سر سبز درختوں کے ساتھ لٹکتی موت کی تاریں

0
0

حناء رانی
سامبورہ،پامپور،
پلوامہ، کشمیر

جموں وکشمیر بجلی کی پیدہ وار میں ایک اہم مقام رکھتا ہے۔یعنی یہاں سے بجلی پیدہ کرنے کے بعد بھی پڑوسی ملک کو ہمارے دریا فیضیاب کرتے ہیں۔جموں و کشمیر میں بالخصوص وادی چناب میں پن بجلی پروجیکٹ تعمیر کئے گئے ہیں اور اب جموں و کشمیر میں بجلی کی نجکاری بھی ہو چکی ہے۔ہر مہینے متعلقہ انتظامیہ کافی محنت کے ساتھ عوام کی دہلیز تک بجلی کے بل پہنچاتی ہے۔لیکن آج بھی کئی ایسے علاقہ جات ہیں جن میں بجلی سپلائی کے حالات بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔موسم سرما آتے ہی بجلی کئی کئی روز تک غائب ہو جاتی ہے اور مرمت کرنے والا بھی کوئی نہیں آتا۔وادی کشمیر کے ضلع پلوامہ کی تحصیل پامپور کے گاؤں سامبورہ کی بات کی جائے تو اس کی علمدار کالونی اور اکرم ڈار محلہ میں بجلی کی ترسیلی لائنیں سر سبز درختوں اور لکڑی کے کھمبوں سے لٹکائی گئی ہیں جو سر عام موت کا پیغام دیتی نظر آ رہی ہیں یعنی کسی بھی وقت کوئی بڑا حادثہ پیش آ سکتا ہے۔اس سے قبل بھی مقامی لوگوں نے متعلقہ محکمہ کو باور کروایا ہے کہ علاقہ میں بجلی کے کھمبے نصب کئے جائیں تاکہ بجلی کی سپلائی ہر موسم میں متواطر بحال رہ سکے اور کوئی حادثہ بھی پیش نہ آئے لیکن متعلقہ محکمہ کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔

واضح رہے سامبورہ گاؤں دریائے جہلم کے کنارے پر جموں وکشمیر کی گرمائی راجدھانی سرینگر سے بائیس کلومیٹر اور سٹی ہیڈکوارٹر پلوامہ سے بارہ کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔اس گاؤں کے بیچ و بیچ سے گزرنے والی شاہراہ مغل شاہراہ کے راستے وادی کشمیر کو جموں صوبہ سے ملانے والا ایک متبادل راستہ ہے۔وہیں اس گاؤں کی علمدار کالونی اور اکرم ڈار محلہ بجلی کے کھمبوں سے محروم ہیں جو اس ترقی یافتہ دور میں ترقی کے بلند و بانگ دعووں کی پول کھولتے ہیں۔ اس سلسلے میں 80 سالہ بزرگ اوراس کالونی کے رہائشی عبد الرحمن کہتے ہیں کہ ”محکمہ بجلی نے آج تک اس علاقہ میں بجلی کے کھمبے نصب کرنے کی زحمت نہیں کی اور بجلی کی تار بھی ہم نے ذاتی پیسوں سے خریدی ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ بجلی کے کھمبے کافی پرانے اور بوسیدہ ہو چکے ہیں لیکن محکمہ نے مستقل کھمبے نہیں لگائے۔انہوں نے کہا کہ جب بھی تاریں ٹوٹتی ہیں تو مقامی لوگ خود ٹھیک کرتے ہیں اور ان تاروں کی حالت بھی کافی نازک ہو چکی ہے جو کسی خطرے سے کم نہیں ہے“۔

اسی کالونی کے رہائشی بشیر احمد ڈار سے جب بات کی گئی تو انہوں نے کہا کہ ”ہر ماہ ان کے گھر بجلی کے بل پہنچتے ہیں لیکن جب بھی آندھی چلتی ہے یا برف باری ہوتی ہے تو بجلی کی تاریں ٹوٹ جاتی ہیں لیکن انہیں کوئی ٹھیک کرنے والا نہیں ہوتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ مقامی لوگوں نے فروری 2020 کے آخر میں متعلقہ محکمہ کو ان کے دفتر اونتی پورہ میں ایک درخواست بھی دی کہ انہیں تاریں اور کھمبے دئے جائیں۔ وہیں علاقہ میں ضرورت سے زیادہ کھمبے فراہم کرنے کی خاطر متعلقہ افسر نے بجٹ میں ڈالا لیکن آج تک مقامی عوام کو بجلی کے کھمبے موصول نہیں ہوئے،نہ جانے وہ یقین دہانی کہاں چلی گئی جس کا مقامی عوام کو آج تک انتظار ہے“۔وہیں ایک اور رہائشی سہیل احمد ڈار نے بتایا کہ درختوں اور لکڑی کے کھمبوں سے بندھی بجلی کی تاریں لوگوں کی زندگیوں کے ساتھ ساتھ ان کے املاک کو بھی خطرہ بن رہی ہیں۔انہوں نے مزید کہاکہ پلوامہ ضلع کے سامبورہ گاؤں کی علمدار کالونی میں انفراسٹرکچر کی ناقص فراہمی وادی کشمیر کے اس خوبصورت گاؤں کے لوگوں کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتاہے۔انہوں نے کہاکہ نامعلوم وجوہات کی بناء پر محکمہ پاور ڈیولپمنٹ (PDD) کے عہدیدار پلوامہ ضلع کے سامبورہ گاؤں کی علمدار کالونی اور اکرم ڈار محلہ میں بجلی کے کھمبے لگانے میں ناکام رہے ہیں۔ سہیل نے کہا کہ مقامی لوگوں کو خدشہ ہے کہ کئی دہائیوں سے بجلی کی لائنیں بوسیدہ لکڑی کے کھمبوں سے بندھی ہیں جو کسی بھی وقت ایک تباہی کا سبب بن سکتی ہیں۔ پلوامہ کے سامبور گاؤں سے تعلق رکھنے والی ایک مقامی رہائشی نرگس جوزی نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ گاؤں میں بجلی کے کھمبے آج تک وہی پرانے اور بوسیدہ ہیں جن کو بدلانے کیلئے متعلقہ محکمہ نے نہیں سوچا اور نہ جانے متعلقہ محکمہ خواب غفلت سے کب بیدار ہوگا۔انہوں نے مزید کہاکہ چند انچ برف باری ہونے کی وجہ سے یہ کھمبے گر جاتے ہیں پھر بجلی جیسی بنیادی ضرورت کیلئے انتظار کرنا پڑتا ہے۔

واضح رہے جموں و کشمیر بیس ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن پھر بھی سامبورہ گاؤں کی علمدار کالونی کے لوگ بجلی اور اس کے مستقل کھمبوں کیلئے پریشان ہیں۔جو اس ترقی یافتہ دور میں بھی سر سبز درختوں اور لکڑی کے کھمبوں سے تاریں باندھ کر گزارا کر رہے ہیں۔وہیں موسم سرما میں برف باری کے ہوتے ہوئے ہی لکڑی کے کھمبے اور درخت گر جاتے ہیں جس کی وجہ سے بجلی سپلائی منقطع ہو جاتی ہے اور یہاں سر سبز درختوں سے جھولے لیتی ترسیلی لائنیں سر عام موت کا پیغام دے رہی ہیں جو کسی بھی وقت کسی بڑے حادثے کو رونما کر سکتی ہیں۔ ہر بار لوگوں کو انتظامیہ نے یقین دہانی کروائی سہی لیکن مقامی عوام کو ان کے مطالبات کا ازالہ ہونے کا بے صبری سے انتظار ہے۔اس سے پہلے کہ کسی کی قیمتی جان ان ترسیلی لائنوں سے چلی جائے متعلقہ محکمہ کو خواب غفلت سے بیدار ہونے کی ضرورت ہے۔ (چرخہ فیچرس

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا