اُستاد کا مقام و مرتبہ: دلائل کی روشنی میں

0
0

رابطہ: مدثر شمیم
سرہامہ، اننت ناگ ، کشمیر 9797052494))
mudasir2041@gmail.com

دنیا میں اس وقت مختلف تاریخوں میں مختلف دن منانے کا عام رواج چل پڑا ہے، صرف اسی ایک تاریخ میں اس دن سے منسوب شخصیت کے احترام و عقیدت کے گن گائے جاتے ہیں، اور اظہارِ خوشی و مسرت کیا جاتا ہے ۔ چناں چہ ہمارے ملک میں ۵ ستمبر کو ’’ یومِ اساتذہ‘‘ کے نام سے منایا جاتا ہے۔ اُستاد بلا شبہ عظیم ہستی اور انسانیت کی محسن ذات ہے، استاد کی بڑی شان اور عظمت ہے، دنیا نے چاہے استاد کی حقیقی قدر و منزلت کا احساس کیا ہو یا نہ ہو لیکن اسلام نے بہت پہلے ہی اس کی عظمت کو اجاگر کیا، اس کے مقامِ بلند سے انسانوں کو آشنا کیا اور خود اس کائنات کے عظیم محسن سیدنا محمد رسول اللہﷺ نے طبقۂ اساتذہ کو یہ کہہ کر شرف بخشا ہے کہ ’’میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں ‘‘۔
اُستاد فارسی زبان کا لفظ ہے ۔اس کے معنی معلم، پڑھانے والا، سکھانے والا، معمار قوم وغیرہ سے واضع ، مطلب یہ ہوا کہ یہ ضروری نہیں کہ جس نے کتابیں پڑھائی ہوں اسی کو استاد کہتے ہیں بلکہ کسی بھی قسم کا ہُنر سکھانے والے سیکھنے والے کا اُستاد ہوتا ہے ۔سماجی بہتری کرنے والے یا قوم کو درست باتیں بتانے والے یا کسی قسم کا ہُنر سکھانے والے کو بھی اُستادکہا جاتا ہے۔ یاد رکھو اُستاد کا درجہ بہت بلند ہوتا ہے۔ یہ باپ کا درجہ رکھتا ہے۔ لفظ اُستاد خاص طور سے پڑھانے والے کیلئے مشتمل ہوتا ہے ۔ اس لئے ایک اچھے استاد کو سنجیدہ، با اخلاق، پُر خلوص، دیانتدار اور صاحب علم ہونا بہت ضروری ہے۔ بقول شاعر ؎
گلشنن پیٹھ راج کرنُک حق چھ تمنے بُلبلن
گٹہِ منز یِم گاش ہاوَن ألی پننی زألی زألی
واو صُبحک تہ مدرسُک وستاد یم چھہ دشوے کارگر
واو پھلراوان گُلن وستاد وزناوان دِلن
تاریخی حقائق گواہ ہے کہ نئی نسل کی تعمیر وترقی، دنیائے انسانیت کی نشو و نما، معاشرے کی تعمیر و تشکیل اور فرد و بشر کی فلاح و بہبود میں ایک کامیاب معلم اور با کمال استاد کا جتنا بڑا مقام ہوتا ہے شاید کہ کوئی اس درجے کو پاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلم انسانیت اور استاد کل سے پکارا گیا کیونکہ استاد حقیقی باپ سے زیادہ درجے کا حامل اور عزت و شرف میں اللہ کے سوا سبھوں میں ممتاز ہوتے ہیں جنہیں قوم کا حقیقی رہنما اور نسل انسانی کا کامل پیشوا مانا جاتا ہے جس سے علم کا دریابہتا ہے، عمدہ اخلاق کی فضا ہموار ہوتی ہے، امن وامان کا سایہ فگن ہوتا ہے ، حقیقی زندگی کی تازگی اور کامیاب منزل کی نورانی نظر آتی ہے۔
قارئین! استاد کو ہر زمانے میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہاہے۔استاد کی اہمیت اور ان کا مقام و مرتبہ کی ایک خاص وجہ یہ بھی ہے کہ وہ ہماری شخصیت سازی اور کردار سازی میں معاون مدد گار ثابت ہوتا ہے۔ استاد ہر ایک طالب علم کو ویسے ہی سجا اور سنوار کر مزین اور خوبصورت بنا دیتا ہے جس طرح ایک سونار دھات کے مختلف بھکرے ہوئے ٹکڑے کو لڑی میں پرو کر پرکشش اور جاذب نظر بنا دیتا ہے ۔ استاد علم کے حصول کا براہ راست ایک ذریعہ ہے اسلئے انکی تکریم اور ان کے احترام کا حکم دیا گیا ہے۔ استاد کا احترام اسلامی نقطہ نظر سے دو اعتبار سے بڑی اہمیت کا حامل ہے:
۱- ایک تو وہ منبعہ علم ہونے کے ناطے ہمارے روحانی باپ ہوا کرتے ہیں۔ ہماری اخلاقی اور روحانی اصلاح و فلاح کیلئے اپنی زندگی صرف کرتے ہیں۔
۲۔ دوسرا یہ ہے کہ وہ عموماً طلبہ سے بڑے ہوتے ہیں اور مذہب اسلام اپنے سے بڑوں کے احترام کا حکم بھی دیتا ہے۔ ارشاد نبوی ہے ’’من لم یرحم صغیرنا ومن لم یوقر کبیرنا فلیس منا‘‘۔
قارئین! اب ان دلائل کا بھی تذکرہ کر دیتے ہیں جن میں استاد کی تکریم اور ادب کو ملحوظ خاطر رکھنے کا حکم دیا گیا ہے:
۱۔ اسلامی تعلیم میں استاد کی تکریم کا جا بجا حکم ملتا ہے آپ ﷺ کا یہ کہنا’’انما بعثت معلما‘‘ کہ مجھے ایک معلم بنا کر بھیجا گیا ہے اس بات کی بین اور واضع دلیل ہے کہ استاد کا مقام و مرتبہ نہایت ہی بلند و با لا ہے۔
۲۔ آپ جانتے ہیں کہ جبرئیل امین نبی اکرم ﷺ کے آگے زانوئے تلمذ تہہ کر کے آنے والے طلبہ اور اسٹوڈینٹ کو یہ تعلیم دے دی کہ انہیں استاد کے سامنے کیسے بیٹھنا چاہئے، صحابہ کرام نبیؐ کے سامنے ایسے بیٹھتے معلوم ہوتا کہ انکے سروں پر پرندے بیٹھے ہوئے ہوں ۔ یہ حدیث بھی استاد کے مقام و مرتبہ کے اوپر ایک شاندار دلیل ہے۔
۳۔ اللہ تعا لیٰ نے ’’ ویعلمھم الکتاب والحکمۃ‘‘ کہہ کر نبیؐ کی شان بحیثیت معلم بیان کر کے استاد کے مقام و مرتبہ میں چار چاند لگا دیا ہے۔
قارئین! اب ہم آپکے سامنے ملت اسلامیہ کی قابل قدر، قدآور شخصیات کا ذکر کر دیتے ہیں جنہوں نے اپنے اساتذہ کے ادب و احترام کی درخشندہ مثالیں قائم کیں ہیں جو ہمارے لئے مشعل راہ ہیں:
۱۔ حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ میں اسکا غلام ہوں جس نے مجھے ایک حرف سکھایا اگر وہ چاہئے تو مجھے بیچ دے اور اگر چاہئے تو آزاد کر دے یا غلام رکھے۔
۲۔ ایک جگہ ارشاد فرمایا کی بوڈھے مسلمان اور عالم حافظ قرآن ، بادشاہ عادل اور اُستاد کی عزت کرنا تعظیم خداوندی میں داخل ہے۔ اُستاد کے سامنے زیادہ بولنے کے بجائے اس کی بات کو توجہ سے سُنے، اس کے سامنے زیادہ بولنا بے ادبی ہے ۔ کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو ادب کے ساتھ دریافت کر لیجئے۔
۳۔ حضرت حسین ؓ نے اپنے صاحب زادے کو نصیحت کی کہ استاد کی صحبت میں خود بولنے سے زیادہ سیکھنے کی کوشش کرنا۔
۴۔ایک بزرگ نے فرمایا: اپنے اساتذہ کو بُرا نہ کہو ورنہ تمہارے تلامذہ تمہیں بُرا کہیں گے۔
۵۔ امام ربیع فرماتے ہیں کہ اپنے استاد امام شافعیؒ کی نظر کے سامنے مجھ کو کبھی پانی پینے کی جرأت نہ ہوئی، امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ امام مالکؒ کے سامنے میں ورق بھی آہستہ اُلٹتا کرتا تھا تاکہ اس کی آواز اُن کو سنائی نہ دے۔
۶۔ امام ابو یوسفؒ ہمیشہ اساتذہ کیلئے دُعائے مغفرت کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ میں نے جب بھی کوئی نفل یا فرض نماز پڑھی تو اساتذہ کیلئے دُعا ضرور کی۔
۷۔ یوسف بن حسینؑ نے فرمایا کہ ادب سے علم سمجھ میں آتا ہے اور علم سے حکمت حاصل ہوتی ہے ۔
۸۔امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ جس علم سے تکبر پیدا ہو وہ علم جہل سے بھی بدتر ہے ۔
۹۔ اور ہارون رشید کے دربار میں جب کوئی عالم دین تشریف لاتے تو ہارون رشید اس کے استقبال کیلئے کھڑے ہو جاتے۔ اس پر ان کے درباریوں نے اس سے کہا اے بادشاہ سلامت! اس طرح سلطنت کا رعب جاتا رہتا ہے تو ہارون رشید نے جو جواب دیا یقیناً وہ آب زر سے لکھنے کے لائق ہے۔ ’’ آپ نے کہا اگر علماء دین کی تعظیم سے رعب سلطنت جاتا ہے جائے‘‘۔
حدیث میں آیا ہے ’’ اَلعلم الفوق الادب‘‘ ’’ یعنی علم سے بہترادب ہے‘‘ لیکن یہ تب ہو سکتا ہے جب انسان نے علم حاصل کیا ہو۔ آجکل کے نوجوان لڑکے، لڑکیاں اُستاد کے سامنے اسطرح ہنستے ہیں کہ کہنے کی بات نہیں ۔ کیا اُن کو ہم طالب علم کے نام سے پُکاریں گے نہیں کبھی نہیں ۔ کیونکہ اُنہوں نے اپنے آپکو عزت کا مقام نہیں دیا۔ وہ دوسروں کو کیا عزت دیں گے۔ سکندر سے کسی نے پوچھا کہ تم اپنے والد سے زیادہ اُستاد کی عزت کیوں کرتے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ والد، تومجھے آسمان سے زمین پر لانے کی وجہ ہے لیکن میرے اُستاد نے مجھے زمین سے آسمان کی بلندیوں پر پہنچا دیا ؎
اُستاد کی جو کرے گا قدر مکمل
دنیا میں پائے گا وہی مقام افضل
افسوس ہے زمانے کے انقلاب کو جس زمانے نے ٹیلی ویژن ، فون سسٹم ، کیمرہ وغیرہ بنائے اور اُن کو ایسی فلمیں دکھاتے ہیں جس سے اُن کو شرم و حیا میں کمی آگئی اور بڑھتے بڑھتے یہ شرم و حیا نابود ہو گیا۔ جب کسی جگہ پر تماشا یا کوئی شور ہوتا ہے تو لڑکے اور لڑکیاں اکٹھے جا کر دیکھتے ہیں۔ کیا اسی کو حیا کہتے ہیں؟ ایک دن حضرت امام مالکؒ ایک شاگرد کو پڑھاتے تھے۔ شاگرد کون تھا؟ حضرت یحیٰ ؒ تھے۔ وہ دور سے آپ کے پاس پڑھنے کیلئے آتے تھے۔ ایک دن اُدھر سے ایک ہاتھی نکلا۔ سب شاگرد باہر نکل آئے مگر یحیٰ ؒ بیٹھے پڑھتے رہے، اُستاد نے کہا یحیٰ تم کیوں نہیں گئے۔ آپ نے جواب دیا ہم دور سے پڑھنے آئے ہیں ہاتھی دیکھنے نہیں ۔ یہی تھا حیاء اور پڑھنے کا شوق۔
ان تمام دلائل و براھین اور اقوال سلف سے معلوم ہوا کہ استاد کی عزت اور ان کا مقام و مرتبہ امر مسلم ہے جس کا انکار کوئی بھی فرد و بشر نہیں کر سکتا۔ لہذا ہم سبھوں پر واجب ہے کہ ہم اپنے استاد کی عزت کریں ، ان کے ساتھ حُسن سلوک سے پیش آئیں تبھی جا کر ہم ابن تیمیہ اور ابن قیم جیسے امام بن سکتے ہیں۔اللہ ہم سبکو اپنے اساتذہ کا ادب و احترام اور خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور جو اساتذہ دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں، ان کی علمی خدمات کے عوض انہیں جنت میں بہترین انعام و اکرام سے نوازے (آمین) ۔
؎ چھوڈ غلامی ساتھ دو تم اپنے استاد کا
استاد ہی تو رہبر ہے ہمارے قوم کا
نہ گبھراؤ تم اے استاد خدا تمہارے ساتھ ہے
اگر پہنو گے ذنجیرے تو استاد کا نام ساتھ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا