ضلع کونسلوں کے انتخابات، عوام کے لیے کڑی آزمائش

0
0

عوام اس بار کچھ نئی امیدیں سجائے بیٹھے ہیں، لیکن ان کے جانے پہچانے سیاست دان اپنے ماتھے پہ وہی پرانے وعدے سجا کر انہیں نئے انداز میں عوام کے سامنے پیش کرنے کے لیے تیار !
محمد اشفاق

کشتواڑ؍ سابقہ ریاست جموں و کشمیر میں 05 اگست 2019 کے بعد سیاسی سرگرمیاں لگ بھگ ٹھپ ہو چکی ہیں اور سیاست دانوں کو انتخابات کے اکھاڑے میں اپنے دائو پیچ آزمانے کے بہت کم مواقعے نصیب کو رہے ہیں۔ سیاسی بیان بازیاں، دوسری جماعت کے کارکنوں کو اپنی جماعت میں کسی نہ کسی طرح شامل کروا کر اپنی سیاسی پہلوانی کا لوہا منوانے کا رواج بھی تقریباً مانند پڑ چکا ہے۔لیکن سیاست ایک ایسا نشہ ہے جو ایک بار چڑھ جانے کے بعد اترنے کا نام نہیں لیتا ہے، سیاست دانوں کو سیاسی دائو پیچ کھیلنے بیان بازی کرنے اور اپنے مخالف سیاست دان کو چاروں شانے چت کرنے میں جو لذت حاصل ہوتی ہے وہ مرکزی زیر انتظام علاقہ جموں و کشمیر میں بالکل ناپید ہو چکی ہے۔ایسے وقت میں ضلع کونسلوں کے انتخابات کا اعلان ہونا ان کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں، کچھ بھی ہو سیاست ان کی رگ رگ میں بسی ہوئی ہے جس کی وجہ سے یہ نہ چاہتے ہوئے بھی سیاست کے میدان میں کود کر اپنے سیاسی دائو پیچ کا لطف اٹھانے کے لیے پر تول رہے ہیں۔ سابقہ پنچائتی نمائندگان ہوں ،فارغ البالی کے انتہائی کھٹن ایام گزارنے والے سابقہ ممبران اسمبلی ہوں یا پھر سیاست دانوں کی چمچہ گیری میں مصروف عمل رہنے والے تجربہ کار کارکنان، ان انتخابات کا حصہ بننے کے لیے پوری طرح کوشاں ہیں۔اس بار تو سیاست کی زندگی کی ابجد سے بھی ناواقف لوگ بھی اپنی قسمت آزمانے کے لیے قطار میں کھڑے ہیں، اور ہر نئے پیدا ہونے والے سیاست دان کی طرح جذبہ خدمت خلق کا درد دلوں میں لے کر بے تابی کے ساتھ انتخابات کا انتظار کر رہے ہیں۔ایسے میں بزرگ سیاست دانوں کو ان جوشیلے نوجوانوں کو موقعے فراہم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تھی، لیکن سیاست کی بھوک مٹانے کے لیے یہ لوگ کسی کو بھی بخشنے کے لیے قطعی تیار نہیں ہیں۔عوام اس بار کچھ نئے کی امیدیں سجائے بیٹھے ہیں، لیکن ان کے جانے پہچانے سیاست دان اپنے ماتھے پہ وہی پرانے وعدے سجا کر انہیں نئے انداز میں عوام کے سامنے پیش کرنے کے لیے تیار ہیں، اور بجلی، پانی، روزگار، اور معیاری تعلیم کے گھسے پٹے وعدوں کے ساتھ ایک بار پھر عوام کے دروازوں پہ دستک دینا شروع کردیا ہے۔ایسے میں عوام عجب سے شش وپنج میں مبتلا ہو کر اس بات کا فیصلہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ نئے امیدوار پہ بھروسہ کریں یا پھر جانے پہچانے چہروں کا دامن بھر دیں، کیوں کہ پرانے سیاست دان انہیں لالچ میں مبتلا کر کے ان سے ووٹ بٹور سکتے ہیں۔اور نئے سیاست دانوں کے پاس دینے کے لیے کچھ بھی نہیں ہیں، سوائے دلوں میں انگڑائیاں لیتے ہوئے جذبہ خدمتِ خلق کے!

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا