بھارت بندکی نوبت ہی نہ آئے

0
0

ارون کمار(اکانومیسٹ)
مترجم:غلام علی اخضر

نیازرعی قانوں کے خلاف کسانوں کے بھارت بند کا کافی اثر دیکھنے کو ملا۔ کئی جگہوں پر سٹرکیں جام کی گئیں، ٹرین روکے گئے اور بازاروں اور دکان کی تالے بند کیے گئے۔ کہتے ہیں کہ ایک تہائی معیشت اگر بند ہوتی ہے تو دیس کو قریب0 18,00کروڑ روپیوں کا نقصان ہوتا ہے ۔لیکن ملک گیر بندی سے معیشت نقصان کا ٹھیک ٹھیک شاید ئی ہی اندازہ ہوا ہے۔ لیکن بھارت کی ترقی دیکھ کراس اندازے پر کافی حدتک بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔ ویسے بھی کسی ملک گیر بند میںکم وبیش جدیدپیداوار ٹھپ ہوجاتے ہیںاور بہت ساری معاشی پالیسیاں رک جاتی ہیں؛ ان سب سے مالی نقصان ہونا لازمی ہے۔ مگر اس کا دوسرا پہلو بھی ہے۔ ہر احتجاج کی کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے۔ احتجاج کرنے والوں کا دعویٰ ہوتا ہے کہ اگر ان کے مطالبے نہیں مانے گئے تو ملک کو طویل مدتی نقصان ہوسکتا ہے، اور اسی بنیاد پر وہ موجودہ (بند کے دوران معاشی سرگرمیوںکے ٹھپ پڑنے سے، ہونے والے نقصان)نقصان کو نظر انداز کرتے ہیں۔ لیکن ایک بات اس پر بھی منحصر ہے کہ کوئی احتجاج کتنے دنوں تک چلتا ہے اور کن کن خطوں کو متاثر کرتا ہے؟
موجودہ کسان احتجاج کی بات کریں تو دہلی کی سرحدوں پر کسانوں کے لمبے وقت تک ڈٹے رہنے سے درالسلطنت میں سامانوں اور مصنوعات کی آمد کو متاثرکرسکتا ہے۔ فراہمی کے ذرائع پر بھی منفی اثر پرسکتا ہے۔ چوں کہ دہلی ایک بڑا بازار ہے اور کئی معاشی سرگرمیوںکا مرکز بھی، اس لیے اگر یہ متاثر ہوتی ہے تو قریب کے صوبوں پر بھی اثر اندازی کاا ثر دیکھنے کو ملے گا۔مگر یہ اثر منفی ہوگا یا پھر مثبت ،اس کا اندازہ کسان احتجاج کی کامیابی یا ناکامی سے طے ہوگا۔
کسان اس لیے احتجاج کررہے ہیں کہ انھیں لگتا ہے کہ نئے قانون سے ان کو اور دیش کو خاصا نقصان ہوگا۔ بے شک دلیل سہی ہے کہ سرکار نے زرعی پروڈکٹ بازار کمیٹی(اے پی ایم سی) منڈیوں کو ختم کرنے یا ایم ایس پی کو واپس لینے کی بات نہیں کہی ہے۔ لیکن سچ یہ بھی ہے کہ اگر نئے قانون کو بحال کیا گیا تو کا رپوریٹ کمپنیاں آنے والے وقت میں زراعت پر غلبہ حاصل کرتی جائیں گی۔ جس کی وجہ سے منڈیاں و ایم ایس پی جیسی انتظامات اپنااثر کھودیں گی۔
یہاں یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ کسانوںکی صرف چھ فیصد آبادی ایم ایس پی کا فائدہ اٹھاتی ہے اور 23فصلیں ہی ا س کے ماتحت ہیں۔ لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ حکومت کی طرف سے اعلان کردہ کم سے کم سپورٹ پیکیج کسانوں کے لیے ایک معیار کا کام کرتی ہیں اور ان کے آس پاس ہی وہ فصلیں بیچتے ہیں۔
اگر یہ تعاونی پیکیج ختم کردی جائے گی تو نئے گھرانے من مانے دام پر کسانوں سے سودا کریں گے۔اس سے ظاہر طور پر زراعت کو کافی نقصان ہوگااور اس میں غیر مساوات بھی بڑے گی۔ غیر مساوات کس طور پر معیشت کو کھوکھلاکرتی ہے، یہ ہم نے کورونا وبا سے پہلے دیکھا بھی ہے۔ حالت یہ ہے کہ اب بھی ہماری معاشی گاڑی پٹری پر نہیں لوٹ سکی ہے۔ نیا زرعی قانون سے امیر کسان اور صنعت کاروں کو تو فائدہ ہوگا۔لیکن چھوٹے اور متوسط کسانوںکی رہی سہی کمر بھی ٹوٹ جائے گی۔ ان کسانوں کی تعداد قریب 86فیصد ہے اور ان کے پاس پانچ ایکڑ سے بھی کم جوت کی زمینیں ہیں۔ ان کسانوں کے پاس کوئی بچت نہیں ہوتی ہے بلکہ فصل لگانے سے پہلے یہ ہر بار قرض لیتے ہیں اور فصل فروخت کرنے کے بعد اسے ادا کرتے ہیں۔ اسی لیے سرکار کا یہ دعویٰ گلے میں نہیں اترتا کہ نئے قانون کے نافذ ہوجانے کے بعد زرعی بازار ختم ہوجائیں گے۔ یہ بازار قطعی ختم نہیں ہوسکتے۔ کیوں کہ چھوٹے اور متوسط درجے کا کسان بھلا کیسے اپنی فصل محفوظ رکھیں گے۔ یا کس طرح وہ آن لائن اپنی پیدا کی ہوئیں اشیا کو بیچیں گے۔
انھیں بے بسی سے بچولیوں(Medal Man) کے پاس جانا ہی ہوگا۔ کیوں کہ قرض چُکانے کے لیے انھیں ہر حال میں اپنی فصل بیچنی ہی ہوگی۔ پھر کارپوریٹ کمپنیوں کو کسانوں کی حالت سے بھی کوئی واسطہ نہیں ہوگا۔ جب کہ آرتیوں پر کئی طرح کے معاشرتی رابطے عائد ہوتے ہیں۔
یہ صحیح ہے کہ کسانوں کی موجودہ حالت اچھی نہیں ہے، ان پر دن بدن دبائو بڑھتا جارہا ہے جس کی وجہ سے ان کے پریواروں کی کھیتی منھ بھنگ بھی ہونے لگی ہے۔ ویسے بھی مشینوں کے زیادہ سے زیادہ استعمال سے زرعی مزدوروں کی جان پر بن آئی ہے۔ انھیں اب شاید ہی روز گار مل پاتا ہے۔ مانگ بھی بھی لگاتار گررہی ہے۔ مگر کسان آج موکھر ہیںتاکہ زراعت کے حالات اور زیادہ نہ بگڑسکے۔ 1971کی مردم شماری میں بے زمین مزدوروں کی تعداد اچانک اس لیے کافی زیادہ بڑھ گئی تھی کہ ’ہرت کرانتی‘ کا فائدہ صرف بڑے کسانوں کو ہوا تھا۔ اس بار بھی یہی شبہ ہے۔ چھوٹے کسان زیادہ کھیتی نہیں کرسکیں گے اور ان کے حصے کا فائدہ مالدار کسان اٹھاتے جائیں گے۔ تو پھر حل کیاہو؟ کسان اگر لمبے وقت تک احتجاج کریں، تو اس کئی طرح کا نقصان پورے ملک کو ہوگا۔اس لیے کچھ قدم احتجاجیوں کے پیچھے کھینچے ہوں گے تو دریا دلی حکومت کو بھی دِکھانی ہوگی۔ پالیسی کے مورچوں پر کافی کام کرنے کی ضروت ہے۔ یہ وجہ اس لیے بھی ضروری ہے کیوں کہ نئے قانون مانگ کم کردیں گے۔ جس سے اضافے کی شرح میں دو فیصدی تک کی گراوٹ آسکتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ 204لاکھ کروڑ روپے والی ہماری معیشت کو سالہ چار لاکھ کروڑ روپے کی مار لگ سکتی ہے۔جو کہ ایک دن کی بندی ہونے والے نقصان سے کافی زیادہ ہے۔
اس سے بچنے کے لیے کھیتی کسانی میں بڑھ رہی بے روزگاری کو ختم کرنے اور روزگار بڑھاوے پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں دیہی ہندوستان کے بنیادی مسائل کو بھی ٹھیک کرنا ہوگا۔ تعلیم اور صحت پر دھیان دے کر ہم کافی روزگار پیدا کرسکتے ہیں۔ دیہی علاقوں کی ترقی منصوبوں پر خرچ بڑھانے ہوں گے۔ ہمیں ایک مادی پالیسی بنانی ہوگی۔ جس میں زرعی سدھار بھی ہو۔ روزگار بھی بڑھے۔ زرعی میدان کی ضرورت بھی اس سے پوری ہوں۔ صرف زرعی قانون بنانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا