تحریر:حافظ میر ابراھیم
طالب علم
کنزر بارہمولہ
6005465614
تھکی ہے فکر رساں ، مدح باقی ہے
قلم ہے آبلہ پا، مدح باقی ہے
ورق تمام ہوا ، مدح باقی ہے
اورعمر تمام لکھا، مدح باقی ہے
اہل انصاف اس بات کا فہم رکھتے ہیں کہ عصر حاضر میں نکاح کرنا ایک عظیم کاروبار بن گیا ہے.شرعی حدود کی پامالی اپنے عروج پر ہے.نکاح کا مقصد محض جہیز کی قباحت تک محدود رہ گیا ہے.دوسری جانب مہر کے سلسلے میں افراط و تفریط سے کام لیا جارہا ہے.مہر کے سلسلے میں بھی شرعی اصول و ضوابط کا خیال نہ رکھتے ہوئے نوجوان ملت کی جوانی کو داؤ پر لگایا جارہا ہے.دونوں طرف سے استحصال ہورہا ہے.رسم و رواج کی تکمیل کرتے ہوئے غرباء ملت ظلم و تشدد کا شکار ہورہے ہیں.اسراف و تبذیر حد سے تجاوز کرگیا ہے.درحقیقت نکاح کے نام پر جو لین دین کیا جاتاہے وہ سود اور رشوتپ کی شکل اختیار کرچکا ہے.آئیے اور شریعت اسلامیہ کی تعلیمات کی روشنی میں مقصد نکاح کو واضح کریں.
تعریف———
ایجاب وقبول‘‘کے مخصوص الفاظ کے ذریعہ مرد وعورت کے درمیان ایک خاص قسم کا دائمی تعلق اور رشتہ قائم کرنا نکاح کہلاتا ہے، جو دو گواہوں کی موجودگی میں ایجاب وقبول کے صرف دو لفظوںکی ادائیگی سے منعقد ہوجاتا ہے.حالات کے اعتبار سے نکاح کرنے پر مختلف فقہی احکام نافض ہوسکتے ہیں.اگر ایک شخص خود کو گناہوں سے نہ روک پائے تو ایسی صورت میں نکاح کرنا واجب (فرض) ہوجاتا ہے.عام حالات میں یہ ایک خاص سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے.نکاح ہی وہ پاکیزہ رشتہ ہے جس سے انسانیت کی بنیاد رکھی جاتی ہے.تسلسل نسل نکاح ہی کے ذریعہ انجام پاتا ہے.اپنے گفتار و کردار کو زندہ رکھنے کا واحد راستہ نکاح ہی ہے.نکاح سب سے میٹھا اور سب سے پرسکون رشتہ ہے کیونکہ رب ذوالجلال نے ہی نکاح کو باعث تسکین بنایا ہے.نکاح وہ رشتہ ہے جس کی بنیاد محبت ,وفا اور عزت پر رکھی جاتی ہے.اس محبت ,عزت اور وفا کی زندہ مثال دیکھنی ہو تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کیا جائے.نیز یہ کہ نکاح کرنا سنت انبیاء ہے.
مقصد—————–
(1)پاکدامنی————نکاح کا بنیادی مقصد تحفظ عفت و عصمت ہے.پاکدامنی اللہ کی سب سے عظیم ترین نعمت ہے جو ایک بار چھن جائے تو واپس نہیں مل سکتی.عصر حاضر میں جوں جوں نکاح کو سخت بنایا گیا ,کردار بھی اتنے ہی داغدار ہوئے.کردار مختلف طریقوں سے ضایع ہوسکتا ہے.لواطت,خود لذتی,ناجائز تعلقات,ہم جنس پرستی,خلوت کی بے حیائی وغیرہ.اب دیکھئے فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم”اے جوانو!تمہیں نکاح کرلیناچاہیے، کیونکہ یہ نگاہ کو زیادہ جھکانے والا اور شرمگاہ کی زیادہ حفاظت کرنے والا ہے،اور جو اس کی طاقت نہ رکھے وہ روزے رکھے”.(صحیح بخاری ,کتاب النکاح) ہائے افسوس! شرط و شروط کے چکر میں ہم نے اپنے بچوں اور بچیوں کی جوانی تباہ کی. حسب و نصب ,مالداری,بنگلے,جائداد,گاڑیاں نکاح کے بنیادی شروط بن چکے ہیں.عجیب تماشہ ہے والدین موجودہ حالات سے واقف ہونے کے باوجود خواب خرگوش میں سوئے ہوئے ہیں. نسلوں کا تحفظ پاکدامنی میں چھپا ہوا ہے.میرے غیور بزرگو! اپنے بچوں کی فحش کاری کے ذمہ دار نہ بنو.آنکھوں کا جھکاؤ,شرمگاہ کی حفاظت,خواہشات کی تکمیل نکاح کرکے حلال طریقے سے ہی ممکن ہے جس کی تاخیر انسان کو غلط راہوں کی طرف لے جاسکتی ہے.انصاف سے کام لو.علماء بیان کرتے ہیں کہ "بیشتر وہ لوگ جو نکاح کی استطاعت رکھتے ہوئے بھی نکاح نہیںکرتے، ان کے ذہن میں ہمیشہ زنا کاری کا لاواپکتا رہتاہے اور زنا انسان کو یقینی طور پر ایمان سے کوسوں دور لے جاتا ہے ۔ اب جو مسلمان شادی نہیں کرتا، وہ درحقیقت اپنے دین کو بھی داؤ پر لگاناچاہتا ہے۔ نکاح کے ذریعہ ان سب مسئلوں سے نجات ہے۔ اور اگر واقعی کوئی مجبوری ہے اور اصل تدبیر ’’نکاح‘‘پر عمل نہیں کرسکتا تو پھر یہ علاج ہے جو حدیث شریف میں بیان ہوا ہے کہ آپ ا نے اس کے بدل یعنی’’روزے‘‘ کو اختیار کرنے کا ارشاد فرمایا، کیونکہ روزے سے نفسانی شہوت ٹوٹ جاتی ہے۔ ”
(2)غربت کا علاج————
اے اہل انصاف! ذرا عدل سے کام لو .نبوی عہد میں نکاح کی برکت سے غربت دور کی جاتی تھی لیکن موجودہ ایام میں غربت کی وجہ سے قطع رحمی کی جاتی ہے.غربت کا علاج جہیز کی نحوست سے نہیں ہوتا ,غربت کا علاج حرام کمائی سے نہیں ہوتا,غربت کا علاج منشیات کا کاروبار کرنے سے نہیں ہوتا بلکہ حصول تقوی کی نیت سے اگر نکاح کیا جائے تو اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ اپنے فضل و کرم سے غنی عطا کرے گا نہ کہ جہیز کی نجاست سے.جہیز وہ قباحت ہے جس نے غریب گھر کی لڑکیوں کو غلط راہوں کا رخ کرنے پر مجبور کردیا.اے اہل دولت! کوئی بھی کام کرنے سے پہلے شرعی حدود اور معاشرے (society) کا خیال رکھو.تم اللہ کی بارگاہ میں جواب دہ ہو.غریبوں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنی حیثیت سے باہر نکل کر اس گندگی میں نہ پڑیں.ہر کوئی اپنی اپنی جگہ غلط ہے جس کی تصحیح لازم ہے.فرمان باری تعالی ہے کہ "’جو بے نکاح ہوں خواہ وہ خواتین ہوں کہ مرد انکا نکاح کرادوجونیک ہوں خواہ وہ تمہارے غلام ہوں کہ باندیاں اگروہ مفلس ہونگے تو اللہ سبحانہ ان کو اپنے فضل سے بے نیاز فرما دیگا،اللہ سبحانہ وسعت وکشائش رکھنے والا اورجاننے والا ہے‘‘ (النور/۳۲)اللہ کی یہ آیت مبارکہ جہیز کے تصور کو ہی مٹا دیتی ہے.
(3)فتنوں سے بچاؤ———–فتنے مختلف طریقوں سے مزین ہوکر آتے ہیں.بے پردگی کا فتنہ,عریان لباس کا فتنہ,عریان تصاویر کا فتنہ,فحاشی پر مبنی پروگرامز کا فتنہ وغیرہ.بچاؤ کا واحد راستہ نکاح ہے.فرمان ابن مسعود رضی اللہ عنہ ہے کہ "اگر میری زندگی کے صرف دس روز رہ جائیں، تب بھی میں شادی کرلینا پسند کروں گا، تاکہ غیر شادی شدہ حالت میں اللہ کو منہ نہ دکھاؤں”.نکاح کوئی کاروبار نہیں بلکہ دو گھروں,دو خاندانوں,دو نفسوں کا میل ہے.نکاح جتنا سادگی سے کیا جائے اتنا ہی حصول برکت ممکن ہے.یہ سادگی مہر میں بھی ہونی چاہئے اور دیگر چیزوں میں بھی.بعض بااخلاق اور دیندار نوجوان ایسے بھی ہیں جو اپنی استطاعت کے مطابق مہر ادا کرسکتے ہیں لیکن مروجہ خرافات کی وجہ سے مہر ادا کرنا بھی ایک آزمائش بن کے رہ گیا.جو نوجوان لاکھوں میں مہر ادا نہیں کرسکتے کیا ان کو جینے کا کوئی حق نہیں؟ یہ سؤال ہے اہل دل کے نام.
(4)باعث سکون———-عصر حاضر میں ہمارے گھر جل رہے ہیں,گھروں میں رہنا ایک عذاب سا بم گیا ہے.ہمارے گھر قبرستان بن گئے ہیں.اسکی دو وجوہات ہوسکتی ہیں.گھر میں پڑے بے نکاح نوجوان یا عبادت الہی سے دوری.نکاح خود ایک عظیم عبادت ہے جس کے اصل مقصد سے ہم محروم ہوچکے ہیں.میاں بیوی ایک دوسرے کے لئے لباس کی مانند ہیں.لباس سترپوشی کا کام بھی دیتا ہے اور حفاظت کا بھی.تسکین قلب نکاح کے بنیادی تقاضوں میں سے ایک تقاضہ ہے.فرمان ابن عباس رضی اللہ عنہما ہے کہ "اگر میری زندگی کے صرف دس روز رہ جائیں، تب بھی میں شادی کرلینا پسند کروں گا، تاکہ غیر شادی شدہ حالت میں خدا کو منہ نہ دکھاؤں”. نکاح کی بنیاد محبت,عزت,وفا,ہمدردی,نرمی,رفق اور سوچ (understanding) پر مبنی ہے.جبراً نکاح درست نہیں.عبادات میں دل نہ لگنا,چہرے کی چمک غائب ہوجانا ,جسم کی طاقت ضایع ہوجانا نکاح میں تاخیر کے نقد نتائج ہیں.اپنے ہمسفر کے ساتھ ہنسی مذاق کرنا,سیر و تفریح کرنا,کھیلنا,ہنسنا اور ہنسانا عظیم سنت مطہرات ہیں.نکاح سے پہلے سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ لازمی ہے.نکاح کی راہ ہموار کیجئے تاکہ معاشرے میں توازن قائم ہوجائے.
(5)تکمیل ایمان————–
فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ "جس شخص نے شادی کرلی اس نے آدھا ایمان پورا کرلیا لہذا اسے چاہئے کہ باقی آدھے میں اللہ تعالی کا تقوی اختیار کرے”.(مستدرك الحاكم ) یا سبحان اللہ………..نصف دین کی تکمیل کا نسخہ کیمیا وہ نکاح ہے جو شرعی حدود کے تحط انجام پائے.جس میں لڑکی کے والدین پر کوئی دباؤ نہ ہو ,جو بدعات اور خرافات سے پاک اور طیب ہو.ہمارا یہ دین آسان تھا لیکن ہم نے اپنی کرتوتوں کی وجہ سے اسے سخت بنا لیا.فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ "جو شخص عفت و پاکدامنی کے لئے شادی کرتا ہے اللہ تعالی اس کی مدد ضرور کرتا ہے”.(مشکٰوة المصابيح) یہ داڈھی رکھے ہوئے ہمارے نوجوانوں کی تذلیل ہوتی ہے ,یہاں باپردہ بہنوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے .خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہم جاہلیت کی نظر ہورہے ہیں.
(6)جنت کی راہ———–نکاح وہ عظیم عمل ہے جس کی قدر آپکو دنیا و آخرت کی بھلائی عطا کرواسکتی ہے اور جس کی بے قدری دنیا و آخرت تباہ کرواسکتی ہے.ملاحظہ ہو فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم "مسلمان عورت اگر پنجگانہ نماز کی پابندہو ۔رمضان کے روزے رکھے اپنی عزت کو محفوظ رکھے اور خاوند کی فرمانبردار ہو تو جنت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہو جائے”.(سندہ صحیح) امام ابن ماجہ رحمہ اللہ اپنی السنن کے اندر نقل کرتے ہیں کہ سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا "جب تمہارے پاس کسی ایسے شخص کا پیغام آئے جس کے دین اور اخلاق کو تم پسند کرتے ہو تو اس سے شادی کر دو، اگر ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ پھیلے گا اور بڑی خرابی ہو گی“ (حدیث نمبر: 1967)
(7)تحفظ نسل——–یہ نکاح کے بنیادی مقاصد میں ایک مقصد ہوتا ہے لیکن سماج (society) کا خیال رکھتے ہوئے نکاح میں تاخیر آپ کو اس بنیادی مقصد سے بھی محروم کرسکتا ہے.اسلام میں کثرت اولاد مطلوب ومستحسن ہے،حضرت اقدس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زیادہ بچے جننے والی عورت سے نکاح کی ترغیب فرمائی ہے اور فرمایا: تاکہ قیامت کے دن میں تمہاری کثرت پر دیگر امتوں پر غالب رہوں.
پیغام————
اسلام نے نکاح کے تعلق سے جو فکرِ اعتدال اور نظریہٴ توازن پیش کیا ہے وہ نہایت جامع اور بے نظیر ہے۔ اسلام کی نظر میں نکاح محض انسانی خواہشات کی تکمیل اور فطری جذبات کی تسکین کا نام نہیں ہے۔ انسان کی جس طرح بہت ساری فطری ضروریات ہیں بس اسی طرح نکاح بھی انسان کی ایک اہم فطری ضرورت ہے۔تو آئیے اور اس عظیم سنت کو آسان بنائیں.سماجی شروط کی مالا کو اپنی گردن سے کاٹ کر شرعی تعلیمات کو اپنا زیور بنائیں.ہر کوئی یہ پختہ عظم کرے کہ نکاح کو شرعی حدود کے مطابق انجام دوں گا.وقت کا تقاضہ ہے کہ سماج کی اس کشتی کو اگر ڈوبنے سے بچانا ہے تو نکاح کو آسان کرکے عصمت فروش بازاروں کو بند کرنا ہوگا. آئیے اور یہ صدا بلند کریں کہ
"let’s make Nikah Simple”
جب بھی لب پہ میرے یہ نام محمد آئے
مجھ کو مرتے ہوئے جینے کا سلیقہ آئے