ڈاکٹرلیاقت جعفری
جموں
9419184052
گزرے دنوں انڈیا پاکستان خلیج اور یورپ کےمختلف علاقوں میں موجود، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہزاروں طلباء نے، ان کی قایم کردہ انجمنوں نےعلامہ سرسید احمد خان کوان کے یوم ولادت پربھرپورخراج تحسین پیش کیا.. ہماری ریاست (اب یوٹی)میں بھی اس روزکشمیر یونیورسٹی، پونچھ، ڈوڈ ہ اور جموں کےعلاقوں میں کچھ ایک تقاریب منعقد ہوئیں….. بیشک ہماری قوم اور ملّت کے اس محسن کو جتنا بھی یاد کیا جائے اتنا کم ہے.. ہرسال اس روز مرحوم کے شایان شان مرحوم کو خراج پیش کرنے کا جو سلسلہ قایم ہوتا ہےاسے دیکھ کر دل خوش ہوتا ہے کہ دو صدیوں کے بعد بھی علامہ سرسید کی خدمات کا اعتراف پہلے سے زیادہ شدّت کے ساتھ کیا جاتا ہے
.میں اپنی بات کروں تو شومئی قسمت، میں علیگ نہیں ہوں، میرا تعلق پونچھ سے ہے اورگریجویشن کے بعد میری تمام تعلیم جموں یونیورسٹی میں ہوئی ہے..میں بیس پچیس سال سے ٹیچنگ کے شعبہ میں اپنی سروسز دے رہا ہوں.. تعلیم و تدریس کے بعد اردو شعرو ادب میرا دوسرا مشغلہ اورتعارف ہے.. تدریس میرا ہی نہیں میرے تمام خاندان کا ذریعہ معاش ہے..ہم سب بہن بھائی ٹیچر ہیں.. ہمارے بچوں کی رگوں میں اسی تدریسی خدمت سے کمائے ہوئے نوالےخون بن کردوڑتے ہیں
بیشک تعلیم تدریس،اردو،خواتین اور مسلم سماج کے حوالے سے مرحوم و مغفور علامہ سرسید کی پیش کردہ تاریخی خدمات کا قرض میں بھی اتنا ہی محسوس کرتا ہوں جتنا کوئی بھی میراعلیگ دوست …. اقبال ،غالب ،گاندھی ،ٹیگور ،مولانہ آزاد کی طرح سرسید پر بھی ہم سب کا اتنا ہی حق ہے جتنا کسی بھی علیگ کامیرےعلاقہ ڈسٹرکٹ پونچھ پرمرحوم کے قایم کردہ اس عظیم تعلیمی دانش گاہ کے جو بے پناہ احسانات ہیں ان پر ایک مدلّل تحقیق کی ضرورت ہے.. پونچھ اور راجوری اضلاع سے لگتے نواحی قصبات کے ہزاروں علیگ طلبا پچھلی نصف صدی میں تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو کراپنےعلاقوں اور قبیلوں کی خدمت کرنے میں مصروف ہیں.. ڈاکٹرمسعود چودھری صاحب سے لے کرمرحوم ڈاکٹر فاروق مغل پروازتک، ایسے سینکڑوں علیگ میری نظر میں ہیں جنہوں نے اپنے کارہاے نمایاں سے اپنے علاقے کا ہی نہیں بلکہ مرحوم سرسید اور علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کا نام بھی اونچا کیا ہے
میں پونچھ کی اپنی ہی برادری کی مثال دوں تو میرے شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے گاؤں کے گائوں سرسید کی پھیلائی اس روشنی سے منوّر ہو چکے ہیں .. سرنکوٹ، مینڈھر ،سانگلہ اور گرسائی سے لے کر منڈی اور پونچھ سٹی تک …. میرے اس اقلیتی مسلم طبقے سے متعلق سینکڑوں اساتذہ، افسر، پروفیسر، لیکچرار، ڈاکٹر، وکیل، ادیب اورمجتہد اپنی برادری، اپنے علاقے اور اپنے سماج کو آگے بڑھانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ سرسید احمد خان پونچھ میں جنمے اپنے دوست وومنس کالج علیگڑھ کے بانی، پدم وبھوشن شیخ عبداللہ المعروف پاپا میاں (مشرف بہ اسلام ہونے سے قبل ٹھاکردا
س ساسن ولد مہتہ گرمکھ سنگھ ساسن پونچھی) کی ان رفاقتوں اور بے لوث محبّتوں کا قرض ادا کر رہے ہیں جو انہوں نے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کی بنیاد گزاری کے وقت پیش کی تھیں۔
دوستو، بیس پچیس سال سےمیں "سرسید ڈے” سے منسوب ان تقریبات کی رپورٹیں دوسرے دن کےاخبارات میں پڑھتا دیکھتا آیا ہوں.. اب جب سے انٹرنیٹ دنیا میں آیا ہے تو، چوڑی دارپاجاموں، کراکلی ٹوپیوں، کالے چشموں اورخوبصورت شیروانیوں میں ملبوس اپنے علیگ دوستوں کے یہ دلکش فوٹوز اور ویڈیوز اور بھی تیزی سے یہاں وہاں سرکولیٹ ہوتے ہوئے دیکھ کر دل خوش ہو جاتا ہے..مشہور ہے کہ پونچھ کا ہرعلیگ جب تعلیم حاصل کر کے واپس اپنے علاقے میں لوٹنے کی تیاری کرتا تو وہ اس ملبوس کو سب سے پہلے اپنے سامان میں سنبھالتا ہے.. یہ لباس محض لباس نہیں ہے ایک مکمّل ثقافت اور تہذیب و تمیز کا اشاریہ ہے..
سرسید ڈے سے منسوب ان دنوں میں غضب کا فیسٹی وٹی کا ماحول بنتا ہے.. لیکن ساتھ ہی ساتھ ہر سال ان ایام میں اپنے علیگ نا ہونے پر بھی شدید افسوس ہوتا ہے….. ہمارےعلاقوں میں جہاں ہردوسرا لڑکا علیگ ہے..جموں یا کشمیر یونیورسٹی کا سٹوڈنٹ ہونا ایسا ہی ہے جیسے بہت بڑے کسی سٹی-مال کے سامنے پنواڑی کی دکان کھلی ہو….. اسے آپ ہم نان الیگیرین اسٹوڈنٹس کا احساس کمتری سمجھ لیں یا الیگیوں کے دبنگ رعب داب کا وہ اثر جو ہر نئے سال پہلے سے زیادہ شدید ہوتاچلا جاتا ہے
الله ہمارے دوستوں کا یہ طمطراق قایم و دایم رکھے.. آمین
خیر اب مدعے کی بات….
میں ہرسال سرسید کی ولادت سے منسوب ان دنوں میں سوچتا ہوں کہ ایک بھرپور تحریر لکھ کرعلامہ سرسید کو اپنے تئیں خراج عقیدت پیش کروں.. لکھتے وقت ہمیشہ یہ سوچ کر قلم روک لیتا ہوں کہ ایسے میں جب کہ علامہ کے حوالے سے اس ہفتےساری دنیا میں ہزاروں نگارشات منظر پہ آئیں گی، میرے لکھنے کا کیا فائدہ؟ میرا لکھا کون پڑھے گا؟؟ مایوسی کے اس ہنگام میں اکثر بے حوصلہ ہو کر قلم ایک طرف رکھ دیتا ہوں
لیکن اب کی بار کمر کس لی اور تہیّہ کر لیا کہ لکھوں گااور لکھوں گا بھی مرحوم کے ہی حوالے سے، لیکن ابکے تحریک اپنے علاقے سے لوں گا.. سو آج یہ مضمون قلم بند کر پایا ہوں
آج اس جذباتی اور تاثراتی آرٹیکل کی وساطت سے میں اپنے خطہ پیرپنچال کےعلیگ دوستوں سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں کہ آپ مجھے بتایں کہ ہماری
قوم و ملّت کے اس رہبرکو ہمارا بہترین خراج تحسین کیا ہو سکتا ہے؟؟ آخرہم ان موقعوں پر ایسا کیا کریں کہ لگے ہم نے سرسید کے احسانات کا بدلہ چکا دیا ہے، یا چکانے کی ایماندار کوشش کی ہے…….؟؟
ہم ایسا کیا کریں کہ لگے کہ واقعی اس علاقے اور خطے پر مرحوم کے ادارے نے جو احسانات کے ہیں، ان کا بدل پیش کر رہی ہیں ہم ؟؟
دوستو، بنام سرسید نوازی، کیا ہمیں ہرسال کسی مقامی کالج کے آڈیٹوریم میں علاقے کے کسی مقتدرگیسٹ کی موجودگی میں موم بتی جلا کراور لچھےدارتقریریں کرکے مرحوم کو خراج پیش کر کے آئندہ سال بھر کے لئے چپ ہو جانا چاہیے کہ باضابطہ عملی میدان میں اتر کر اور مرحوم کی جاودانی تحریک کو حوالہ بنا کر کچھ ایسا کام کرنا چاہیے جو علیگڑھ جامعہ کے مقابلے کی کوئی مثال ہمارے علاقے میں قایم کر سکے..؟؟
بیشک علامہ سرسید کی یاد میں ایک مشاعرہ کروا دینا یا بچوں کی ایک ڈیبیٹ کا اہتمام کرنا بھی احسن قدم ہے…لیکن اسی کے ساتھ ساتھ علیگڑھ کی طرز پر بنیادی سطح پر کسی تعلیمی ادارے، اسکول،ٹیوشن سینٹر، لائبریری، کمپیوٹر سینٹر،مکتب مدرسے کے قیام کے انتہائی معمولی پروجیکٹ پر بھی توجہ دی جاسکتی ہے۔۔۔
ہم اس روز اگر کچھ بھی نہ کرتے، ایک ایسے گاؤں کا انتخاب کر کے اس کا نام "سرسید آباد” رکھ سکتے تھے جہاں ہر دوسرے گھر سے ایک علیگ لڑکا یا لڑکی نکلے ہیں ..؟؟ علاقے میں بننے والے نیے اسکول یا کالج کو، چوک چوراہے سڑک کو سرسید یا پاپا میاں کے نام منسوب کر سکتے تھے…..
پونچھ کے کتنے لوگوں کو ، بلکہ علیگیوں کو یہ علم ہے کہ پاپا میاں انہی کے علاقے کے تھے.. کتنوں کو معلوم ہے کہ آج بھی کھوڑی ناڑ ایریا میں ان کی فیملی رہتی ہے؟؟ کتنوں نے یہ تحقیق کی کہ پاپا میاں کب اور کیوں مسلم ہو گئے تھے؟؟
پاپا میاں کے نواسے پونچھ کے مشہور ایڈوکیٹ مرحوم سردار موہن سنگھ جی کو آپ میں سے کتنے لوگ جانتے ہیں.. کتنوں نے دیکھا ہے انھیں ؟؟ (وکیل موہن سنگھ جی بھی علیگ تھے، پاپا میاں کی سفارش پر ١٩٦٣ میں ان کی ایڈمشن علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے لا ڈیپارٹمنٹ میں ہوئی تھی..) پاپا میاں کے خاندان سے متعلق مشہور صحافی نریندر سنگھ تلوار سے اس موضوع پر آپ میں سے کتنوں نے کبھی بات کی؟؟ انڈیا کے سابقہ ڈپلومیٹ اور خارجہ سیکریٹری سلمان حیدر، سبھرامنیم سوامی کی بیٹی ٹی وی اینکر سہاسنی حیدر اور پاپا میاں کے رشتے کے بارے میں آپ کتنا جانتے ہیں..؟؟ کیا آپ کو علم ہے کہ فلم انڈسٹری کی مشہور ایکٹریس رینوکا دیوی پاپا میاں کی ہی بیٹی تھیں.. جن کا اصلی نام خورشید مرزا تھا؟؟
ہمیں یہ سب معلوم ہونا ہی چاہیے تھا..
کیا ہم سرسید کے دیوانے” سرسید فلاحی تدریسی تعلیمی مشن” کے تحت فنڈز اکٹھے کرکے بلا لحاظ مذہب و ملّت وقوم و برادری پونچھ اورراجوری کے اسکولوں کے ٹاپربچے بچیوں کواعلی تعلیم کے لئے سپانسر نہیں کر سکتے؟؟ کیا ہم سرسید کے نام پر قیام کردہ "کتاب گھر مشن” کے تحت اہل اور قابل بچوں میں مفت کتابیں نہیں بانٹ سکتے؟؟
آپ کو علم ہے کیا؟ دوراڑیسہ سے آیا ایک آئی پی ایس افسر اپنی جیب سے تمام ریاست میں گزرے تین سال میں اڑتالیس لاکھ روپیے کی کتابیں غریب اور ذہین بچوں میں بانٹ چکا ہے..اس کے ویژن اور اس کی ہمدردی کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ جے این یو جیسی انڈیا کی ٹاپ موسٹ یونیورسٹی سے درس کے ساتھ ساتھ اخلاق و درد کی تعلیم بھی لے کر نکلا ہے….. آئی پی ایس-آئی اے ایس تو ہم نے بھی پیدا کئے ہیں…. لیکن ان میں سے بسنت رتھ کتنے ہیں؟؟ بسنت رتھ بننے کے لئے قوم اور عوام کا درد چاہئے..بھاری بھرکم وزن دار جیبیں ڈھیلی کرنے کا حوصلہ چاہئے.. ایمانداری سے بھرا ویژن چاہیے.. درد ملّت کا جذبہ چاہئے….
دوستو…..اگر ہماری کسی ایک تقریب کا چیف گیسٹ کوئی علیگ ہے اور وہ ہمارے علاقے کی کسی یونیورسٹی کا وائس چانسلر بھی ہے تو کیا ہم اس سے ایک دس منٹ کی صدارتی خطبے کی تقریر کی ہی احتیاج رکھیں؟ کیا ہم اسے یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ سرسید احمد خان اور پاپا میاں کے صدقے میں پونچھ کے لئے اپنی یونیورسٹی کا ایک کیمپس یا معمولی سا سینٹرہی اعلان کر دے..تا کہ بچوں کو اپنے گھر میں تعلیم کی سہولت ملے؟؟
کیا سال بھر مقامی ڈی سی اور ایس پی صاحب کے ساتھ سلفیاں لینے والے یہ علیگ، سرسید کے نام پہ بنی یہ تنظیمیں، سرکار کوگزارش کرکےجموں یونیورسٹی کے پونچھ کیمپس کا برسوں سے بند پڑاکام دوبارہ شروع نہیں کروا سکتیں..؟؟
کیا ہم علاقے کے نام نہاد مخیر لوگ خود تھوڑا پیسہ جمع کرکےسرسید کے نام پرایک ایمبولینس یا ایک سی ٹی اسکین کی مشین سپونسر نہیں کر سکتے..؟؟
کیا ہم پونچھ راجوری کے سرسید کے متوالے، مسلم سماج کی ان بچیوں کے لئے جودینی و دنیوی دونوں طرح کی تعلیم کی خواہاں ہیں، جموں میں ایک پردہ دار گرلزہوسٹل تعمیر نہیں کر سکتے؟ جہاں سال بھر ایک معمولی ڈونیشن دے کر ہمارے علاقوں کی بچیاں بیٹھ کر پڑھ سکیں..کمپٹیشنزکی تیاری کر سکیں؟؟
ایسے درجنوں آئیڈیاز اور منصوبے ہیں….. بس شرط یہ ہے کہ ہم خلوص نیّت سے سرسید کی طرح کام کرنے پہ آمادہ ہوں..ہماری نیّت پاپا میاں پونچھی کی طرح صحیح ہو، ہم سیلف پروموشن اور سسٹم کی چاکری کی لعنت سے بچیں….. "سرسید ڈے” کے لئے سال میں ایک دن پہنی جانی والی شیروانی اور پائیجامے کوکڑک دارپریس کرنے سےکہیں زیادہ یہ ضروری ہے کہ ہم اپنی جیبیں ڈھیلی کریں .. سرسید کے بنائے ادارے کی بخشی ہوئی بارہ مہینے کی لاکھوں روپیے کی تنخواہ میں سے صرف دس دن کی تنخواہ اس فلاحی مد میں خرچ کریں؟ اور ان احسانات کی زکات نکالیں جو مرحوم نے ہم پر کۓ ہیں..
بیشک یہی کام، سرسید کو ہمارا سب سے بڑا خراج ہوں گے، مرحوم کی روح کو بھی تسکین ملے گی..اور زمین پر بھی کچھ ہوتا ہوا دکھائی دے گا ….. ورنہ یہ سب تقریبات اور تام جھام ایک روٹین دکھاوے سے زیادہ کچھ بھی نہیں..جس کا اثراسی رات کھائی علی گیرین بریانی کی پلیٹ کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے….
آخر میں ایک دلچسپ واقعہ اور اجازت
یو پی میں انجمن وظیفہ سادات کے نام سے ایک فلاحی تعلیمی ادارہ پچھلے سو سال سے اپنی خدمات دے رہا ہے.. یہ ادارہ ملّت کے ان سادات بچوں کومالی امداد دیتا ہے جو غربت کی وجہ سے اپنی تعلیم کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے.. اس وقت اس ادارہ کے ملک اور بیرون ملک چالیس ہزار کے قریب ممبران ہیں.. جو سال بھراس ادارے کو مالی مدد فراہم کرتے ہیں۔۔
کچھ سال پہلے کشمیر کے سفر کے دوران اس قومی ادارے سے متعلق جموں کشمیر کے سربراہ نے مجھے ایک طویل لسٹ فراہم کی، یہ لسٹ پونچھ سے متعلق ان طالب علموں کے بقایہ جات کی تھی جنہوں نے علیگڑھ، لکھنو، دہلی، حیدراباد اور الہ آباد کے علاقوں کے اسکولوں، مکاتب، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران اس ادارے سے لگاتار ماہانہ وظیفے کی صورت میں مالی امداد لی تھی.. ایک وقتی لون کی صورت…. یہ وظیفہ اس شرط پر لیا گیا تھا کہ تعلیم کے بعد جب وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوں گے، ان کی نوکری لگ جائے گی، تو وہ اپنی سہولت سے اصل رقم ادارہ کو واپس کر دیں گے..اور اگر توفیق ہوئی تو اس کار خیرکے مشن میں مزید مالی مدد بھی فراہم کریں گے.. یہ ادارہ اسی کامیاب تدریسی موڈل کے تحت قوم کولگاتار اپنی خدمات دینے میں مصروف ہے.. ایک طرف سے پیسہ جاتا ہے، دوسری جانب سے پیسہ واپس آتا ہے اور مسکینوں کے بچے پڑھتے جاتے ہیں..
مجھے اس مسلکی فلاحی ادارے کے بقایہ جات کی لسٹ ملی تو بیشتراسٹوڈنٹس کو میں جانتا تھا کہ میرے ہی علاقے کے تھے.. اب ان میں سےکم و بیش سبھی اچّھے اچّھےسرکاری عہدوں پر کام کر رہے تھے، بہترین زندگی گزار رہے تھے.. ڈاکٹر انجنیئرلیکچرارعلامہ استاد وکیل اورپولیس افسر……. ان میں سے چند ایک کی طرف تھوڑا بہت قرضہ بچتا تھا، بہت سے لڑکے بقایہ جات ادارے کو واپس ادا کر چکے تھے….. لیکن ایک بڑی تعداد ایسوں کی تھی جو یہ رقم ڈکار کے بیٹھی ہوئی تھی اور یہ ماننے کو بھی تیار نہیں تھی کہ انہوں نے کبھی یہ وظیفے لئے بھی ہیں
..اس فہرست کو عملانے کے چکر میں ہوا یہ کہ میں درجنوں دوستوں سے اپنے تعلقات خراب کر بیٹھا.. اور آج تک، جب بھی ان سے ملتا ہوں تو الٹا میں ہی شرمندہ ہوتا ہوں.. اور وہ ڈھیٹ جوں کے توں آج بھی اپنی اکڑمیں مست ہیں، اپنی عالیشان کوٹھیوں میں بیٹھے ہوئے..
..اجازت……. دوستومیری اس تحریرکا مقصد کسی کی دل آزاری نہیں، حالیہ دنوں میں "سرسید ڈے” کے عنوان سے منعقد تقریبات کے حوالے سے محض ایک فوری تاثر ہے میرا .. کہ میں سرسید مرحوم کے نام سے منسوب ان پروگراموں سے بہت دل شکستہ اور دل برداشتہ ہوں اور چاہتا ہوں کہ علامہ سرسید کی اس عالمی اور عملی اجتہادی تحریک کی روح کو سمجھا جائے اور کمال نیک نیّتی اور ایمانداری سے سرسید کے نقش قدم پر چلا جائے..نا کہ ان بےاثراور بے سود تقریبات کے چولھےپراپنے مطلب کی بے سواد روٹیاں سینکیں جائیں…….شکریہ۔