غزل

0
0

 

مکاں ہی سے نہ ہوں میں لامکاں ہی سے
زمیں سے ہوں نہ ہوں میں آسماں ہی سے

سمجھ مجھ کو نہ بے گھر جانِ جاں ہرگز
مری نسبت ہے تیرے آستاں ہی سے

نہ کر تو پرسشِ حالِ دلِ مغموم
مرا تو کام ہے آہ و فغاں ہی سے

بتِ بے دادگر یہ آرزو تیری
جدا مجھ کو نہ کر دے آشیاں ہی سے

غرض مجھ کو نہ ہے کارِ جہاں ہی سے
نہ مطلب ہے کوئی سود و زیاں ہی سے

سمجھ مشکل نہ مجھ کو لیک آساں بھی
گماں ہی سے نہ ہوں میں بے گماں ہی سے

یہ دردِ دل بھی کیا شئے ہے کہ اٹھ پایا
نہ جنوں ہی سے نے کروبیاں ہی سے

شعورِ غم چکا آیا تری قیمت
ہٹا کر خود کو ان کے درماں ہی سے

رفیقوں سے نہ یاروں سے نہ تجھ ہی سے
نہ کچھ مجھ کو ملا پاسِ جہاں ہی سے

میں ہوں اس دیس کا باسی جو اے خواہشؔ
لٹا ہے حیف دستِ پاسباں ہی سے

خواہشؔ کشمیری
شہرِ خاص، سرینگر

 

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا