بزدل موت مرنے سے اچھا ہے شہادت کو گلے لگالیں!!!

0
0

احساس نایاب ( شیموگہ, کرناٹک )
ایڈیٹر گوشہ خواتین بصیرت آن لائن

ساری دنیا اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ ایک ادنی سا مسلمان بھی اپنے آقا دو جہاں محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر اپنی جان, مال آل و اولاد سب کچھ ہنستے ہنستے قربان کرسکتا ہے وہیں گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جان حلق سے نکال بھی سکتا ہے کیونکہ کسی بھی غیور مسلمان کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی ناقابل برداشت ہے
باوجود دنیا بھر میں دشمنان اسلام کی جانب سے آئے دن صحابہ رضی اللہ عنہ و اہل بیت کے خلاف زہرافشانی کی جاتی ہے خاص کر وطن عزیز بھارت میں جہاں سنگھی آئی ٹی سیل کے ذریعے ملک میں انتشار پھیلانے فساد برپہ کرنے کے مقصد سے جان بوجھ کر سوشیل میڈیا پہ توہین آمیز پوسٹس شئر کرکے مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکانے, اکسانے کی جی توڑ کوشش کی جاتی ہے جس کے نتیجے مسلمانان ہند کا خون جوش مارتا ہے توہین رسالت کی مذمت کرتے ہوئے سڑکوں چوراہوں پہ اتر آتے ہیں جگہ جگہ احتجاجات و مظاہرے کئیے جاتے ہیں سرکار و انتظامیہ کو گھیرا جاتا ہے گستاخ کے لئے سزائے موت کی مانگ کی جاتی ہے اور جب گستاخ ملعون کو وقتیہ طور پہ گرفتار کیا جاتا ہے تو اسی کے ساتھ مسلمانوں کا غصہ جوش جذبہ سب کچھ پانی کے جھاگ کے مانند دب جاتا ہے
یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں ہزاروں, لاکھوں گستاخ خبیثوں میں سے ایک آدھ کے علاوہ کبھی کسی کو سزائے موت نہیں ملی بلکہ اکثر ملعون چند دن جیل میں گذارنے کے بعد آزاد کردئیے جاتے ہیں تو کئی یوروپی ممالک میں پناہ لے لیتے ہیں اور مسلمان چند احتجاجات, مظاہرے کرکے اس خوش فہمی میں اتراتے ہیں کہ انہونے اپنا فرض پورا کردیا اپنے عشق کا ثبوت پیش کردیا بھلے گستاخ کو سزا ملے یا نہ ملے
لیکن ہاں اس بیچ اگر غنیمت سے ان میں کوئی سچا عاشق رسول نکلا جس کی آواز دبنے کے بجائے اور بلند ہوجائے تو بوکھلائی ہوئی سرکار وہ انتظامیہ ان انصاف کی مانگ کرنے والے تمام غیور مسلمانوں کو گنہگار مجرم بنا کر پیش کرتی ہے اور اصل گنہگاروں کو سزا دینے کے بجائے مسلمانوں ہی کے خلاف قانونی کاروائی کی جاتی ہے …….
جیسا کہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے
جب سرکار اور پولس کا رویہ غیرمنصفانہ غیرذمہ دارانہ ہوتا ہے تو گستاخیوں کے حوصلے مزید بڑھ جاتے ہیں یا یوں کہنا غلط نہ ہوگا کہ ان خبیث کے بچوں کو خود سرکار کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے …………
حال ہی میں ایسا ہی ایک معملہ بنگلورو میں پیش آیا نوین نامی ملعون نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی جس کے بعد بینگلورو کے غیور مسلمان اس خبیث کو قانونی طور پہ سزا دلوانے کے مقصد سے پولس اسٹیشن میں جمع ہوکر اس کے خلاف کمپلینٹ درج کروانی چاہی لیکن ہمیشہ کی طرح اس بار بھی پولس ٹال مٹول کرنے لگی , مسلمانون کے بارہا کہنے کے باوجود پولس نے کمپلینٹ درج نہیں کی جس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بنگلور پولس نے اس حساس معملے کو ہلکے سے لیا یا جان بوجھ کر نظرانداز کرتے ہوئے گستاخ نوین کو بچانے کی کوشش کرتی رہی ……….. اس
خبیث کے بچے کے خلاف قانونی کاروائی کرنے میں اتنی تاقیر کی گئی کہ ایک کمپلینٹ درج کروانے کے لئے بھی عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اسٹیشن کے باہر گھنٹوں انتظار کرنا پڑا کئی مظاہرین کے مطابق پولس سیدھے سیدھے کمپلینٹ درج کرنے سے ہی انکار کرتی رہی

دراصل ملعون وہاں کے ایم ایل اے کا بھانجا ہے یہاں پہ ایک معمولی ایم ایل اے کے بھانجے کو بچانے کے خاطر پولس نے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرتے ہوئے اُلٹا بےگناہ مسلمانوں پہ اندھادھن لاٹھیاں چلائی , فائرنگ کی گئی نتیجتا 3 مسلم نوجوان شہید ہوگئے , 60 سے ذائد زخمی اور 130 سے ذائد مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا , خبروں کے مطابق گرفتار نوجوانوں کی جائیداد ضبط کرنے کی بھی کوشش کی جارہی ہے …………
یہاں پہ ان نوجوانوں کا گناہ بس اتنا سا ہے کہ یہ مسلمان ہیں, مظلوم ہیں اپنے ملک سے بےپناہ محبت یہاں کے آئین پہ بھروسہ کرتے ہیں
تبھی قانون ہاتھ میں لینے, اُس کمینہ خبیث کے بچے کو زندہ دفنانے کے بجائے انہوں نے قانون کا سہارا لینا بہتر سمجھا مگر افسوس ملک کی اقلیت ہونے کی وجہ سے انہی پہ گولیاں برسائی گئیں انہیں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور انہیں کو مجرم ٹہرایا گیا ……….
ان تمام حالات کو دیکھتے ہوئے ہمیں اُن نوجوانوں کی جراءت , جانبازی یاد آرہی ہے جس میں ایک نے گستاخ رسول کی گردن دھڑ سے الگ کردی تھی اور دوسرے نے قرآن کو جلانے کی حماقت کرنے والے گستاخ کو بیچ چوراہے پہ پولس اور بھیڑ کے آگے لات گھونسوں سے پیٹا تھا یقین جانیں اگر یہ نوجوان بھی اوروں میں سہارا تلاش کرتے غیروں سے انصاف کی بھیک مانگتے تو آج تاریخ میں اپنے نام نہ لکھوا پاتے …..
بیشک گستاخ رسول کی سزا موت سے کم ہو ہی نہیں سکتی اس کے لئے نہ دنیاوی قانون کی ضرورت ہے نہ عدالتوں کی مہربانی, بھیک کی ضرورت ہے جب ایک مسلمان اپنے ہاتھوں سے تنہا شیر کا جبڑا چیر سکتا ہے تو ایسے خبیثوں کی گردنیں دھڑ سے اکھاڑ پھینکنا کوئی بڑی بات نہیں ہے بلکہ یہ تو مسلمان کے لئے خوش نصیبی, قابل فخر بات ہے باوجود آج اگر ہم خاموش ہیں تو ہماری اس خاموشی کو کمزوری سمجھنے کی غلطی ہرگز نہ کی جائے ہمارا یہ صبر اپنے ملک کی بقا کے لئے ہے یہاں کے امن و امان کے لئے ہے جس پل یہ صبر ٹوٹے گا قسم ہے اُس رب کائنات کی اُسی پل ہر گستاخ جہنم رسید ہوگا ……….
مانا ہم سے ہماری بابری مسجد چھینی گئی ہم نے صبر کیا, ہمارے نوجوانون کا خون پانی کی طرح بہایا جارہا ہے ہم صبر کا دامن تھامے کھڑے ہیں ہر دن ہم پہ ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں اور ہم برداشت کئے جارہے ہیں لیکن رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں توہین آمیز کلمات ہمارے لئے ناقابل قبول ہیں اس گستاخی کی سزا ہرحال میں موت ہے سرکار کو چاہئے کہ وہ ایسے گستاخ خبیثوں کی پشت پناہی سے باز آجائے ورنہ انصاف عدالتوں میں نہیں بلکہ سڑکوں پہ ہونے لگیں گے جسے روک پانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوجائے گا ………….
آخر میں ایمان کو تازہ کردینے والا عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا واقعہ ……. جہاں ملک بھر میں خطرناک مہلک وبا کی وجہ سے لوگ ہر دن سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں جان بحق ہورہے تھے حالات اتنے خوفناک ہوگئے کہ دفنانے کے لئے زمین بھی تنگ پڑنے لگی ایسے میں لوگوں کے اندر خوف و دہشت اس قدر بڑھ گئی کہ اب اموات بیماری سے کم بھوک اور موت کے خوف کی وجہ سے زیادہ ہونے لگیں
ایسے میں وہاں کی سرکار حالات پہ قابو پانے میں مکمل ناکام ثابت ہوئی اپنی اس نااہلی کو چھپانے , عوام کو گمراہ کرنے کے لئے سرکار کو ایک ترکیب سوجھی جس کا مقصد شہر میں انتشار پھیلاکر فساد برپہ کرنا تھا تاکہ عوام اصل پریشانی کو بھول کر اس میں الجھ کے رہ جائے اور اس کام کو انجام دینے کے لئے وہاں کے چند شرپسند نوجوانوں کو استعمال کیا جانے لگا, اُن شرپسندوں کے ذریعہ سوشیل میڈیا پہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں توہین آمیز تبصرے کروائے گئے جسے دیکھنے کے بعد مسلمانوں میں غصے کی لہردوڑ پڑی اب سبھی کی ایک ہی مانگ تھی کہ اُس گستاخ کو بیچ چوراہے پہ پھانسی پہ لٹکایا جائے اسی مانگ کو لے کر مسلمان سارا دن چیختے چلاتے رہے لیکن پولس و سرکار کے کانوں پہ جوں تک نہیں رینگی بلکہ احتجاجیوں پہ ہی لاٹھیاں چلائی گئیں اور حالات کشیدہ ہونے لگے اسی درمیان ایک نوجوان ہجوم سے باہر نکلا اپنی بائک اسٹارٹ کی اور وہاں سے چپکے سے چلا گیا جس کو جاتا دیکھ چند لوگ اُس پہ لعن طعن کرتے ہوئے کوسنے لگے اُس کے لئے بزدل, منافق جیسے الفاظ استعمال کئے جانے لگے کہ تھوڑی ہی دیر بعد وہاں موجود ساری میڈیا اچانک احتجاجیوں کے ہجوم سے ہٹ کر پولس اسٹیشن کی طرف دوڑ پڑی چاروں طرف افراتفری تھی کفار کے چہرے پیلے پڑگئے جب ایک 25 سے 26 سالہ نوجوان گستاخ ملعون کا جسم سے جدا سر تھامے پولس اور میڈیا کے آگے بیحد اطمینان و سکون سے کھڑا تھا دراصل یہ وہی نوجوان تھا جو تھوڑی دیر پہلے سر پہ کفن باندھے ہجوم سے نکلا تھا جس پہ لعن طعن کیا جارہا تھا دراصل اس نے چیخنے چلانے انصاف کی بھیک مانگنے کے بجائے گستاخ کو جہنم رسید کر خود جام شہادت نوش کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا ……
میڈیا کے ساتھ ساتھ جب قوم کی قیادت کا دم بھرنے والے مصلحت پسند موقعہ پرستوں نے نوجوان کے اس اقدام پہ اعتراض جتایا تو نوجوان مسکراتے ہوئے کہنے لگا آج ہمارے سر پہ موت سائے کی طرح منڈرا رہی ہے ناجانے کس پل دشمنان اسلام کی نفرت کی بھینٹ چڑھ جاؤں کس گولی, خنجر سے چھلنی کردیا جاؤں , ہجومی تشدد میں تڑپا تڑپا کا مار دیا جاؤں یا کسی بیماری کا شکار ہوکر لاچار بستر پہ پڑے پڑے میری روح پرواز کرجائے ایسی مردار موت مجھے قطعی منظور نہیں
جی ہاں ایک جانور کے نام پہ ظالموں کے ہاتھوں بزدلانہ موت مرنے یا محض موت کے خوف سے مردار موت مرنے کے بجائے میں نے شہادت کو اپنا مقدر بنایا ہے اپنے آقا کے نام مبارک پہ میں اپنی ایک جان تو کہا ہزار جانیں قربان کرنے کے لئے تیار ہوں ساتھ ہی گستاخیوں کی گردنیں دھڑ سے جدا کرنے کے لئے بھی تیار ہوں , مجھے ہجوم کا حصہ نہیں بننا بلکہ ہجوم سے ہٹ کر اپنے آقا کے لئے شیر کی طرح گرجنا , لپکنا , لپک کر جھپٹنا تھا جو الحمدللہ میں کرچکا ہوں اپنا نام عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فہرست میں درج کروا چکا ہوں
بیشک اُس وقت اُس نوجوان کے الفاظ سُن کر کائنات کا ذرہ ذرہ رشک کھا رہا تھا …………
یاد رہے صحابہ رضی اللہ عنہ کو جب گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پتہ چلتا تو پلک جھپکتے میانوں سے شمشیریں نکل جاتی اور گستاخ کا سر دھڑ سے الگ کردیا جاتا نہ کہ ہجوم کا حصہ بن کر انصاف کی بھیک مانگی جاتی ………. کیونکہ
"امام مالک سے کسی نے پوچھا
اُمت کے ہوتے ہوئے اگر کوئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرے تو اُمت کو کیا کرنا چاہئیے ؟
امام مالک نے جواب دیا ” اگر گستاخ زندہ ہے تو اُمت کو مرجانا چاہئیے ” …………

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا