نیا حمام (کہانیاں)
مصنف: ڈاکٹر ذاکر فیضی
صفحات: ۲۰۰
قیمت: ۲۵۰ روپئے
مطبع: روشان پرنٹرس دہلی (ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس)
ذیر نظر کتاب ’’ ـنیا حمام‘‘ کے مصنف مرادآباد کے فرزند ڈاکٹر ذاکر فیضی ہیں۔ جن کا پہلا افسانوی مجموعہ منظر عام پر آیا جس میں ۵ افسانچے اور ۲۵ کہانیاں شامل ہیں ۔ اس کتاب میں جو ۲۵ کہانیاں شامل ہیں وہ کسی ایک سمت میں سفر نہیں کر تیں ۔ افسانہ نگار نے الگ الگ موضوعات کو ایک خاص سلیقے سے افسانے میں پرونے کا کام کیا ہے اور یہی کارنامہ ان کا اردو کی ادبی وراثت میں اضافے کا سبب بن رہا ہے ۔ یہ مجموعہ تین دہائیوں کی کہانیوں پر مشتمل ہے اور ہر کہانی اپنے آپ میں ایک جداگانہ مقام رکھتی ہے۔
ڈاکٹر ذاکر فیضی کو بچپن سے ہی کہانیاں لکھنے کا شوق تھا۔ ان کا کہنا ہے:
’’جب میں نو سال کا تھا تو ما ہ نامہ ’نور‘ کا کالم ’’ریڈیو نورستان‘‘ بہت ہی شوق سے پڑھتا تھا
اور وہیں سے مجھے کہانی لکھنے کا شوق پیدا ہوا‘‘۔
ان کی پہلی کہانی ’جیسی کرنی ویسی بھرنی‘ ہے مگر وہ شائع نہ ہو سکی۔ واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے سترہ سال کی عمر سے کہانی لکھنے کا آغاز کیا۔ تعلیمی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے جواہر لال نہرو یونیورسٹی کا سفر کیا۔ یہاں کا ماحول ان کو بہت راس آیا اور انہوں نے یہیں سے ڈاکٹریت کی ڈگری حاصل کی اور درس و تدریس کے فریضے سے وابستہ ہیں۔ ڈاکٹر ذاکر فیضی زمانہ طالبِ علمی سے ہی اپنی صلاحیت کو پروان چڑھانے کی بھرپور کوشش کرتے رہے ہیں جس کا نتیجہ یہ کتاب ’نیا حمام ‘ آج ہمارے سامنے موجود ہے۔
ڈاکٹر فیضی تین دہائیوں سے کہانیاں لکھ رہیں ہیں ۔ اس زمانے کے مشہور و معروف رسائل و جرائد ایوان اردو، اردو دنیا، آج کل، فکر و تحقیق ، انشا و شاعر وغیرہ میں ان کی کہانیاں، افسانے، افسانچے، تحقیقی و تنقیدی مضامین تواتر کے ساتھ شائع ہوتے رہیں ہیں۔ ہندوستان میں ہی نہیں پاکستان سے شائع ایک افسانوی انتخاب ’سرخاب‘ میں کہانی ’’ٹوٹے گملے کا پودا‘‘ شامل ہے۔ ایک طرف فیضی کی کہانیاں اور افسانے ادبی دنیا میں اپنا قدم جما رہی ہیں تو دوسری طرف ان کی کہانیاں اور افسانے ریڈیو پر بھی نشر ہو رہے ہیں۔
اس کتاب کا پہلا افسانہ ’نیا حمام‘ ہے اور اسی افسانے سے کتاب کا نام بھی موسوم کیا گیا ہے ۔ ڈاکٹر ذاکر فیضی نے ہمیشہ اپنے افسانے میں سماجی ، معاشی و معاشرتی مسائل کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے افسانے ’نیا حمام‘، ’ٹوٹے گملے کا پودا‘، ’ٹی ۔او ۔ڈی‘، ’وائرس‘ ، ’اسٹوری میں دم نہیں ہے‘، ’ایک جھوٹی کہانی‘، ’ہریا کی حیرانیاں‘، ’میں آدمی وہ انسان‘، ’اتفاق‘، ’میرا کمرہ‘ اور ’ہم دھرتی پر بوجھ ہیں‘ وغیرہ یہ وہ افسانے ہیں جس کے ذریعے ڈاکٹر فیضی نے قارئین کے ایک بڑے طبقے کو متاثر کیا ہے۔
یہاں ہر افسانے پر گفتگو کرنا مناسب نہیں مگر چند افسانوں کا ذکر کرنا چاہوں گی۔ ان کا سب سے نمائندہ افسانہ ’نیا حمام‘ میڈیا کے پس منظر میں لکھی گئی کہانی ہے۔ یہ وہ افسانہ ہے جس میں ڈاکٹر فیضی نے میڈیا کی کارستانیاں بہت دلچسپ انداز میں اجاگر کی ہیں اور انہوں نے روز مرہ کے واقعات و حادثات کو پرکشش اسلوب میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ میڈیا کی بد عنوانی اور دیگر میڈیا کے معاملات سماجی و معاشرتی مسائل کو بھی واضح انداز میں پیش کیا ہے۔ یہ افسانہ مجموعہ کا سب سے اہم افسانہ ہے۔ زبان و بیان کی سطح پر کہانی کو عمدہ کہنے میں کوئی ہچکچا ہٹ نہیں ہو سکتی۔ ہم جس زبان کا استعمال کرتے ہیں اسی زبان کا استعمال ان کے افسانوں میں دیکھنے کو ملتا ہے اور انگریزی کے سبک الفاظ کا بر محل استعمال کہانی میں چار چاند لگا دیتا ہے۔
اس کہانی کے ذریعے ڈاکٹر ذاکر فیضی نے یہ ثابت کرنے کی حتی الامکان کوشش کی ہے کہ اب ہر چیز میڈیا کے توسط سے خریدی اور بیچی جا سکتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ادھر سال بھر سے اس نے ایک نیا پیشہ اپنایا تھا۔ مشہور خبر یا چینلوں کے لیے خبروں کی
’دلالی ‘ کرنا ۔ وہ کچے مال کی طرح چینل کو خبر دیتا تھا، جس کو چینل کی ٹیم اپنی ’فیکٹری‘
میں شاندار ’پروڈکٹ‘ بنا کر مارکیٹ میں اتارتی تھی اور ٹی ۔آر۔ پی وصول کرتی تھی۔‘‘
اس طرح ان کا ایک اور افسانہ ’میرا کمرہ‘ ہے۔ جس میں انہوں نے انسانی زندگی کی بے ثباتی کو بہت منفرد انداز میں بیان کیا ہے۔ مختلف اوقات و معاملات کی سود و زیاں کو واضع کرنے کی کوشش کی ہے۔ رضی شہاب (شاعر و ناقد) فرماتے ہیں:
’’ذاکر فیضی کے افسانے دلچسپی سے بھرے ہوتے ہیں۔ یہ افسانہ (میرا کمرہ) زندگی کی
بے ثباتی اور انسان کے اندر مختلف وقتوں میں پیدا ہونے والے احساس ِ سود و زیاں کو
بیان کرتا ہے۔‘‘
’اسٹوری میں دم نہیں ‘ جنسی استحصال کے پس منظر میں لکھی کہانی ہے۔ اس کہانی میں ایک بڑی عمر کا آدمی اپنی جنسی خواہشات کی تکمیل کے لئے کچی عمر کے لڑکوں کو اپنا شکار بنا کر ان کا فائدہ
اٹھاتا ہے ۔ موجودہ دور میں ہونے والی اس حقیقت کو لفظوں کی باریک چھڑی کے وار سے ایک کالے سچ کی طرح دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ کہانی جنسی بے راہ روی کی منہ بولتی تصویر ہے۔
ٹی۔ ایس ۔ایلیٹ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ادب کا انبساط و لطف اندوزی ہے اور اگر فنی پاسداریوں کے ساتھ اس میں فلسفہ ء حیات اور درس اخلاق کے عناصر بھی پائے جائیں تو اسے اعلیٰ ادب کہا جائے گا۔ افسانے میں حقیقت نگاری اور بلند خیالی فن میں جان پیدا کرتی ہے۔ پرکشش منظر نگاری کے ذریعے وہ ایسی افسانوی فضا تیار کرتے ہیں کہ قاری کے سامنے ہر واقعہ بولنے لگتا ہے۔ جس سے افسانوں میں تسلسل اور دلچسپی آخر تک برقرار رہتی ہے۔
ذاکر فیضی کی افسانوی فضا میں کوئی گہرا فلسفہ نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ قاری ان کے افسانوں کو پڑھتا چلا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ ذاکر فیضی تقریباً تین دہائیوں سے افسانہ لکھ رہے ہیں۔ ’نیا حمام‘ گویا ان کے افسانوی سفر کا ایک انتخاب ہے۔
یہ کتاب ’نیا حمام‘ مکمل ۲۰۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ جس کا سر ورق نہایت پرکشش اور خوبصورت ہے۔ اس کتاب کی خوبصورتی ایک تخلیقی ذہن کی تر جمانی کرتی ہے۔ اس خوبصورت کتاب کو اردو افسانے کا قاری نہ صرف پڑھے گا بلکہ سنبھال کر رکھنا بھی چاہے گا۔ میں سمجھتی ہوں کہ افسانوی ادب سے محبت کرنے والے اس کتاب کا مطالعہ ضرور کریں گے۔
اس مجموعہ کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر ذاکر فیضی نے اسکول کی بینچ پر بیٹھ کر جو خواب دیکھا تھا وہ آج شرمندہ تعبیر ہو چکا ہے۔ اس لئے آج ہم انھیں ایک افسانوی تصویر میں دیکھ سکتے ہیں۔
مبصرہ: نہاں (ریسرچ اسکالر)
الہ آباد یونیورسٹی (الہ آباد)