تحریر: چوہدری رزینہ گُل
مرہوٹ پونچھ
Razinachoudhary369@gmail.com
مرحوم خدا بخش زارؔ مرہوٹ کے ایک معزز خاندان میں پیدا ہوئے ان کی گوت دھیدہڑ تھی۔ان کا اصل نام خدا بخش اور تخَلص زارؔ تھا۔ان کے والد محترم کا نام چودھری حلیم دھیدہڑ تھا اور والدہ کا نام مہری ناجر بی تھا۔ انکی والدہ نے گاؤں کے اکثر لوگوں کو قران مجید پڑھایا زارؔ صاحب کے تین بھائی چار بہنیں تھیں سب سے بڑے حاجی فتح محمد ان سے چھوٹے غلام دین ان سے چھوٹے خدا بخش زارؔ تھے اور سب سے چھوٹے ناصر دین تھےوالدین کے لئے سب اولاد یکساں ہوتی ہےمگر زار صاحب کے ساتھ زیادہ لاڈ پیار تھا انکے والد محترم حلیم صاحب بہت غریب تھے ان کے پاس پانچ بھینسیں تھیں جبکہ عام لوگوں کے پاس پندرہ بیس بھینسیں ہوتی تھیں جب انکے بھائی کام وغیرہ سے فارغ ہو کر گھر آتے تو زار صاحب کو طعنے دیتے کہ آپ پورا دن فارغ رہتے ہیں اس پر ان کے والدین منع کرتے کہ اس کی جگہ ہم کام کریں گے ان ہی دنوں بابا جی لار شریف صاحب تشریف لائے جب وہ انکے گھر کے پاس پہنچے تو چوہدری حلیم صاحب نے جا کر گزارش کی کہ میرے گھر تھوڑی دیر آرام کریں گھر کی چھت پر بٹھایا جون کا مہینہ تھا انہیں دودھ میں مصری ڈال کر پیش کیا اس وقت زار صاحب کی عمر سات آٹھ سال تھی یہ دور ایک کونے میں بیٹھے تھے جب بابا جی لوگوں سے باتیں کرتے تو زار صاحب انکی طرف دیکھتے جب بابا جی انکی طرف دیکھتے تو زار صاحب نظریں جھکا لیتےحضرت باباجی رحمتہ اللہ صاحب دُودھ پینےلگے تو آدھا پی کر فرمایا کہ یہ باقی دودھ اس بچے (زار صاحب کی طرف اشارہ کیا )کو دیں ہر مرید کی حسرت تھی کہ یہ، دودھ مجھے ملے اس پیالے میں سے دودھ کا کچھ حصہ دودھ والے برتن میں ڈلوایا اور باقی دودھ زار صاحب کو پلایا اس دن کے بعد زار صاحب کی طبیعت بابا جی رحمتہ اللہ علیہ کی طرف مائل ہونے لگی جس وقت حضرت بابا جی رحمتہ اللہ صاحب واپس پمروٹ داہر تشریف لے گئے اس کے بعد زار صاحب نے پڑھنے کی کوشش کی مگر سبق نہیں یاد ہوتا تھا اس وقت مدارسے نہیں تھے ایک سال کے بعد حضرت بابا جی رحمتہ اللہ صاحب موہڑے تشریف لائے تو زار صاحب کی والدہ سات یا اَٹھ کلو دودھ کی ایک کوری روزانہ بابا جی کے پاس لے کر جاتی تھیں ایک دن حضرت بابا جی رحمتہ اللہ صاحب نے فرمایا کہ اس بہن کو میرے پاس بھیجو جس وقت زار صاحب کی والدہ گئیں تو حضرت باباجی رحمتہ اللہ صاحب نے پوچھا کہ آپ کہاں رہتی ہیں انہوں نے عرض کیا مرہوٹ رہتی ہوں حضرت باباجی رحمتہ اللہ صاحب نے فرمایا کہ آپ اتنے دور سے پیدل چل کر آتی ہیں آپ نے فرمایا کہ آپ کی چائے کے لیے دودھ لاتی ہوں
حضرت بابا جی رحمتہ اللہ صاحب نے پوچھاآپ کے بچے کتنے ہیں اور آپ کے میاں کیا کام کرتے ہیں ماں جی نے جواب دیا میرے چار بچے ہیں اور مزدوری کرتے ہیں جبکہ ایک بچہ لاڈلا ہے نہ وہ پڑھ سکا اور نہ کوئی کام کاج کر سکااس کو لیکر آپ کے پاس آئی ہوں حضرت باباجی رحمتہ اللہ صاحب نے فرمایا اب آپ کے بچوں کو مزدوری کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی اور یہ جو لاڈلہ ہے یہ مجھے بھی پیارا ہے۔ آپ کل اپنے میاں کو میرے پاس بھجیں انہوں نے جا کر حلیم صاحب کو بتایا کہ کہ آپ کو بابا جی نے یاد کیا ہے چودھری حلیم نے جواب دِیا کہ میں نسوار کھاتا ہوں کیسے جاؤں انہوں نے اور بچوں نے کہا کہ آپ جائیں جس وقت حلیم صاحب وہاں پہنچے تو حضرت بابا جی رحمتہ اللہ صاحب نے بیت فرمایااور فرمایا کہ کلی کرو اج کے بعد نسوارسےجان چھوٹ جائے گی اور کل چھوٹے بچے کو ساتھ لیکر آنا دوسرے دن حلیم صاحب زار صاحب کو ساتھ لیکر جب آئے تو بابا جی رحمتہ اللہ صاحب نے فرمایاکہ یہ بچہ میرے پاس رہے گا اور روزانہ دُودھ بھی یہی لائے گا اور
اپنے دوسرے بچوں کو بھی آج کے بعد کام پر نہیں بھیجنا آپ کو رب گھر میں رزق دے گا
اس کے بعد زار صاحب کا آنا جانا رہنا سب حضرت بابا جی رحمتہ اللہ صاحب کے ساتھ ہو گیا کافی عرصہ گزر گیا حضرت بابا جی رحمتہ اللہ صاحب جب واپس جانے لگے تو زار صاحب سے فرمایا کہ آپ چار جیٹھ کے عُرس میں آنا جناب زار اور فتح محمد دونوں گئے بابا جی نے فرمایا کہ آپ قیامت کے دن اپنی قوم کے مختار ہوں گے اور جلد اللہ تعالیٰ حج کی سعادت عطا فرمائیں گے۔پھر فتح محمد سے فرمایا کہ آپ وضو کر کے آئیں میں بیعت کروں زار صاحب نے عرض کیا کہ حضرت مجھے بھی بیعت کریں حضرت بابا جی رحمتہ اللہ صاحب نے فرمایا آپ کی عمر کم ہے۔ زار صاحب واپس مُڑے تو فرمایا کہ آپ میرے پاس بیٹھیں ۔ پانچ دن بعد بڑے بھائی واپس چلے گئےزار صاحب ایک ماہ حضرت باباجی رحمتہ اللہ صاحب کے پاس اور ایک ماہ اپنے گھر رہتے سب سے پہلے آپ نے بابا جی کو یہ شعر، سنایا
آئے آئے بیکساں دے آئے والی جیہڑے کیاں شریف تے لار آئے،
خدا بخش اس دورے پونچھ رنگی اَج فر رنگن دوہری وار آئے۔
اس شعر کے بعد جناب زار صاحب نے شاعری کی ابتدا کی آپ نے باقاعدہ کسی ادارے سے تعلیم نہیں حاصل کی یہ سب ماں کی دعا اور بابا جی کا فیضان نظر تھا اس کی بعد تقریباً 35 سال کی عمر تک وہ لار شریف رہے
اس کے بعد حضرت باباجی رحمتہ اللہ صاحب کی وفات ہوگئی
اس کے بعد زار صاحب حضرت بابا جی رحمتہ اللہ صاحب کے فرزند حضرت بابا نظام دین لاروی رحمتہ اللہ کے ساتھ رہےپھر ایک دن حضرت بابا نظام دین صاحب رحمتہ اللہ نے فرمایاکہ میں آپ کی شادی کراؤں زار صاحب ایک دم خاموش ہوگئے ،انہو ں نے پھر فرمایا کہ بتائیں شادی کراؤں زار صاحب ہ نے عرض کیا کہ جہاں میری مرضی ہے وہاں رشتہ ہونا ممکن نہیں ۔حضرت بابا نظام جی صاحب رحمتہ اللہ نے فرمایا آپ جگہ تو بتائیں۔زار صاحب نے عرض کیا ثننئی میں ایک پیرو چوہان ہے اس کی ایک لڑکی ہے مگر وہ دیتا نہیں سخت طبیعت ہے
حضرت نظام دین صاحب رحمتہ اللہ نے فرمایاکہ وہ کس کے قریب رہتا ہے زار صاحب نے عرض کی۔امام دین درزی( لٹھونگ )ہے اس کا دوست ہے۔ حضرت نظام دین صاحب رحمتہ اللہ ہو نے امام دین کو کہا کے میرا یہ کام کرنا ہے امام دین نے عرض کیا جناب حکم کریں
،انہوں نے فرمایا پیرو چوہان کو میرے پاس لانا ہے
امام دین نے عرض کیا میں کوشش کروں گا وہ اس کے گھر گیا، پیروچوہان سے کہ تو قسمت والا ہے کہ حضرت میاں نظام دین صاحب رحمتہ اللہ نے موہڑے شریف بلایا ہے وہ بابا جی رحمتہ اللہ صاحب کے فرزند ہیں۔ پیرو چوہان نے کہا کہ میں کیوں جاؤں امام دین نے کہا چلو میں وہاں آپ کے لئے دعا کراؤں گا کہ الله تعالیٰ آپ کو بیٹا عطا فرمائے پیرو چوہان ہنس کر کہنے لگا امام دین میں اور میری بیوی ضعیف العمر ہیں اس عمر میں اولاد ممکن نہیں امام دین نے کہا چلو آپ کے ایمان کے لئے دعا کراوں گا اس پر وہ راضی ہو گیا اور باباجی کی خدمت میں حاضر ہوا حضرت نظام دین صاحب رحمتہ اللہ اور خدا بخش زار صاحب مکان کی چھت پر بیٹھے تھے حضرت نظام دین صاحب رحمتہ اللہ امام دین اور پیرو چوہان کو دیکھ کر جلال میں آ گئے اور باقی لوگوں کو چھوڑ کر پیرو چوہان سے ملے حضرت بابا نظام دین صاحب رحمتہ اللہ نے فرمایا کہ میں نے آپ کو اس لئے بلایا کہ مجھے ایک بیٹی نیاز میں چاہیئے زار صاحب کو یہ بات کچھ مناسب نہ لگی کہ حضرت نے سب کے سامنے یہ بات کیوں کی اپنی جگہ کرتے پیرو چوہان نے عرض کیا کہ حضرت میرے پاس سب اور بہت کچھ ہے بچی نہ اَج تک کسی نے نیاز میں دی نہ میں دوں گا۔اور جو بھی مانگیں میں دونگا حضرت بابا نظام دین صاحب رحمتہ اللہ نے فرمایا کہ آپ کو
اللہ تعالیٰ سے بیٹا مانگ کر دوں پھر بچی دو گے
پیریو نے کہا کہ حضرت عمر کے لحاظ سے اولاد ممکن نہیں حضرت نظام دین صاحب رحمتہ اللہ نے فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت پر منحصر ہے میں دعا کرتا ہوں پیروچوہان نے عرض کیا بالکل اگر میرے گھر بیٹا پیدا ہو جائے تو ایک بچی دونگا
حضرت نظام دین صاحب رحمتہ اللہ نے زار صاحب سے فرمایا کہ مجھے سات رنگوں کے دھاگے لا کر دیں میں گھٹ بنا کے دوں وہ لے کر پیرو کی بیوی کے گلے میں باندھ دیں۔زار صاحب نے اپنے چھوٹے بہائی ناصر دین کو دھاگے دے کر بھیجا کہ وہ اس کے گلے میں باندھ آئے راستے میں ایک دریا تھا وہ دھاگے اس میں گر کر بہ گئے وہ پریشانی میں واپس آیا اس وقت بابا جی کشمیر چلے گئے تھے
پھر جب عُرس شریف میں گئے تو ناصر دین ساتھ اور دھاگے لے کر گیا اور سارا واقعہ سنایا اور عرض کیا اب بنا کر دیں
حضرت بابا نظام دین صاحب رحمتہ اللہ نے فرمایاکہ اب وہ تین ماہ سے حاملہ ہو چکی ہے اب دھاگوں کی ضرورت نہیں اس کے بعد پیرو کے گھر چودھری محمد حنیف پیدا ہوا حضرت بابا نظام دین صاحب رحمتہ اللہ نے فرمایا کہ مثالی بچہ ہو گا اس کی پیدائش کے بعد زار صاحب کی شادی ہو گئی تو بابا جی نے فرمایا کہ اب آپ مجھے چھوڑ کر جاؤ گے تو نہیں اس پر زار صاحب نے عرض کیا کہ حضرت ساری دنیا چھوڑ سکتا ہوں مگر آپ کو نہیں چھوڑ سکتا
پھر ایک دن حضرت بابا نظام دین صاحب سُوئے ہوئے تھے زار صاحب نے سوچا میں گھر سے ہو آؤں جب واپس آئے تو۔حضرت بابا نظام دین صاحب رحمتہ اللہ چائے پی رہے تھے ۔حضرت بابا نظام دین صاحب رحمتہ اللہ ہ نے فرمایا زار جو بات میں نے کہی تھی وہی ہو گئی زار صاحب خاموش رہے پھر اچانک انکی بیوی کے سر میں درد ہوا اور وہ فوت ہو گئی اس کی وفات کے بعد بڑے عرصہ تک زار صاحب نے شادی نہیں کی پھر اپنے گاؤں سے دوسری شادی کی اس بیوی سے زار صاحب کو اللہ تعالیٰ نے چار بچے اور دو بچیاں عطا کیں زار صاحب چھ سات سال بعد حضرت بابا نظام دین صاحب رحمتہ اللہ کے ساتھ راجوری فتح پور چلے گئے۔وہاں حاجی فضل دین کے گھر اِن کی پھپھو زاد بہن تھی۔حضرت بابا نظام دین صاحب رحمتہ اللہ نے فرمایا زار آپ ایک شادی اور کر لیں بابا جی کے حکم پر زار صاحب نے دوسری شادی کی
حضرت نظام دین صاحب رحمتہ اللہ ہو نے فرمایا کہ الله تعالیٰ آپ کو خوبصورت اولاد دے گا تقریباً چھ سال بعد زار صاحب کی اس بیوی سے ایک بیٹا اور ایک بیٹی پیدا ہوئی اس کے بعد زار صاحب نے اپنا زیادہ وقت اپنے مرشد کے ساتھ گزارا اور شاعری کا لوہا منوایا گوجری اور پنجابی میں کمال شاعری کی۔ وہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک کامل ولی اور صوفی تھے حضر ت بابا نظام دین صاحب لاروی رحمتہ اللہ کا فیضان نظر تھا زار صاحب نے اپنی تمام زندگی حضرت بابا جی صاحب کی تربعیت میں لار شریف گزاری آور آخر کار سو سال گی عمر میں7 پھاگن کو اس دنیا کو چھوڑ کر خلد بریں ہو گئے ان کی وفات کے بعد بھی ان کی شاعری اپنے ملک کے علاوہ باہر کے دیگر ملکوں میں بھی شائع ہوئی اور انہیں گوجری کے غالب کا لقب ملا زار صاحب کے لئے انکے فرزند حاجی غلام احمد غلام کے یہ اشعار :
اُس سوہنی ماں گو بچو جس گو ناں زار تھو
ولیاں کی خدمت کری تائیں با وقار تھو
لار کا کَہر کا ہر اک کو تابعددارتھو
عشق وچ غلامؔ وہ ڈبو عاشقاں مانھ شمار تھو۔
(نوٹ؛ مضمون نگارہ مرحوم خدا بخش زار صاحب کی پوتی ہے۔)