اسلامی اخوت اور اس کے مقاصد

0
0

 

تحریر۔۔ نسیم یونس عالیاوی بدلپوری بلرام پوری
اولین روز سے ہی شریعت اسلامیہ کا مزاج و روح دراصل یہی ہے کہ انسانیت کے بعد سب سے زیادہ جو رشتہ مستحکم و معتبر ہے وہ اسلامی و دینی رشتہ ہے اسی لئے نوح علیہ السلام نے جب اپنے بیٹے کو کشتی میں بیٹھنے کو کہا اور اس نے انکار کیا پھر وہ موجوں کے حوالے ہوگیا تو ادھر شفقت پدری پھنس گئی اور عمر رسیدہ باپ اللہ تعالی سے کہنے لگا اے اللہ تونے میرے اہل کو بچانے کا وعدہ کیا تھا تو آواز آئی سورہ ھود آیت نمبر 46 نوح وہ تیرے اہل سے نہیں ہیں اہل سے ہونے کے لئے عقیدہ توحید سے سرفراز ہونا ضروری ہے صرف نسبی رشتہ کافی نہیں ہے اس کے علاوہ مذہب اسلام میں فقہ کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ کافر باپ کی جائیداد میں مسلم بیٹا یا بیٹی وارث نہیں ہوسکتے یا مسلم باپ کی جائیداد میں کافر اولادیں حصہ نہیں لے سکتیں ، کیا تم نے اسے موانع ارث میں شمار کیا ہے (السراجی)
اسلامی اخوت کا مفہوم: اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے مومن مردوعورت آپس میں ایک دوسرے کے مددگار و معاون ودوست ہیں وہ بھلائیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں نمازوں کو پابندی سے بجا لاتے ہیں زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اللہ کی اور اس کے رسول کی بات مانتے ہیں یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالی رحمفرمائے گا للہ تعالی غلبہ اور حکمت والا ہے (توبہ 71) دوسری جگہ اللہ تعالی نے یوں ارشاد فرمایا ہے یاد رکھو سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں پس اپنے دو بھائیوں میں ملا پ کرادیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے(سورہ حجرات 10) اس سے اسلامی اخوت کا مفہوم واضح ہو کر سامنے آ جاتا ہے مزید وضاحت کے لیے ہم کلام نبوت کا سہارا لیتے ہیں پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مومن مومن کے لیے ایک دیوار کی طرح ہے (البخاری کتاب الصلاۃ) دوسری جگہ حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :مومنو کی مثال آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرنے اور رحم کرنے میں ایک جسم کی طرح ہے جب جسم کے ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو سارا جسم تپ کا شکار ہوجاتا ہے اور بیدار رہتا ہے (مسلم باب تراحم المومنین)معلوم ہوا کہ جب مومن آپس میں سب بھائی بھائی ہیں اس لیے اس اصل کی اہمیت کا تقاضہ ہے کہ ایک ہی دین پر ایمان رکھنے والے تصادم کی پالیسی نہ اپنائیں ایک دوسرے کے دست و بازو ہمدرد و غمگسار اور مونس خیرخواہ بن کر رہیںاور کبھی غلط فہمی پیدا ہو جائے تو اسے دور کرکے انہیں آپس میں دوبارہ جوڑ دیا جائے ،جب ہجرت کے بعد مہاجرین و انصار کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مواخات و بھائی چارے کے عمل پر تدبر و تامل کیا گیا تو اسلامی اخوت اور اس کے مقاصد کی مزید توضیح ہو جاتی ہے علامہ ابن القیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے مکان میں مہاجرین و انصار کے درمیان بھائی چارہ کرایا کل 90 آدمی تھے آدھے مہاجرین آدھے انصار بھائی چارے کی بنیادتھی کہ ایک دوسرے کے غم خوار ہوں گے اور موت کے بعد نسبتی قرابت داروں کے بجائے یہی ایک دوسرے کے وارث ہوں گے وراثت کا یہ حکم جنگ بدر تک قائم رہا پھر یہ آیت نازل ہوئی (الاحزاب آیت نمبر 6)جسمیں نسبتی قرابت دار ایک دوسرے کے زیادہ حقدار قرار دیئے گئے تب انصار و مہاجرین میں باہمی توارث کا حکم ختم کر دیا گیا لیکن بھائی چارے کا عہد باقی رہا (زادالمعاد) منصب اسلام میں اخوت و بھائی چارے کا تصور آفاقی ہے اور وہ ملک کی سرحدوں کا پابند نہیں ہے اور ما قبل اسلام کی جملہ جاہلی طرز زندگی کی اہمیت اور عصبیتوں کے منافی ہے اور دنیاوی ذات پات جو صرف تعارف کی حد تک ہے انہیں کرامت و شرافت انسانی میں موجود تھے،علامہ محمد غزالی رحمہ اللہ فقہ السیرۃ میں تحریر فرماتے ہیں اخوت و بھائی چارے کا مقصود و مطلوب یہ ہے کی جاہلی عصبیت قلیلہوجائیں تو غیرت اور حمیت جو کچھ ہو وہ اسلام کے لئے ہو نسل و رنگ اور وطن کے امتیازات مٹ جائیں بھائی بندی و پستی کا معیار انسانیت و تقویٰ کے علاوہ کچھ اور نہ ہو ، بالا تفصیلات سے یہ بات مدلل ہو کر سامنے آگئی کہ اسلامی حکومت میں ملک و وطن کی سرحدیں رنگ و نسل کی عصبیتی ذات پات واقعیت مخل نہیں ہونی چاہئے کہ ان سب سے بالاتر ہوکر ایک عالمی تصور کے ساتھ ہر فرد مسلم کو قربانی کا اعتبار کے بغیر اسلامی بھائی چارے اور ہمدردی و غمخواری کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور دل و دماغ میں باہم رحم و کرم کا جذبہ رکھنا چاہیے اور تقوی عمل صالح کو ہی معیار افضلیت یقین کرنا چاہیئے اور وہ شریعت اور دین محمدی ہی دور جاہلیت میں کیا تھا یہودی اپنی برتری عیسائی اپنی آتش پرست کہیں عرب و عجم کے جھگڑے پورے عالم انسانیت میں خانہ تباہ بنا ہوا تھا دین اسلام نے کہا نہیں عرب ہو یا عجم فار س سے آئے یا روم سے حبشہکے ہو یا افریقہ کا آزاد ہو یا غلام سب آپس میں بھائی ہیں اور یہی رشتہ اسلامی رسمیں حق و باطل کے درمیان دلیل معتبر ہے ارشاد ربانی ہے تم میں اللہ کے یہاں سب سے زیادہ معزز و مکرم وہ ہے جو حرارت ایمان و عمل صالح کا علمبردار ہے بقول (علامہ اقبال رحمتہ اللہ)
یہی مقصود فطرت ہے یہی رمز مسلمانی
اخوت کی جہانگیری محبت کی فراوانی
رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا
نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا