اذیتوں سے دوستی (افسانچہ)

0
0

میمونہ ارم مونشاہ

بہت دن سے اسے اپنی ذات پر مایوسی کا محسوس ہوتا بوجھ بہت کَھل رہا تھا۔ اسکی کوشش تھی وہ اپنے من میں پلتی نا امیدی سے کسی طرح چھٹکارا پا لے تو شاید درد کے مختلف صورتیں لیے جو گھن اسے اندر ہی اندر کھائے جا رہے تھے وہ اپنی رفتار مدھم کر لیں اور اسے سانس لینے میں دشواری پیش نہ آئے۔
اپنی اسی سوچ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اس نے بات بے بات ہنسنا شروع کر دیا۔ ہلکی سی بات پر خود کو بے تحاشا خوش ظاہر کر کے اسے لگ رہا تھا وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو رہی ہے مگر یہ اس کی بھول تھی۔ کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ دل و دماغ پر فکروں کی دھند چھائی اور وجود کھلنے پر آمادہ ہو؟ نہیں۔۔۔ بالکل بھی نہیں۔ بلکہ ذہنی دباؤ اور الجھنوں کے زیر اثر اسکا وجود اپنی طاقت زائل کرتا جارہا تھا وہ اپنی یاداشت کے ساتھ ساتھ باہر نظر آتی رعنائی کو بھی ان مصیبتوں کے طوفان کا عادی بنا چکی تھی جن کے بار بار گزرنے سے اسکا وجود ٹکڑوں میں بٹنے لگا تھا۔
پھر بھی اس کی کوشش تھی "وہ خوش دکھائی دے”
اور کبھی کبھی ہوتا ہے نا اندھیری نگری میں قید رہنے کے باوجود اچانک سے روشنی کا چمکتا جگنو دکھائی دے تو زندگی کھونے کے انتظار میں بیٹھا بے بس پنچھی بھی خوش ہونے لگتا ہے کہ شاید اب اس کے لیے آزادی کا در نظر آنا آسان اور ممکن ہوگیا ہے۔
اسی طرح اسے لگتا تھا اس کے دل کے آخری خانے میں چھپی "ڈوبتے کو تنکے کا سہارا” کے مترادف امید کی ایک موہوم ہوتی کرن بھی شاید اس کی زندگی کو نئے سرے سے شروع کرنے کی وجہ بن سکتی ہے۔ چاہے وہ لہر چند پلوں بعد اپنی سانس کھو بیٹھے مگر شاید اس سے لگی آس کی بدولت کوئی تو جینے کی وجہ سامنے آجائے۔
بس یہی سوچ کر اس نے وہ کام کرنا شروع کر دئیے جس سے اسے نہ سہی دوسروں کو فائدہ ہونے لگا، ان کے لب خوشی سے مسکرانے لگے۔
یہ دیکھ کر ایسا کرنا اس کی عادت بنتا گیا اسی چکر میں وہ خود کی تکالیف فراموش کرتی گئی۔ فرصت کے لمحوں میں ماضی کی پرچھائیاں اگر اس کے چہرے پر لرزاتے سائے کا عکس دکھانے میں مگن ہوتیں تو وہ چور راستے سے کوئی نیا کام شروع کر کے انہیں الجھا دینے میں کامیاب ہو جاتی اور ہر مایوسی کو بلا مقابلہ شکست ملنے لگی۔
یہ سب اچھا تھا اس کی نظر میں باعث سکون بھی، مگر اس سے اس کی اپنی ذات کا جو نقصان ہوا اس کا ازالہ اس کی قسمت بھی نہیں کر سکتی تھی۔ کیونکہ یہ سب کرتے ہوئے اس نے اپنی پہچان کھو دی تھی کہ برسوں پہلے ہنستی مسکراتی اور زندگی سے بھرپور وہ حسین لڑکی ہے جس نے تمازتوں کی رت میں صحرائی سفر جاری ہوئے اپنے آبلہ پائی مسافتوں کو نظر انداز کر کے مہرباں چھاؤں کو ٹھکرا دیا ہے اور اذیتوں سے دوستی نبھاتے نبھاتے اپنے موسم بدلتے مزاج کو وقت کی آندھیوں کی نظر کر کے ہمیشہ کے لیے دیمک زدہ بنا دیا ہے کہ جس کا علاج چودھویں کے چاند کی سفیدی کے اثر میں بھی نہیں۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا