نعمانی نے جو ادبی و مذہبی خدمات انجام دی ہیں، ان سے پوری دنیا آگاہ ہے۔ علم و ادب کی تحریک کو آگے بڑھانے میں علامہ حمید الدین فراہمی کا نام بھی بہت نمایاں ہے۔
مولانا امین الرحمن عرف عامر عثمانی کے ماہنامہ ’تجلی‘ کو کون فراموش کر سکتا ہے جس نے ایک چوتھائی صدی تک اہل ذوق سے خراج تحسین وصول کیا اور اسی کے ساتھ صحافت میں مذہبی اقدار کی روایت کو بھی آگے بڑھایا۔ وہ بیک وقت عالم و فقیہ بھی تھے اور ادیب و انشاپرداز بھی۔ صاحب طرز طنز نگار بھی اور ایک نغز گو شاعر بھی۔ انھوں نے 1939 میں دارالعلوم دیوبند سے سند فراغت حاصل کی تھی۔ اسی درسگاہ کے مشہور زمانہ نونہال مظہر الدین شیرکوٹی اور جمیل مہدی کو کون بھلا سکتا ہے۔ مظہر الدین کا تعلق مدینہ بجنور سے رہا۔ ان کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے مولانا آزاد نے البلاغ کے حلقہ ادارت میں شامل کیا تھا۔ جمیل مہدی نے اپنی ادبی صحافت کا آغاز 1951 میں سیماب اکبرآبادی کے رسالہ’شاعر‘سے کیا تھا۔ اس کے بعد روزنامہ جمہوریت، روزنامہ خلافت اور ہندوستان میں بھی اپنی ادارتی خدمات انجام دیں۔
مولانا عبدالحلیم شرر نے اردو، فارسی، عربی، منطق اور طب کی تعلیم حاصل کی تھی۔ انھوں نے لکھنو ¿ سے 1887 میں ماہنامہ دلگداز کا اجرا کیا تھا۔ دلگداز میں مولانا نے بیش بہا مضامین لکھے جو بعد میں کئی جلدوں میں ’مضامین شرر‘ کے نام سے شائع ہوئے۔ ان رسائل میں انھوں نے آزاد نظم اور معریٰ نظم کے تجربات کیے اور یوں اردو شاعری میں نظم کے حوالے سے اہم سنگ میل کی صورت اختیار کی۔ انہوں نے 1886 ہی میں بنکم چندر چٹر جی کے ناول درگیش نندنی کا انگریزی سے اردو میں ترجمہ کیا تھا۔
مولانا عبد الرزاق ملیح آبادی مولانا ابوالکلام آزاد کے رفقائے خاص میں شامل تھے۔ وہ مولانا کے ہم جلیس بھی رہے اور رفیق زنداں بھی۔ انھوں نے لکھنو ¿ کے ندوہ اور مصر میں علامہ رشید رضا کے مدرسہ میں تعلیم حاصل کی تھی۔ اس درمیان وہ قسطنطنیہ بھی گئے۔ ’جامعہ المصر‘ اور ’جامعہ ازہر‘ سے استفادہ کیا اور مصری کتب خانوں سے مختلف موضوعات پر کتابیں لا کر پڑھتے رہے۔ وہ مولانا آزاد کے اخبار الہلال و البلاغ کے اصل کرتا دھرتا تھے۔ انھوں نے خود کئی اخبارات نکالے جن میں آزاد ہند قابل ذکر ہے۔ آزادی کے بعد جب مولانا آزاد وزیر تعلیم بنا دیے گئے تو انھوں نے ہندوستانی ثقافت سے اہل عرب کو متعارف کرانے کےلئے ثقافة الہند نامی انتہائی معیاری جریدہ نکالا جو ابھی گزشتہ کچھ برسوں تک نکلتا رہا ہے۔ اس جریدے کی خدمات سے کوئی تعلیم یافتہ شخص انکار نہیں کر سکتا۔
مولانا حامدالانصاری غازی ان مقتدر ادیبوں اور صحافیوں میں شامل ہیں جنھوں نے اپنے مضامین میں سیاسی تدبر و تفکر کا ثبوت دیا اور نہایت مربوط اور شائستہ زبان میں عصری واقعات وحالات پر شذرات لکھے۔ ان کی تحریروں میں سیاسی شعور کی پختگی اور ان کے سیاسی نظریے اور رویے کا استحکام نظر آتا ہے۔ ان کے قلم کی روانی قارئین کو خوب متاثر کرتی تھی۔ ان کی فکر انگیز اور نتیجہ خیز تحریروں نے ان کی فکری، ذہنی، علمی، تحقیقی صلاحیتوں کا ہر کسی کو قائل کیا۔ حامد الانصاری غازی کو شروع ہی سے صحافت میں دلچسپی تھی۔ دارالعلوم دیوبند میں دوران طالب علمی انہوں نے پہلا ہفتہ وار دیواری پرچہ 1926 میں’گل باغ‘ نکالا جسے بعد میں’بہار باغ‘ کر دیا۔ اس سلسلہ کو وحیدالزماں کیرانوی نے اپنے تقرر 1960 کے بعد طلبہ میں علمی، ادبی اور صحافتی شوق پیدا کرنے کےلئے دوبارہ شروع کیا جو ہنوز جاری ہے۔
غازی صاحب فراغت کے بعد الجمیتہ سے وابستہ ہو گئے ۔تین سال کے بعد مشہور ہفت روزہ’مدینہ‘ بجنور کے مدیر مقرر ہوئے۔ تاجور نجیب آبادی کے اصرار پر ان کے اخبار ’نقاد‘ میں خدمت انجام دی لیکن انہیں مدینہ بجنور کی ادارت کےلئے پھر بلا لیا گیا۔ 1950 میں وہ ممبئی چلے گئے۔ جہاں جمعیة علماءمہاراشٹر کے آرگن ’جمہوریت‘ کے ایڈیٹر بنائے گئے۔ مولانا نے مفتی عتیق الرحمن کے ساتھ مل کر ندوة المصنفین کا قیام بھی کیا تھا اور اس کے ترجمان ندائے حرم کی ادارت کی۔ غازی صاحب کی اہلیہ اور قاری طیب صاحب کی صاحب زادی ہاجرہ نازلی بہترین افسانہ نویس اور ناول نگار تھیں۔ اگر وہ اردو ادب کی کسی تحریک(ترقی پسند، جدیدیت) سے وابستہ ہوتیں تو ان کا شمار بڑے افسانہ نگاروں میں کیا جاتا۔
مفتی عتیق الرحمن عثمانی کے ماہنامہ برہان کے معیار کو کون نہیں جانتا۔ ان کے رفیق کار مولانا سعید احمد 1938 میں قائم ہونے والے ادارے ندوة المصنفین کی طرف سے ماہنامہ ’برہان‘ کے اجرا میں شامل رہے۔ وہ اس کے ایڈیٹر بھی رہے۔ ’نظرات‘ کے زیر عنوان ان کا اداریہ شائع ہوتا تھا جس میں علمی ، مذہبی، ادبی ، سماجی و سیاسی موضوعات پر کھل کر اور بے لاگ انداز میں تبصرے ہوتے تھے۔ برہان کی ادارت سنبھالنے سے قبل انھوں نے دارالعلوم دیوبند سے سند فراغت حاصل کی تھی۔ انھوں نے لاہور سے عربی زبان میں ایم اے کیا اور کچھ عرصہ تک مدرسی کے فرائض انجام دیئے۔ سینٹ اسٹیفنس کالج لاہور میں لیکچرر کے عہدے پر خدمات انجام دینے کے علاوہ انھوں نے مدرسہ عالیہ کلکتہ کے پرنسپل کی ذمہ داری بھی نبھائی۔ جب انھوں نے ندوة المصنفین سے ’برہان‘ جاری کیا تو دیکھتے ہی دیکھتے وہ برصغیر کے اعلیٰ ترین جرائد میں شامل ہو گیا۔ ادھر مفتی عتیق الرحمن عثمانی نے علامہ ابن تیمیہ اور علامہ ابن الجوزی کی بعض اہم کتابوں کا اردو ترجمہ کیا اور اپنے ادارے سے شائع کیا۔ مفتی صاحب کے ادارے نے متعدد شاہکارکتابیں شائع کیں جن میں مولانا سعید احمد اکبر آبادی کی ’صدیق اکبر‘ اور علامہ شبلی نعمانی کی ’الفاروق‘ قابل ذکر ہیں۔ یہاں مولانا منظور نعمانی کے الفرقان اور مولانا اعجاز احمد قاسمی کے دیوبند ٹائمز کا ذکر بھی ناگزیر ہے۔
شمس العلما اور صاحب طرز ادیب مولانا محمد حسین آزاد کے والد مولانا محمد باقر نے دہلی سے پہلا اردو اخبار دہلی اردو اخبار جاری کیا تھا۔ ان کے جذبہ آزادی اور اخباری رپورٹنگ کی وجہ سے انھیں انگریزوں نے شہید کر دیا تھا۔ وہ پہلے شہید صحافی ہیں۔ وہ بھی دینی تعلیم کے پروردہ تھے اور ان کے بیٹے محمد حسین آزاد بھی۔ ان دونوں باپ بیٹوں کی خدمات تاریخ میں جلی حروف میں درج ہیں۔
ان لوگوں کے علاوہ بے شمار ایسی شخصیات گزری ہیں جنھوں نے مدرسے میں تعلیم پائی اور آگے چل کر ادب و صحافت میں نام کمایا۔ انھی لوگوں میں مولانا عبد المجید سالک، مولانا نصر اللہ عزیز، مولانا عبد اللہ عمادی، مولانا امداد صابری اور مولانا عبد الوحید صدیقی، مناظر احسن گیلانی، صدرالدین اصلاحی، انظر شاہ کشمیری، اخلاق حسین قاسمی، ظفیر الدین مفتاحی، اسرارالحق قاسمی وغیرہ شامل ہیں۔ دینی حلقے کے خواجہ حسن نظامی اور ان کے فرزند خواجہ حسن ثانی نظامی کی ادبی خدمات کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ خواجہ حسن نظامی نے اردو ادب میں جو طرز نگارش چھوڑی ہے اس کے بعد اس روش پر چلنے والا کوئی دوسرا نظر نہیں آتا۔
اردو تنقید کے جتنے بنیاد گزار ہیں، خواہ وہ خواجہ الطاف حسین حالی ہوں یا مولانا وحید الیدن سلیم، مولانا محمد حسین آزاد ہوں یا امداد امام اثر سب نے مدارس سے ہی کسب فیض حاصل کیا ہے۔ اس صف میں راجہ رام موہن رائے، منشی پریم چند اور پہلے صدر جمہوریہ ڈاکٹر راجند پرساد کا نام بھی شامل ہے۔ سارے کلاسیکی شعرا بھی مدرسہ بیک گراونڈ کے تھے۔
عہد حاضر میں رئیس احمد جعفری، انجم عثمانی، ظفر احمد صدیق، قاضی جمال حسین، شریف قاسمی، ابوالکلام قاسمی، ظ انصاری، مجروح سلطانپوری، کیفی اعظمی (یہ الگ بات ہے کہ بعد میں وہ نظریاتی طور پر منحرف ہو گئے) عبدالحمید نعمانی، حقانی القاسمی، عبدالقادر شمس، شمس تبریز قاسمی، یوسف رامپوری، عابد انور، نوراللہ جاوید، منظر امام، سعید ہاشمی، سہیل اختر قاسمی وغیرہ کا تعلق مدرسہ سے رہا ہے۔ مدارس میں صلاحیتوں کو نکھارنے کا کام آج بھی جاری ہے۔ ہر سال ہونے والے سیمنار، تقریری و تحریری مقابلے اس کی مثال ہیں۔ گزشتہ ماہ 19 دسمبر کو دیوبند میں ’دبستان دیوبند کی ادبی و صحافتی خدمات‘ کے موضوع پر اسلامیہ ڈگری کالج میں منعقدہ سیمنار میں شرکت کا موقع ملا۔ وہاں نوجوانوں کے ذریعہ اساتذہ اور ماہرین علم و ادب کی موجودگی میں پڑھے گئے مقالوں سے اندازہ ہوا کہ اردو زبان و صحافت کا مستقبل اہل مدارس کے دم سے روشن ہے۔ کیوں کہ ان دینی درسگاہوں کے تربیت یافتہ یونیورسٹی، کالج ہوں یا علم و ادب کو فروغ دینے والے ادارے، پرنٹ، الیکٹرانک یا آن لائن سوشل میڈیا ہر جگہ موجود ہیں۔ خاص کر اردو زبان و صحافت کی ترقی کا تو ان کے بغیر تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔
FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا