عبدالحی،سی ایم کالج، دربھنگہ، بہار
قسط اول
اردو زبان نے اپنے آغاز سے ہی اپنی دلکشی برقرار رکھی ہے اور اردوداں برادری کے ساتھ غیراردو داں حلقے میں بھی اپنی اہمیت تسلیم کراتی رہی ہے۔ اردو زبان جاننے سمجھنے اور پڑھنے والا ہو یا صرف لفظ اردو جاننے والا ، وہ اتنا تو ضرور جانتا ہے کہ اردو بڑی میٹھی اور اچھی زبان ہے۔ شعر و شاعری، عشق و عاشقی کی زبان ہے۔ جو غنائیت اور حسن اس زبان میں ہے وہ کسی دوسری زبان میں نہیں ہے۔ آج یہ اردو کا ہی جادو ہے جو نہ صرف ہندوستان بلکہ امریکہ، کناڈا، برطانیہ، جاپان، چین، ماریشس اور دیگر ممالک میں مشکل حالات کے باوجودلوگ اس زبان کی جانب کھنچے چلے آرہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ تقسیم کے بعد اردو کی حالت بہت خراب ہوگئی تھی اور اس زبان کی بقا کا مسئلہ پیدا ہوگیا تھا لیکن دھیرے دھیرے وقت و حالات بہتر ہوئے اور پھر اردو نے جینا سیکھ لیا۔ اردو کو دوسری زندگی دینے والے قابل تعریف ہیں جو مشکل وقت میں بھی اردو کی مشعل جلائے آگے بڑھ رہے ہیں۔ اردو کی ترویج و ترقی کا راز اس کی تعلیم میں پنہاں ہے۔ جب تک اردو کا نیا قاری نہیں پیدا ہوگا اردو سمٹتی چلی جائے گی۔ بحیثیت زبان اس کی تدریس پرائمری اور سکنڈری سطح پر دی جاتی ہے۔ اردو کی تدریس کے لیے مختلف طریقہ کار کو عمل میں لایا جاتا ہے۔ جس کی مادری زبان ا ردو ہے یا ہندوستان میں رہنے والا طالب علم جو اردو یا ہندی سمجھتا ہو اسے اردوکی تعلیم دینا کسی حد تک آسان ہے لیکن ایسے طلبا کو جن کی نہ تو مادری زبان اردو ہے اور نہ ہی وہ اردو یا ہندی سمجھتا ہو اسے اردو کی تعلیم دینا نہایت مشکل ہے۔ اس طالب علم کو اردو کی وراثت، تہذیب و تمدن یا تاریخ کا نہ تو علم ہے اور نہ ہی وہ ادب سے واقف ہے۔ اسے بس اپنی پیشہ ورانہ ضروریات کے لیے اردو سیکھنی ہے۔ اب ایسے طلبا کو اردو سکھانے کے لیے بالکل مختلف طریقے اپنائے جاتے ہیں۔
غیرملکی طالب علموں کو تین سطحوں پر اردو کی تعلیم دی جاتی ہے: (1) Beginners، (2)Intermediate اور (3)Advance ۔ ان تینوں سطحوں پر اردو سکھانے کی اپنی ضروریات ہوتی ہیں اور اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ شروعاتی لیول پر انھیں اردو حروف تہجی کی پہچان کرائی جاتی ہے۔ تقریباً دو ہفتوں تک انھیں حروف تہجی اور حروف کی پہچان سکھائی جاتی ہے۔اس کے بعد دو یا تین حروف کو جوڑ کر الفاظ بنانے کی مشق کرائی جاتی ہے۔ اس سے اوپر کے لیول پر جملوں کی ساخت، ترتیب اور چھوٹی چھوٹی تحریریں اور ہلکے پھلکے مضامین پڑھائے جاتے ہیں۔ اسکے بعد افسانہ، شاعری اوردیگر ادبی مضامین ، اخبارات وغیرہ کا نمبر آتا ہے۔
غیراردو داں کو تدریس کے دوران بیک وقت چار سطحوں پر اردو سکھائی جاتی ہے۔ Reading, writing, speaking, listening۔ بولنا اور پڑھنا تو انھیں آجاتا ہے لیکن لکھنا اور سننا ان کے لیے کافی مشکل ہوتا ہے۔ تھوڑا بہت وہ لکھنا بھی سیکھ جاتے ہیں لیکن درست الفاظ سننے میں انھیں طویل عرصے تک پریشانی ہوتی ہے، جبکہ ہمارے ملک کے طلبا کے لیے یہ سب سے زیادہ آسان ہوتاہے۔ اسی لیے غیرملکیوں کو اردو پڑھانے میں سب سے زیادہ جس بات پر توجہ دی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ انسٹرکٹر ٹھہر ٹھہر کر، دھیرے دھیرے اپنی بات کہے۔ یہاں میں ایک واقعہ گوش گزار کرنا چاہوں گا۔ یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا میں اردو کے استاد ڈاکٹر افروز تاج اور ڈاکٹر جان کالڈویل اپنے طلبا کے ایک گروپ کو لے کر ہندوستان آئے ہوئے تھے۔ وہ ہر سال اپنے طلبا کے ساتھ ہندوستان کا سفر کرتے ہیں اور یہاں کی تہذیب و ثقافت سیطلبا کو واقف کراتے ہیں۔ جب قومی اردو کونسل، نئی دہلی کے دفتر میں ان طلبا کے وفد کے ساتھ ایک پروگرام کا انعقاد کیا گیا تو اس میں سبھی نے اپنا اپنا تعارف پیش کیا اور جیسے سب کرتے ہیں اسی انداز میں کیا کہ میرا نام یہ ہے اور میں یہ کام کرتا ہوں اور میں نے یہ تعلیم حاصل کی ہے۔ جب میری باری آئی تو میں نے ٹھہر ٹھہر اس انداز میں کہا : آداب! میں عبدالحی ہوں۔ میں یہاں اسسٹنٹ ایڈیٹر کے طور پر کام کرتا ہوں۔ میں نے جواہر لال نہرو یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی ہے۔ جیسے ہی میں نے اپنی بات ختم کی ایک طالبہ نے کہا کہ کیا کبھی آپ نے ہم جیسوں کو اردو پڑھائی ہے کیونکہ آپ کا انداز بتا رہا ہے۔
اس واقعے سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ غیر ملکی طلبا کتنے حساس ہوتے ہیں اور وہ چھوٹی چھوٹی باتیں بھی یاد رکھتے ہیں۔اب آئیے غیر ممالک میں اردو تعلیم کے پس منظرپر روشنی ڈالتے ہیں۔
ڈاکٹر جان گل کرسٹ اپنی کتاب ’لغت و قواعد‘ میں لکھتے ہیں:
’’1872 میں بمبئی میں وارد ہوتے ہی میں نے محسوس کرلیا تھا کہ ہندوستان میں میرا قیام، خواہ اس کی نوعیت جو بھی ہو اس وقت تک نہ تو میرے لیے ہی خوشگوار ہوسکتا ہے اور نہ میرے آقاؤں ہی کے حق میں مفید ثابت ہوسکتا ہے جب تک کہ اس ملک کی مروجہ زبان میں پوری دست گاہ نہ حاصل کرلوں۔ چنانچہ میں جم کر بیٹھ گیا۔ خوش قسمتی سے اپنے دوست کپتان جان ریٹ رے سے سودا کی کلیات مجھے مل گئی۔ ہندوستان میںاس وقت 1797 تک جو مہارت میں نے حاصل کی ہے اس کے لیے کلیات سودااور اسی کریم النفس انسان (ریٹ رے) کا میں بے حد ممنون ہوں۔‘‘ (بحوالہ گل کرسٹ اور اُس کا عہد، ص 466)
جان گل کرسٹ نے اپنی کتاب اردو گرامر کے سرورق پر سودا کے یہ اشعار تحریر کیے تھے:
اب سامنے میرے نہ کوئی پیر و جوان ہے
دعویٰ نہ کرے یہ کہ میری منہ میں زبان ہے
میں نے حضرت سودا کو سنا بولتے یارو
اللہ ہی اللہ کہ کیا نظم و بیان ہے
برطانیہ میں 1805 میں ہرٹ فورڈ کیلی فورڈ کیسل میں پہلی دفعہ اردو تعلیم کا آغاز ہوا۔ بعدمیں مختلف کالجوں میں اردو تعلیم کی شروعات ہوئی۔ 1841 میں چیلینیم کالج، گلاسٹر اردو کی تعلیم کے لیے پہلے کالج کے طور پر جانا جاتا ہے۔ یونیورسٹی آف لندن میں 1855 میں شعبہ اردو کا قیام ہوا اور 1859 میں آکسفورڈ میں اردو تعلیم کا آغاز ہوتا ہے۔
1954 میں ماریشس میں اردو تعلیم کا آغاز ہوا۔ 1974 میں مہاتما گاندھی انسٹی ٹیوٹ کے قیام سے اردو کی تدریس کو مضبوطی حاصل ہوئی۔
غیراردوداں حضرات کو اردو سکھانے میں سب سے زیادہ مشکل رسم الخط سکھانے کے دوران آتی ہے۔ وہ اردو کے سارے حروف کو اپنی زبان کے حوالے سے دیکھتے ہیں کیونکہ ان کے ذہن اور سوچ میں وہی زبان بسی ہوتی ہے۔ انھیں ب، پ، ت، یا، ح، چ، ج، جیسے الفاظ میںفرق مشکل سے نظر آتا ہے۔ ظاہر ہے کہ کسی بھی غیراردو داں کو بغیر رسم الخط سکھائے ہم اردو زبان نہیں سکھا سکتے۔
نہیں کھیل اے داغ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زبان آتے آتے
فرمان فتح پوری اپنی کتاب تدریس اردو میں لکھتے ہیں:
’’زبان اور رسم الخط دو الگ الگ چیزیں نہیں ہیں۔ ان میں جسم و روح کا تعلق ہے اور وہ ایک دوسرے سے جدا ہوکر زندہ نہیں رہ سکتے۔ کسی نے صحیح کہا ہے کہ رسم الخط کو کسی زبان کا محض لباس سمجھنا غلطی ہے۔ لباس کو اتار کر پھینکا جاسکتا ہے، بدلا جاسکتا ہے، رسم الخط زبان کا لباس نہیں بلکہ اس کی جلد کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے اسے زبان سے الگ کرنے کا نتیجہ زبان کی تباہی کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتا۔‘‘ (تدریس اردو، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد، 1986)
غیراردو داں کو اردو سکھانے میں گفتگو، ترجمہ، لسانیات کی جانکاری کے ساتھ ساتھ غیرملکیوں کے زبان سیکھنے کے دوران پیش آنے والے مختلف مسائل کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ جہاں کچھ لوگ اپنی ضروریات کے تحت اردو سیکھتے ہیں تو کچھ لوگ شعر و ادب اور تہذیب و تمدن سے دلچسپی کی خاطر اردو زبان سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہی باتوں کی جانب معین الدین نے اپنی کتاب اردو زبان کی تدریس میں اشارہ کیا ہے:
’’غیراردو داں طلبا کو اردو کیسے پڑھائی جائے یہ ایک اہم سوال ہے۔ مادری زبان اور غیرمادری زبان کی نوعیت میں چونکہ کافی فرق ہوتا ہے۔ اس لیے طریقہ تدریس میں بھی اس فرق کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ مادری زبان سیکھنے کے لیے بچے کو شعوری طور پر کوشش نہیںکرنی پڑتی،بلکہ وہ خود بخود اپنے ماحول سے زبان سیکھ لیتا ہے لیکن غیرمادری زبان سیکھنے کے لیے جہاں ایک طرف نئی لسانی عادتیں پیداکرنی ہوتی ہیں، وہاں دوسری جانب مادری زبان کی بعض پختہ لسانی عادتوں کو چھوڑنا پڑتا ہے۔ یہ کام کتنا آسان ہے اور کتنا مشکل۔ اس کا فیصلہ اس بات سے ہونا چاہیے کہ غیرزبان سیکھنے سے ہماری کیا مراد ہے اور کس مقصد کے تحت ہم زبان سیکھنا چاہتے ہیں۔ گویا معیار اور مقصد دو بنیادی باتیں ہیں جن کا تعین ضروری ہے۔‘‘ (اردو زبان کی تدریس، معین الدین، قومی اردو کونسل، ص 103)
معین الدین صاحب کے اِس اقتباس کی روشنی میں کہ غیرملکی طلبا کے کیا مقاصد ہوتے ہیں اور وہ اردو کیوں سیکھنا چاہتے ہیں، میںیہاںاپنے کچھ تجربات بیان کرنا چاہوں گا۔میں نے امریکن انسٹی ٹیوٹ آف انڈین اسٹڈیز کے لکھنو مرکز میں دو سال سمر پروگرام کے تحت بطور اردو انسٹرکٹر خدمات انجام دی تھیں۔ ہارورڈ یونیورسٹی میں ریسرچ کررہی طالبہ نیلم منیر جنوب ایشیائی خواتین کی زندگی کے موضوعات پر پی ایچ ڈی کررہی تھیں۔ اس لیے وہ اردو فکشن کو خصوصی طور پر پڑھنے کے لیے اردو زبان سیکھنے آئی تھیں۔ نبیلہ پیرانی دوسری اسٹوڈنٹ تھی جو فی الحال ٹکساس میں وکالت کررہی ہیں۔انھوں نے وہاں رہائش پزیر ہندوستانیوں کے مسائل کو جاننے سمجھنے کے لیے اردو سیکھی اور یہاں کی تہذیب و ثقافت پر کئی مضامین بھی تحریر کیے۔ مصر میں رہنے والے یہودی ڈیوڈ نے اسلامی تاریخ اور برصغیر کے مسلمانوں کے مسائل کو جاننے سمجھنے کے لیے اردو سیکھنی شروع کی۔ امریکی سراغ رساں ایجنسی میں کام کرنے والے مائیکل نے اردو اپنی پیشہ ورانہ ضروریات کے تحت سیکھی اور اردو زبان سیکھنے کے تجربات پر مبنی ان کا ایک مضمون ماہنامہ اردو دنیا میں شائع بھی ہوا تھا۔ لیزلی نے جنوب ایشیائی تاریخ کو اوریجنل فارم میں پڑھنے کے لیے اردو اور ہندی سیکھی اور ابھی شاید یونیورسٹی آف بارکلے کے جنوب ایشائی شعبے میں استاد کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ اسی طرح پروفیسر جان ولس اور پروفیسر جولیا میجر تاریخ کے پروفیسر تھے اور برصغیر کی تاریخ خصوصاً اسلامی تاریخ پڑھنے، پرانے مخطوطات پڑھنے کے لیے اردو سیکھ رہے تھے۔ پروفیسر جولیا میجر تقریباً 55-57 سال کی ہوں گی لیکن اس عمرمیں بھی زبان سیکھنے میں ان کی دلچسپی قابل تعریف تھی۔ ان کی اردو بہت کمزور تھی۔ کلاس میں وہ بہت کم بولتی تھیں لیکن میں انھیں زیادہ سے زیادہ بولنے کے مواقع فراہم کرتا تھا۔ عموماً کلاس میں ہماری توجہ زیادہ بولنے والوں یا ذہین طالب علموں پر ہوتی ہے اور ہم کم بولنے والوں کو نظرانداز کرتے چلے جاتے ہیں جبکہ غیرملکیوں میں یہ بہت ضروری ہے کہ انھیں زیادہ سے زیادہ بولنے کا موقع دیا جائے۔ سمر پروگرام کے بعد پروفیسر جولیا میجر نے میرے لیے فیڈبیک دیا تھا کہ He never plays favor game اور اپنے طالب علموں کو اردو بولنے کے لیے اکساتے ہیں جو اچھی بات ہے۔
اسی طرح میکس بروس نے اردو زبان وا دب محض شوق کی خاطرسیکھنا شروع کیا۔ انھیں اردو شاعری سے کافی دلچسپی ہے اور آج وہ اردو زبان و ادب پرکافی دسترس رکھتے ہیں۔ شاعری بھی کرتے ہیں اور اپنا تخلص نادر رکھا ہے۔ فی الحال یونیورسٹی آف ٹکساس میں اردو زبان کے استاد ہیں اور ابن صفی پر وہاںحال ہی میں باضابطہ ایک کورس کا آغازکیا ہے۔ ان سے وابستہ ایک واقعہ یہاں آپ سب سے شیئر کرنا چاہوں گا۔