ریت کا پل

0
0

 

 

تنویر احمد تماپوری ریاض
Post box no 4398
966501724826+ watsupp no
وہ لوگوں کو ششدر اور متحیر کرنے کا ماہر لگتا تھا۔”
کیا سچ مچ آپ نے مجھے نہیں پہچانا ڈاکٹر خرم۔۔۔؟”
اس کی آنکھوں میں غیر یقینی کے بطخ گردن اکڑائے کڑکڑا رہے تھے۔ میں نے یادداشت کی ہر گلی میں ٹامک ٹوئیاں مارلی، سوچوں کے ہر دروازے پر دستک دیلی مگر دست سوال خالی ہی لوٹا۔ باہر روڈپر ٹرافک برائے نام ہی تھا۔ گرمی مزاج پوچھ رہی تھی۔ میرا کلینک شہر کے ایک مصروف ترین رہائیشی علاقے میں تھا۔ وہ ایک گرم حبس بھری دوپہر تھی۔ اینٹی بائیوٹک اور وٹامن کی بو تجسس اور تحیر کے ساتھ مل کر کلینک کی محدود فضا کی درجہ حرارت کو مزید بڑھارہی تھی۔ جب وہ کانچ کے دروازے کو وا کرکے اندر آیا تب پسینے سے تر تھا۔ اس کے چہرے پر ایک پر اعتماد سی مسکراہٹ تھی۔ میں نے بھی بڑے تپاک سے ایک مریض کی طرح ہی اس کا استقبال کیا۔ مجھے اس کی مسکراہٹ اور چہرے کے خط و خال میں کچھ باتیں جانی پہچانی لگ تو رہی تھیں تاہم میں ان سب کو ملا جلا کر کوئی شکل دینے سے خاصر تھا۔ ویسے اس کی حالیہ شکل معقول ہی تھی۔ سانولا لیکن صاف ستھرا رنگ ماتھے پر نظر کی عینک، فرنچ کٹ سے تھوڑا بڑی ہوئی ڈاڑھی، پیشانی پر سجدے کے نشانات اور آنکھوں میں اعتماد کی چمک۔ میں نے دوبارہ اپنے ذہن کے ان حصوں پر زور دینا شروع کیا جہاں فوٹو شاپ قایم تھا۔جہاں ڈیلٹ اور کاپی پیسٹ کا کارخانہ تھا۔ میں نے سب سے پہلے فرنچ کٹ ڈاڑھی کو صفا چٹ کیا۔پھر نظر کی عینک کو اوجھل کیا، چہرے پر چپکی مسکراہٹ کو ڈیلٹ کرنے کے بعد ماتھے کے سجدے کے نشان کو بھی غایب کردیا تب بندہ میرے لئے اجنبی نہیں تھا۔
”ارے مجاہد کیا یہ تم ہو۔۔۔۔ اتنے دنوں کہاں تھے۔ میں نے جب آخری بار سنا تھا تو تم سعودی میں تھے۔ اب کیسے ہو۔ کیا حال ہے۔ کیا مصروفیت ہے۔ کہاں رہتے ہو؟”
میں نے سوالات کی تھری ناٹ تھری کا پورا میگزین اس کی کھوپڑی پر خالی کردیا، پھر باتوں کا سلسلہ چل نکلا کچھ بچپن کی کچھ اسکول کی کچھ حال کی کچھ ماضی کی اور کچھ تعلیم کی تو کچھ کاروبار کی۔ عجیب دن تھے، اسکول تھے۔ بچپن تھا۔ بے فکری تھی۔سب کچھ آناً فاناً۔ سب کچھ اس دور میں سوپر سونک جہاز کی رفتار پر ٹکا ہواتھا ۔ہر چیزمنٹ اور سکینڈ کی سوئی پر منحصر ہوا کرتی تھی۔ چھوٹی چھوٹی خوشیاں، چھوٹے چھوٹے مسائیل، چھوٹی چھوٹی لڑائیاں سب کچھ چھوٹا چھوٹا اور پاکٹ سایز ہوا کرتا تھا۔ لیکن اس کا اثر بہت بڑا یا شاید ساری زندگی پر محیط ہوتا تھا۔ پھر سعودی عرب کی باتیں ہوئیں وہاں کے حالات وہاں کے معمولات وہاں کا طریقہ کار وہاں کا نظام کار وغیرہ وغیرہ۔ بقول مجاہد ڈیوٹی کے علاوہ وہاں کے سارے معمولات زندگی کسی برقی رو کی طرح صرف تین سرکٹ کے اطراف ہی گھومتے تھے۔ کھانا سونا یا پھر نماز پڑھنا۔
اس کا گھر میرے کلینک کے بغل ہی میں تھا۔ پچھلے چھ ماہ سے وہ میرے پڑوس میں تھا اور مجھے خبر نہ تھی، جب وہ کلینک سے رخصت ہورہا تھا تب رات کی روشنیوں نے شام کے سائے کو چاٹنے کا عمل شروع کردیا تھا۔ کم سے کم ایک دہائی بعد اپنے کلاس فیلو سے یہ ایک اتفاقیہ اور پہلی ملاقات تھی۔ وہ خاصہ دین دار قسم کا آدمی بن چکا تھاکہتے ہیں دین داری آدمی کو انکساری سکھاتی ہے۔ مگر اس کی باتوں میں ”میں” کا تکبر جگہ جگہ ایسے لدا پڑا تھا جیسے کھجور کے چھوٹے پیڑوں پر اس کے خوشے لٹکے ہوتے ہیں۔
کچھ دنوں بعد وہ دوبارہ مجھے ملا تو اس نے اپنی شادی کی دعوت دے ڈالی۔ اسے سعودی سے آئے ہوئے اور اپنا کاروبار جمائے ہوئے کافی دن ہوچکے تھے مگر شادی کے لئے کی گئی دیری سمجھ سے پرے تھی شاید ذمہ داریاں زیادہ رہی ہوں۔ پھر بھی میں بنا پوچھے نہ رہ سکا۔
” مجاہد تم نے شادی میں اتنی دیر کیوں کی۔۔۔۔۔؟”
”ہاں یار آج کل نیک اور دین دار لڑکیاں ملتی کہاں ہیں”
وہ اپنے تصوف اورمسلک کے سکس پیک ایبس کی نمائش کرنے لگا۔
”مطلب ”
میری آنکھوں میں اس وقت تحیر کے ساتھ ساتھ سوالیہ نشانات بھی ناچ رہے تھے۔
”اس میں مطلب کا کیا ہے میرے بھائی۔ ہر مسلمان کو دین کا پابند ہونا چاہئے۔ تم دیکھنا میرا نکاح بھی ایک دم سیدھا سادا ہوگا۔ جہیز کے نام پر ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں لی جاے گی”۔
یہ ایک اچھی بات تھی اور وہ اس اچھی بات کو بھی ”میں” کے گفٹ ریپر میں ایسے پیک کررہا تھا جیسے کوئی دوا ساز کڑوی دوا کو کیپسول کے خول میں پیک کرتا ہے۔
”میں تو پھول بھی نہیں پہنوں گا ” وہ اپنی باتوں پر”میں” کا اور شخصیت پر ” دین ” کا مانجھا چڑھانے لگا۔ پھول اور مسلکوں کے بیچ کا فنڈا میں کبھی سمجھ ہی نہیں پایا تھا۔مجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ میں کب سیف زون سے پھسلا کب فرقوں کے ڈینجر زون میں پہنچا۔ جب دریا کو خطرے کے نشان سے اوپر بہتا دیکھا تو میں نے اپنے پاوں واپس کھینچ لئے۔
”اچھا بھائی مبارک ہو۔۔۔۔ مجاہد۔ میں ضرور آوں گا آپ کی شادی پر” ۔
بات کو اس سے پہلے کے وہ حرام حلال کے چوراہے پر کسی دلت کی بیٹی کی عزت کی طرح نیلام ہوجاتی یا جنت دوزخ کے بٹوارے کی منطق میں داخل ہوتی میں نے ہتھیار ڈالدیئے۔
واقعی وہ شرعی شادی ہی تھی۔ بالکل سادی سیدھی، نہ کوئی باجہ گاجہ نا کوئی شور شرابہ اور نہ کوئی لین دین۔ قول و عمل کا توازن بنائے رکھنے کی مجاہد نے حتی الامکان کوشش کی تھی۔ یہاں تک کے اس نے اسے نبھانے کے لئے پھولوں کے ساتھ ساتھ اپنے والدین کے ارمانوں کو بھی کیلے کے چھلکے کی طرح اتار پھیکا تھا۔ یا پھر پھول ہی اس قدر بھاری ہو چکے تھے کے ان کے وزن سے سارے دین کا ڈھانچہ ہی چرمرا جاتا یا پھر دین کو ہی اس اونٹ کی کمر جیسا کمزوربنا دیا گیا تھا جسے ٹوٹنے کے لئے پھول کا وزن ہی کافی تھا۔
میرے یہاں پہلی رمضان کو دعوت افطار کی روایت برسوں سے چلی آرہی تھی۔ سو وہ اس با ربھی نبھائی گئی۔ میری نئی
دریافت اور پرانے دوست کو میں کیسے بھولتا۔ لیکن شاید اس نے بھول دیا تھاجو مجھے کافی برا لگا۔ایک گرم اور حبس بھری دوپہر جب وہ میرے پاس آیا تو میں اس سے کافی ناراض تھا ۔
” معاف کرنا بھائی”
کبھی وہ ڈاکٹر صاحب کہتا تھا۔ کبھی بھائی تو کبھی خرم صاحب ”۔
میں آ نہ سکا آپ کی افطاری پر ”
جواب میں میرا ہنکارا شیر کی دھاڑ سے مشابہ تھا۔ وہ اپنی مزید صفائی دینے پر مجبور ہوگیا۔
”بھائی اگر میں آپ کے یہاں آتا تو میری نماز چھوٹ جاتی اور اگر نماز کا دیکھتا تو افطاری کا وقت نکل جاتا لہذا معذرت”
میں بات کی تہہ میں چھپی اصلیت کو بھانپ چکا تھا۔ لیکن پھر بھی تلوں کے تیل کو تو چیک کرنا ہی تھا سو پوچھ لیا۔
” وہ کیسے؟”
”میں نماز ہمیشہ اپنی محلے کی مسجد میں پڑتا ہوں۔۔۔۔ ڈاکٹر صاحب”
کچھ لوگ مذہب کو روٹی کے لئے، کچھ لوگ بوٹی کے لئے تو کچھ جھوٹی شان کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو دوسروں سے افضل بنانے کی کوشش کرتے ہوئے اس وقت مجھے ایک ایسا مذہبی مطلب پرست نظر آرہا تھا جو ہر وقت اپنے دین کی دکان کو چمکانے کا متلاشی رہتا ہے۔
” کیوں بھئی میرے یہاں کی مسجد میں کیا کبڈی ہوتی ہے’
‘ میرے لہجے میں پتھر کاٹنے کی سختی تھی۔
” نہیں ایسا نہیں ہے۔۔۔۔”
کھسیانے بلے کی طرح اس وقت وہ اپنے پنجے چھپارہا تھا۔
” دراصل میرے یہاں قرات بڑی اچھی ہوتی ہے”
بات اگر وہی ہوتی جو بتائی جارہی تھی تو سر آنکھوں پر رکھی جاتی۔ مگر وہاں معاملہ دوسرا تھا۔ گھپلہ مسلکوں کا تھا۔ فنڈ ا جنت کے پلاٹوں کا تھا۔ جس فرقہ سے وہ نیا نیا منسلک ہوا تھا۔ وہ مجھے وراثت میں ملا ہواتھا۔ تاہم جیبوں میں دوسروں کے لئے بھری پستول رکھنا میرا شیوا نہیں تھا۔
کمرے کی فضا مکدر ہوچلی تھی۔ وہاں پہلے سے اینٹی بائیوٹک او ر وٹامین کی بو کا راج تھا۔گرمی کی حبس الگ اس پر ماحولیات کی آپا دھاپی نے ایر کنڈیشنڈ کو بھی آہیں بھرنے پر مجبور کردیا تھا۔ پھر سانسوں کا دوبھر ہونا لازمی ٹہرا۔ مجھے اس وقت سولی سے اترنے کی ضرورت تھی اور اتارنے والا محکمہ بجلی کا میٹر ریڈر تھا جس نے صحیح وقت پر شیشے کی دیوار کے پیچھے سے ہی مژدہ جا نفزا سنایا ۔
” ڈاکٹر صاحب میٹر باکس کی چابی دیدیں”
میں نے موقعہ کو غیمت جاناڈیسک سے چابی اٹھائی اور جھپٹتا ہوا باہر نکلا وہاں ایک چھوٹا سا ویٹنگ حال تھا۔ بائیں دیوار پر میٹر کا ڈبہ تھا جسکی
چابی میں نے میٹر ریڈر کو سونپ دی اور کھلی ہوا میں لمبی لمبی سانسیں لینے لگا۔تبھی اچانک میں نے مجاہد کو بڑی سراسیمگی کے عالم میں باہر کی طرف لپکتے ہوئے دیکھا۔
”ارے بھائی مجاہد کدھر یار۔۔۔۔۔رکو بھائی”
میں آوازیں دیتا رہ گیا۔
” وہ نہیں رکیں گے ڈاکٹر صاحب۔۔۔۔”
میٹر ریڈر کی اس دخل در معقولات پر میں نے پھاڑ کھانے والے انداز میں پوچھا۔
” کیوں تم جانتے ہو اسے۔۔۔”
” جی ڈاکٹر صاحب یہ حضرت بجلی چور ہیں”
میٹر ریڈر کی یہ ایک نئی اور خطرناک گوگلی تھی۔
” اوئے کیا بولتے ہو تم سوچ سمجھ لیا کرو”
مجھے اس کی یہ گوگلی بد تمیزی لگی۔
” بار باروارننگ دی تھی انہیں پھر بھی وہ نہیں مانے۔ شاید اسی لئے بھاگے ہیں تاکے کنڈا ہٹا سکے”
” کنڈا۔۔۔۔۔۔؟”
میرے منہ پر بھی کنڈی لگ چکی تھی کیونکہ بات کچھ کچھ سمجھ آرہی تھی۔
” اس وائر کو کہتے ہیں ڈاکٹر صاحب۔۔۔۔۔ جو بجلی کے میٹر کو روکنے کے لئے عارضی طور پر لگا یا جاتا ہے”
بات اس کی غیر منطقی بھی نہیں تھی۔ کیونکہ اب اس نے میرے یہاں سے سیدھے مجاہد کے یہاں ہی جانا تھا۔ مجاہد اپنے میدان کا مایہ ناز مجاہد ہوتے ہوئے بھی دوسری شعبہ ہائے زندگی کا بالکل بے مایہ کھلاڑی نکلا اور یہ خاصہ تعجب خیز اور عبرت ناک تھا۔ بلاشبہ وہ لوگوں کو متحیر اور ششدر کرنے میںماہر تھا۔

 

 

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا