راجوری کے تین نوجوانوں کیلئے انصاف کی لڑائی لڑنے والے 2جرأتمندچہرے

0
0

یہ لڑائی لڑونگا،خودسے وعدہ کرلیاتھا:گفتارچوہدری ان کا کیا قصور تھا اور انہیں کیوں مارا گیا؟:صائمہ چوہدری
لازوال ڈیسک

راجوری؍؍ضلع راجوری میں اس وقت قیامت صغرا بپا ہوئی جب اٹھارہ جولائی کو شوپیان ضلع کے امشی پورہ مبینہ فرضی انکائونٹر میں مارے جانے والے تین نوجوانوں کی نعشیں ان کے آبائی علاقہ میں پہنچی ۔اٹھارہ جولائی کو امشی پورہ میں فوج نے ایک انکائونٹر کا دعویٰ کیا جس میں تین غیر شناخت دہشت گرددوں کو مار گرانے کا دعویٰ بھی کیا ۔کئی دنوں تک اس انکائونٹر کا معاملہ خاموش رہا اور ایک دن تینوں نوجوانوں کے لاپتہ ہونے کی خبریں گردش کرنے لگی ۔ سرحدی ضلع راجوری سے تین چچیرے بھائی ابرار (25) ، امتیاز (22) اور ابرار (16) پیر پنجال کے خوبصورت پہاڑوں کو عبور کرتے ہوئے شوپیاں ضلع میں مزدوری کرنے پہنچے تاکہ وہ اپنے گھریلو اخراجات کو پورا کر سکیںلیکن یہ جانے بغیر کہ وہ کبھی بھی اپنے کنبوں میں واپس لوٹ کر نہیں آئیں گے۔امشی پورہ انکاؤنٹر تقریباً ایک ماہ بعد 10 اگست 2020 کو عوام حلقوں میں چرچہ کا سبب بنا۔خطہ پیر پنجال کے دو سماجی کارکنان جنہوں نے راجوری کے تین نوجوانوں کے جسد خاکی کو واپس اپنے آبائی علاقہ میں لانے کیلئے ایک مہم چھیڑی اور اس کامیابی کو حاصل کرنے کیلئے انہوں نے انتھک کاوشیں بھی کیں ۔راجوری میں مقیم ایک سماجی و سیاسی کارکن گفتار احمد پہلے شخص تھے جنہوں نے یہ خبر سننے کے بعد کہ تین نوجوان لا پتہ ہوئے ہیں ،ان کے کنبوں سے رابطہ کیا ۔انہوں نے ان نوجوانوں کی گمشدگی کی رپورٹ درج کروائی اور گفتار نوجوانوں کی تلاش کے لئے ایک ضلع سے دوسرے ضلع گے ۔اس دوران میڈیا کی وساطت سے یہ خبر ہر جگہ چرچہ کا مرکز بننے لگی تو52 دن کے بعد جب ڈی این اے کی رپورٹ آئیں جو ان نوجوانوں کے لواحقین سے مل گئیں اور اب باری آئی شہید نوجوانوں کی لاشوں کو ان کی آخری رسومات کے لئے حاصل کرنے کی جس کیلئے انتظامیہ سے رجوع کیاگیا ۔اس سلسلے میں  دے ’کشمیریت‘ سے گفتگو کرتے ہوئے گفتار نے کہاکہ ’میرے ذہن میں تھا کچھ بھی مجھے ہو سکتا ہے لیکن اس لڑائی کو انصاف کے لئے لڑنا تھا۔گفتار نے کہا ہر روز ہم تقریباً60 کلومیٹر کے فاصلے پر اہل خانہ اور اس کے بعد انتظامیہ سے ملاقات کرتے تھے اور یہ ہمارا روزمرہ کا معمول بن گیا تھا۔انکا مزید کہنا تھا کہ بہت سارے سیاسی نیتا سیاست کرنے کوشش کر رہے تھے لیکن میں نے انہیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی اور کسی ایک نمائندے نے بھی اہل خانہ سے ملاقات نہیں کی کیونکہ ہر شخص خوفزدہ تھا لیکن میں نے مؤقف اختیار کیا اور یقین دلایا کہ میں یہ لڑائی لڑوں گا۔نوجوانوں کے اہل خانہ مجھ سے بالکل ناواقف تھے لیکن جس دن مجھے معلوم ہوا کہ تین لڑکے مارے گئے ہیں میں پوری رات نہیں سویا۔ اس رات میں نے خود سے وعدہ کیا تھا کہ میں ان کے لئے لڑوں گا۔اس ضمن میںآزاد میڈیا کی جانب سے دکھائے جانے والے مثبت تعاون کی تعریف کرتے ہوئے گفتار نے کہاکہ تقریباً تین ماہ کے اس پورے عرصے میں میڈیا واقعتا معاون ثابت ہوا۔انصاف کیلئے اس جد و جہد میں صائمہ چوہدری جوایک طالب علم ہیں نے ’کشمیریت ‘سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شوپیاں فرضی انکاؤنٹر کی خبر ہر کسی کیلئے ایک دھچکا تھی لیکن ذاتی طور پر مجھے اس کا بڑا دکھ تھا اور میرے ذہن میں یہ سوال تھا کہ ان کا کیا قصور تھا اور انہیں کیوں مارا گیا؟ٹویٹر پر سرگرم صائمہ جو شہید ہونے والے تینوں نوجوانوں کو انصاف فراہم کرنے کا مطالبہ کررہی ہیں نے کہا بین الاقوامی میڈیا اور ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے ان بے گناہوں کی ہلاکت کی مذمت کی لیکن راجوری سے ایک جرات مند اور مضبوط سماجی کارکن گفتار احمد چودھری مددگار ثابت ہوئے جو متاثرین کے لواحقین کے لئے ان کی آواز بن گئے اورتمام تر مشکلات کے باوجود ان کے ساتھ کھڑے رہے ۔صائمہ نے کہاکہ میں ایک طالب علم اور ضلع پونچھ کی رہائشی ہونے کے ناطے ٹویوٹر پر # جسٹس فار راجوری وکٹمس‘ کی مہم اپنے ٹویٹر ہینڈل کے ذریعے چلاتی رہی اور ٹویٹر واقعتا بہترین ذریعہ تھا جس پر میں اپنی سوچ کا اظہار کرسکتی تھی ۔صائمہ نے ضلع پونچھ کی تحصیل سرنکوٹ کے سیلاں کے قتل عام کے بارے میں بھی بات کرتے ہوئے کہاکہ ’شوپیاں فرضی انکائونٹر ‘نے ’سیلاں قتل عام‘کے زخم تازے کر دئے جہاں 3 اگست 1998 کی رات کو 19 افراد ، جن میں گیارہ بچے اور پانچ خواتین (ایک حاملہ) خاتون بھی تھی کو پونچھ ضلع کی تحصیل سرنکوٹ کے سیلاںمیں اپنے گھر میں گولیاں مار کر ہلاک کردیا تھا۔انہوں نے کہا کہ سیلاں قتل عام کے بارے میں نومبر 2012 میں ہائی کورٹ نے سی بی آئی کے ذریعہ اس معاملے کی دوبارہ تحقیقات کا حکم دیا لیکن ابھی تک اس کیس میں 22 سال گزرنے کے بعد بھی کچھ نہیں ہوا جبکہ متاثرہ کنبہ ابھی تک انصاف کا منتظر ہے۔نوجوان طالب علم کارکن کا کہنا تھا کہ جب ایک مہینے کے بعد بھی شوپیاں انکائونٹر میں ڈی این اے کی خبروں کا کوئی نشان نہیں ملا تب گھبراہٹ ہونے لگی کہ بائیس سال بعد تاریخ دہرائی جائے گی لیکن ڈی این اے کے بعد پریشان کن خاندانوں نے اپنے بیٹوں کی آخری رسومات ادا کرنے کیلئے جد و جہد جاری کی ۔انہوں نے کہا کہ واقعی یہ لڑائی کشمیری صحافیوں کے بغیر ممکن نہیں تھی جنھوں نے کہانی کے ہر حصے کا احاطہ کیا اور حقیقت کو سامنے لایا جو قابل داد ہے۔انہوں نے کہا کہ ان شہیدوں کی یادیں گونجتی رہیں گی ۔ (بشکریہ دے کشمیریت)

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا