انوارالحق قاسمی نیپالی
ڈائریکٹر :نیپال اسلامک اکیڈمی
جب سے” بی جے پی” کی حکومت برسراقتدار آئی ہے، اس وقت سے ہندو مسلم کے مابین بہت ہی دوری ہو نےلگی ہے اور ہر ہندو مسلمانوں کو اپنا جانی و مالی دشمن خیال کرنے لگا ہے۔متعصب ہندو افراد ہر روز کسی نہ کسی صوبہ میں ایک نہ ایک معصوم عن الخطا مسلمان کو فرضی اور کسبی جرائم کی پاداش میں اس وقت تک اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنائے رکھتے ہیں، جب تک کہ اس کی روح قفس عنصری سے پرواز نہیں کر جاتی ہے، ہندو مسلم کے مابین دوری کی اس سے بڑی اور کیا دلیل ہو سکتی ہے؟۔
اسی طرح اس کی حکومت میں جو جسے اور جب چاہتا ہے دھمکی دیتا ہے اور افسوس کہ اس کے خلاف کوئی کاروائی بھی نہیں ہوتی ہے، جس کی وجہ سےظالموں کاظلم آئےدن بڑھتے ہی جا رہا ہے ،اوراب تو عدلیہ بھی ظالموں کے ظلم کے فروغ میں ایک اہم رول اداکررہی ہے ،نیزحکومت و عدلیہ بھی اب یہی چاہتی ہےکہ مسلمانوں پر خوب ظلم و ستم ڈھائے جائیں۔اورمسلمانوں پر ہر چہار جانب سے یلغاریں ہوں اور مسلمانوں کو ظلم و ستم کی چکی میں خوب پیساجائے ،تاکہ انہیں حکومت وعدلیہ کے خلاف کچھ بولنے کی جرأت بھی نہ ہو،اور وہ غلامانہ زندگی جینے پر مجبور ہوجائیں۔
یہی وجہ ہے کہ اب ہندوستان میں نہ ہی مسلمانوں کی جانیں محفوظ ہیں، نہ عزتیں، نہ اموال اور نہ ہی مساجد ومدارس اور خانقاہیں،الغرض سب کچھ غیرمحفوظ ہیں۔
ہر ملک میں ملک سے ظلم وستم کے خاتمے اور ظالم مظلوم کے مابین عدل و انصاف کے قیام کے لیے عدلیہ کا قیام عمل میں آتا ہے اور عدلیہ اسی وقت تک عدلیہ کہلانے کا حق رکھتا ہے،جب تک اس کے ذریعے عوام الناس کوان کے ہر معاملے میں عدل و انصاف ملے اور وہ عدل و انصاف کو اپنا فرض منصبی بھی سمجھتی ہو، نیز اس کے ذریعے ملک میں امن و امان بھی قائم رہے ؛مگر جب عدلیہ ہی خود عدل و انصاف کا جنازہ نکالنے لگے اور ملک میں بدامنی کی فضا قائم کردے،تو پھر ملک میں ظلم و ستم ایک عام سی بات نہیں ہوگی، تو پھر اور کیا ہوگی؟۔
ابھی حال ہی میں یعنی 30 /ستمبر 2020ء کو مسلمانوں کے ساتھ بڑا ظلم و ناانصافی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سی بی ائی کی خصوصی عدالت نے 28/سالہ قدیم مقدمہ بابری مسجد انہدام کے تمام ہی ملازمین کو معصوم عن الخطا قرار دے کر بری کر دیا ہے۔
سی بی ائی کی خصوصی عدالت نے ان 32/ ملزمین کو یہ کہتے ہوئے بری کردیا ہے:کہ ان کے خلاف ٹھوس ثبوت فراہم نہیں ہوسکے ہیں ،انہوں نے مسجد انہدام کے لیے مشتعل ہجوم کو روکنے کی کوششیں کی تھیں،سی بی آئی کے ذریعہ فراہم کردہ آڈیواور ویڈیو ریکارڈنگ کی صداقت ثابت نہیں ہوسکی ہے اور یہ بھی کہا:کہ مسجد کی شہادت پہلے سے منصوبہ بند نہیں تھی، یعنی کسی منصوبے کے تحت مسجد کو شہید نہیں کیا گیا تھا، جج ایس کےیادو نے کہا :کہ یہ ایک حادثاتی واقعہ تھا اور حتمی تجزیہ یہ ہے کہ سماج دشمن عناصر نے مسجد کا ڈھانچہ شہید کیا تھا، جب کہ ملزمین انہیں ہجومی اشتعال سے روکنے کی کوششیں کررہے تھے؛ اس لیے یہ ملزمین مجرم نہیں؛بل کہ خیرخواہ ہوئے،(30/ستمبر 2020ء،سماج نیوزسروس ایجنسیاں)۔
جب کہ یہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اصل ملزم و مجرم یہی لوگ ہیں، دنیا اچھی طرح جانتی ہے کہ دن کی روشنی میں مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ بابری مسجد کو شہید کیا گیا، دنیا نے یہ بھی دیکھا کہ کن لوگوں نے اللہ کے گھر کی بے حرمتی کی اور اسے زمین بوس کردیا، ایسا بھی نہیں ہے کہ ان کے ملزم ہونے کی دلیلیں موجود نہیں ہیں؛ بل کہ آج بھی ویڈیو میں ان کی تصویریں دیکھی جا سکتی ہیں، شاید اسی لیے تو ملکی اور بین الاقوامی میڈیا نے ان کے ویڈیو بنا لیے تھے،کہ کہیں ان کے حامین انہیں معصوم قرار دے کر ان کی رہائی کا اعلان نہ کردے اور ایسا ہی ہوا بھی کہ سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے بالآخرسارےحتمی براہین کونظر انداز کرتےہوئے،رکیک ولچر تاویلات کے ذریعے انہیں معصوم قرار دےکررہائی کااعلان کرہی دیا۔
جب کہ 9/نومبر 2020ء کو عدالت عظمی سپریم کورٹ کی پانچ رکنی آئینی بینچ نے بابری مسجد -رام جنم بھومی حق ملکیت پراپناجانب دارانہ اور غیر منصفانہ فیصلہ رام مندر کےحق میں سناتے وقت ،چند حقائق و شواہد کا کھلے لفظوں میں اعتراف بھی کیا تھا ،وہ حقائق وشواہد مندرجہ ذیل ہیں: وہ اعتراف یہ تھا کہ اجودھیامیں سن 1528ء میں ظہیر الدین بابر کے حکم سے ان کے کمانڈر میر باقی نے خالی جگہ میں بابری مسجد تعمیر کیا تھا، وہاں کسی طرح کا کوئی مندر نہیں تھا ،22/ 23/ دسمبر کی رات میں بابری مسجد میں مورتیوں کا رکھناغیرقانونی اور مجرمانہ عمل تھا،جن لوگوں نے جن کے اشاروں سے بابری مسجد کی عزت وحرمت کو تار تار کیا ،ان تمام کو اس کی پاداش میں کیفر کردار تک پہنچانا چاہیے تھا، اسی طرح 6/دسمبر 1992ء کو بابری مسجد شہید کرنا، کسی بھی طرح صحیح نہیں تھا،ان ظالموں نے بابری مسجد شہید کرکے دین اسلام، مسلمان اور شعائراللہ کا مذاق اڑایا ،یہ ظلم بھی ناقابل برداشت تھا۔ اسی طرح ہندوؤں کا ایک دعوی یہ بھی تھا کہ یہاں پہلے سے مندر تھا، جسے توڑ کر بابری مسجد تعمیر کی گئی تھی، اس دعوٰی بےبنیاد کو بھی عدالت عالیہ نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ بابری مسجد کی داغ بیل خالی جگہ میں ڈالی گئی تھی، وہاں کبھی بھی کسی طرح کا کوئی مندر نہیں تھا۔نیز ان کاایک دعوٰی یہ بھی تھاکہ آثارقدیمہ کی کھدائی میں کچھ ایسےڈھانچےبھی دستیاب ہوئےتھے،جن سےصاف معلوم ہوتا تھا کہ پہلےوہاں مندرتھا،جسےتوڑ کربابری مسجد بنائی گئی تھی ،سپریم کورٹ نے ہندوؤں کےاس باطل دعوٰی کوبھی یہ کہہ کر ردی کی ٹوکری میں ڈال دیاکہ آثار قدیمہ کی کھدائی میں کوئی ایک بھی ایساڈھانچہ نہیں مل سکا،جس سے یہ دعوٰی قائم کیاجاسکے کہ "بابری مسجد "کی جگہ پہلے”مندر”تھا،جسےمنہدم کرکےبابری مسجد بنائی گئی تھی ۔
یہ چندحقائق ہیں ،جن کاعدالت عظمی نےاقرار کیاہے اور ان سےہرہندوستانی خواہ وہ مسلم ہویامشرک بخوبی واقف ہے ؛بل کہ میں تویقین کامل کےساتھ کہتاہوں کہ سی بی آئی کی خصوصی عدالت کےجج صاحبان بھی بباطن ان ہی 32/شرپسند افراد کوبابری مسجدانہدام کےاصل مجرم تسلیم کرتےہوں گے؛مگر پھر بھی یقینی شواہد ودلائل سےپہلوتہی اختیار کرتےہوئے سی بی آئی کی خصوصی عدالت کامن چاہی فیصلہ صادر کرنا،انتہائی افسوس ناک ہے اور ظلم وستم پرمبنی حیران کن یہ فیصلہ جمہوری اور سیکولر ملک کےلیے ایک بدنما داغ ہے ۔
مجھےحیرانی اس بات کی ہے کہ بابری مسجد انہدام کا مقدمہ ایک ایسامقدمہ ہے ،جس کےحقیقی ملزمین کی شہادت ہربیناشخص دیتاہے؛حتی کہ بعض ملزمین بھی گاہے بگاہے خود اقرار جرم بھی کرچکےہیں کہ واقعی بابری مسجد انہدام کےاصل مجرم ہم ہی ہیں اور عدالت عالیہ کےحقائق کےاعتراف سے بھی یہی معلوم ہوتاہے کہ اس کےنزدیک بھی اس کےحقیقی مجرم یہی 32/افراد ہیں ،پھر بھی سی بی آئی کی خصوصی عدالت کاحقائق کےخلاف فیصلہ سنانا،چند بڑے اور اہم سوالات ضرور پیداکرتاہے۔
بالفرض ہم مان بھی لیتےہیں کہ یہ 32/افراد ملزم نہیں ہیں، توپھر بالآخر اس کےملزم کون ہیں؟کیابابری مسجد خود بخود شہید ہوگئی تھی؟اگر خود بخود شہید ہوگئی تھی تواتنابڑاہنگامہ کیوں بڑپاہواکہ بابری مسجد کی جگہ پہلے رام مندرتھا؟اور پھرظلمانہ فیصلے کےذریعے اس پراب قابض بھی ہوگئے۔
کیاسی بی آئی کی خصوصی عدالت نےعدالت عظمی پریہ الزام عائدنہیں کیاکہ اس نے جوبابری مسجد شہادت کےچند حقائق وشواہد کااعتراف کیا،وہ غلط تھا؟اور سی بی آئی کی خصوصی عدالت کاسپریم کورٹ پریہ الزام عائد کرنا،قطعی درست نہیں ہوسکتاہے؛کیوں کہ سپریم کورٹ نے ایسےحقائق کااعتراف کیاہے،جن سے ہرشخص اچھی طرح باخبر ہے،ان کاانکاردرحقیقت ایساہی ہے کہ کوئی دن کےاجالے میں کہے:کہ یہ دن نہیں؛ بل کہ رات ہے۔
اسی سے یہ سوال بھی پیدا ہو گیا کہ جب حقائق کی روشنی میں ملزمین کی شناخت یقینی تھی، تو پھر کیوں سی بی ائی کی خصوصی عدالت نے سارے براہین کا انکار کرتے ہوئے ایک ظالمانہ فیصلہ سنایا؟کیا عدالت کامعنی ظلم کرنا ہے؟ اگر ظلم ہی کرنا ہے،تو پھر عدالت کیسے؟۔
یقینا سی بی ائی کی خصوصی عدالت اپنے اس ظالمانہ فیصلے کے ذریعے ملک میں ظلم و ستم کی مختلف راہیں کھول دی ہے،اس فیصلہ کواگر سراپاظلم ہی کہہ دیا جائے،تو کوئی غلط نہیں ہوگا،اس لیے اس فیصلے کی جس قدر بھی مذمت کی جائے بہت ہی کم ہے۔
اس ظالمانہ فیصلہ کےتناظرمیں چند بڑے مذہبی اور سیاسی قائدین کے اقوال پیش خدمت ہیں: آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سیکریٹری حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب نے کہا: کہ یہ ایک بے بنیاد فیصلہ ہے، جس میں شہادتوں کو نظر انداز کیا گیا ہے اور قانون کابھی پاس ولحاظ نہیں رکھا گیا ہے، مولانا نے کہا: کہ یہ فیصلہ اسی ذہنیت کا آئینہ دار ہے ،جوذہنیت حکومت کی ہے اور اس کا اظہار بابری مسجد کیس میں سپریم کورٹ کے ججوں نے کیا تھا،مولانا نے مزید کہا:کہ لوگوں کویادہوگا کہ بابری مسجد کی شہادت کے عظیم حادثہ کے بعد ملک میں فرقہ وارانہ تعصب کی لہر چل پڑی اوربڑے پیمانے پر مسلمانوں کے جان ومال کانقصان ہوا۔
سی بی آئی کی خصوصی عدالت کایہ فیصلہ مسجد کی شہادت کی ذمہ داری کسی پرنہیں ڈالتا،توکیاوہ سارامجمع اورسارے لوگ جو بی جے پی میں بہت بڑی حیثیت کےمالک رہے ہیں،مسجد کوشہید نہیں کیا؟یاکسی غیبی طاقت نے مسجد کی عمارت کونیست ونابود کردیا؟یقینایہ فیصلہ ناانصافی کی تاریخ میں ایک مثال کی حیثیت سے پیش کیا جائے گا ۔
جمعیت علمائے ہند کے صدراور دارالعلوم /دیوبند کےاستاذ حدیث حضرت مولانا سیدارشدمدنی صاحب نےکہا:کہ سی بی آئی کورٹ یہ کہہ رہی ہےکہ ان 32/ملزمین کاکوئی قصور نہیں ہے اور یہ باعزت بری کیےجاتےہیں،عقل حیران ہے کہ اس کوکس چیز سے تعبیر کیاجائے،اس فیصلے کوکس نظریہ سےدیکھاجائے ،کیااس فیصلہ سےعوام کاعدالت پراعتماد بحال رہ سکےگا؟۔
مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن اوربابری مسجد ایکشن کمیٹی کے کنوینر ایڈوکیٹ ظفریاب جیلانی نےکہا:کہ ایک بارپھرمسلم فریق کوانصاف نہیں ملا،عدالت جن ویڈیو اور آڈیوکوثبوت نہیں ماناہے،وہی اصل میں ثبوت ہیں، ہمارے پاس متبادل موجود ہے،ہم صلاح و مشورہ کرکےہائی کورٹ کارخ کریں گے ۔
جمعیت علمائے ہند کےجنرل سکریٹری حضرت مولانا محمودمدنی صاحب نے کہا:کہ سی بی آئی کورٹ کایہ فیصلہ انتہائی تشویش ناک ہے؛ کیوں کہ جہاں ایک طرف اس سے فسطائی عناصرجوکہ دیگر مساجد کوبھی اپنےظلم وستم کانشانہ بناناچاہتےہیں،انہیں شہ ملےگی اور ملک میں امن وامان کوزبرست خطرہ لاحق ہوگا،تووہیں دوسری طرف اقلیتوں اورکمزورطبقات کےدرمیان مایوسی پھیلےگی اورعدالتوں پراعتماد میں کمی آنے کےباعث بہت سارے تنازعات پرامن طریقے سےحل کیےجانےکےبجائےزورزبردستی اورتشدد کےذریعے طےکرنےکارواج قائم ہوگا۔