جرأت بیان
از:ُڈاکٹر مفتی محمد ساجداحمد
کسے باشد ،ہر کسی کو یہ بات تسلیم ہے کہ اسلام کی تبلیغ واشاعت میں نظم ونثر کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے ،علو اسلا م،فکر اسلامی کی ترویج واشاعت ،اصول اسلام کے تحفظ وبقا ،اور ناموس رسالت کی حفاظت کے لیے ادبا و ذی صلاحیت صاحب زبان و قلم نے اپنے اپنے وسعت کے مطابق خدمات انجام دینا اپنی فیروز بختی سمجھتے رہے ہیں ،اور اس سے بڑھ کر خوش قسمتی ہو بھی کیا سکتی ہے کہ انسان کسی طریقہ سے بھی تبلیغ اسلام وتحفظ ناموس رسالت کا ایک حصہ بن جائے ،لیکن یاد رہے لکل عمل رجال،ہر آدمی ہر کام نہیں کرسکتا ہے ،اگر آپ سوچتے ہیں کہ ہر آدمی ایک بہترین مقرر،شاعر ،صاحب طرز ادیب ،غیر جانب دار نقاد بھی ہو تو ایسا ضروری نہیں ہے کہ ساری صلاحیت ایک ہی آدمی میں یک جا ہوجائیں ،اسی لیے ہر میدان کے لیے ایک حد بندی کر دی گئی ہے جیسے کہ تقریر کرنے کے لیے عالم ہونا ضروری ہے ،کیوں ؟اس لیے کہ جب آپ ”تقریر“پر غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ ”کسی امر کو ثابت کرنا “۔کسی بھی چیز کو ثابت کرنے کے لیے دلائل،اور دلائل کے لیے علم اور علم اتنا ہو کہ تراث علمیہ یعنی اسلامی لٹریچر س کو پڑھ کر بہ خوبی سمجھ سکے ،یوں ہی کسی نتیجہ پر پہنچ بھی جاے ،یہ بھی معلوم ہو کہ کس عنوان پر کون سی دلیل اور کس درجہ کی کتاب یا حدیث سے استدلال کرنا ہے ،کہیں ایسا نہ ہو کہ تقریر باب عقائد سے علم غیب کے عنوان پر ہو رہی تھی اور دلیل میں بزرگوں کی کرامات اور بازاری امثال ونظائر سے خوب ثابت کیے اور جب وما علینا الاالبلاغ کہا تو معلوم ہوا کہ کہ نہ تو قرآن پاک کی آیت نہ ہی حدیث پاک سے دلیل پکڑی جو اصول چاہتا تھا پھر کف افسول ملیں کہ کھودا پہاڑ نکلی چوہیا ،اسی لیے امام اہل سنت ،امام اعظم ثانی،سیدنا سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا گیا کہ ”غیر عالم کو وعظ کہنا (تقریر)کیسا ہے “امام نے فرمایا”غیر عالم کو وعظ کہنا حرام ہے “بہت صاف جملہ ہے ،مجھے لگتا ہے کسی کو بھی یہ بات سمجھنے میں ایک سکنڈ بھی نہیں لگے گا کہ جو عالم نہیں ہے اس کو وعظ یعنی تقریر کرنا حرام ہے ۔اب سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ عالم ہوگا کون ؟اس کا معیار کیا ہوگا ؟کیسے تسلیم کیا جائے گا کہ وہ عالم ہے بھی کہ نہیں ؟اس سوال کا بھی جواب امام اہل سنت نے دیا ہے ،فرماتے ہیں ”عالم وہ ہ ے جو کتب متداولہ سے اپنے ضرورت کے مسائل بے کسی کی مدد کے نکالنے پر قادر ہو “اس تعریف میں ایک مرکزی لفظ ہے جس کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے کیوں کہ بے اس کے سمجھے تو مسئلہ حل نہیں ہونا ہے اس لیےکہ آج اس دور میں جس کو بھی شوق ہوتا ہے وہ کسی نہ کسی طرح سے اردو ،ہندی میں کتابوں کا مطالعہ کر لیتا ہے ،خیر کتب متداولہ ؟ایک صدی سے پہلے اس جواب کو دیکھیں جب کہ اردو ،ہندی اور دیگر زبانوں میں اسلامی لٹریچر ندارد تھے ،صرف عربی زبان میں ہی کتب اسلامیہ دست یاب تھی ںاور اصل بھی اسی زبان کی ہے کہ مابقیہ تو افہام وتفہیم اور افادہ عوام کے لیے ترجمہ سے کام لیا گیا ہے ،تو معلوم ہوگا یہ تعریف ”کتب متداولہ“میں اسلامی اصول وفروع کی کتابیں جو کہ عربی زبان میں ہیں وہی کتب متداولہ میں شامل ہوگی ،اب عربی پڑھنا اتنا آسان کہاں ہے؟۴؍سال تک تو صرف یہ پڑھنا پڑتا ہے کہ کب ،کہاں اور کس لفظ پر کون سی حرکت آئے گی،اور یہ بہت ضروری ہے نہیں تو مسئلہ پیدا ہوجائے گا ،ہمارے یہاں ایک تاجل ہوا کرتے ہیں انما یخشی اللہ ُ من عبادہ العلما ء ہی پڑھتے ہیں یہی نہیں روزآنہ تقریبا ہمارے محلے کے نمازی ہر نماز میں تقریبا ”ان اللہَ وملٰئکتُہ یصلون علی النبی ،سنتے ہیں اصلاح کیجیے تو قیامت آجاتی ہے،جب قواعد پڑھ لیے تو اصول عقائد،فقہ،وحدیث کا دور شروع ہوتا ہے جو کم وبیش ۵؍سال کی شبانہ روزمحنت ومشقت کے بعد ہی عموما یہ مانا جاتا ہے جو ٹیم ۹؍ سال تک محنت کرکے مذکورہ قواعد واصول پر عبور حاصل کرنے کی رکھتی ہے ذمہ دار علما وادارے بعد جائزہ لینے کے انھیں کو ”عالم“ نام زد کرتے ہیں ،اب تو کسی حد تک صاف ہوجانا چاہیے کہ عالم کون ہے۔عالم کا معیار یہ ہے کہ وہ عقائد ونظریات اسلام سے آشنا ہو اور اپنے علم سے فائدہ پہنچا سکے ،اپنے مسائل کو کتب متداولہ سے نکال سکے ،یہ وہ ٹیم ہے جو شرق وغرب سے لے کر شمال جنوب دنیا کے ہر کونے میں اسلام کی علم برداری کر رہی ہے ،درس وتدریس سے لے تقاریر وتحاریرسے اسلامی نظامی کے تحفظ وبقا کی جنگ لڑتی ہے ،یہی ہمارے ایمان کی حفاظت کرتی ہے،اس ٹیم کی اہمیت وافادیت سےتاریخ کا کوئی بھی صفحہ انکار نہیں کرسکتا ہے اسی سسٹم نے وقت کے رازی وغزالی کو وجود کا سہرہ پہنایا ہے مقبول،مستند اور معتبر کتابیں یہی جماعت تیار سکتی ہے جس سے قوم کو عروج وارتقا وسر بلندی حاصل ہو ،اقوام کو ملل کو اندھیرے سے نکال کر روشنی کی طرف یہی لاتی ہے ،اسی نے ہواؤں کا رخ موڑا ،دریا کے تھپیڑوں سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کی ہے،اسی نے مسلک ومذہب ،اور ملک وملت کو جاں باز سپاہی ،صاحب فہم وفراست کمانڈر دیا،ہر اٹھتے ہوئے فتنہ کا جواب پورے عزم واستقلال کے ساتھ دیا ہے،اور یہ ساری تحریکیں ہمارے مذہبی اداروں سے اٹھ کر عالم میں فتح ونصرت کا جھنڈا گاڑتی ہیں ،اسی لیے دین ان قلعوں (مدرسوں)کو کسی بھی موڑ پر فراموش کرنا ،انصاف ودیانت کے ساتھ خون کرنے کے مترادف ہی ہوگا۔چند تحریکات پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں :
تدریس وتقرری:تمام مسائل کو حل کرنے کے لیے یہ ایک بنیاد ہے کہ اگر ”تدریس “ہی نہ ہو قائدین ہی معدوم ہوجائیں گے ،شخصیت سازی وافراد سازی کا سلسلہ منقطع ہوجاے گا ،اس لیے اس منصب پر نہایت ہی سنجیدگی سے ،بہت ہی حساس ،وسیع الفکر اور صاحب علم وعمل ،متصلب فی الدین کا تقرر کیا جائے ،یہ تقرری چاہے حکومتی اداروں میں ہو یا غیر حکومتی اداروں میں:آج کے اس دور میں ظلم کی تعریف پڑھتے ہیں اور مدارس کے طریقہ انتخاب مناصب کو دیکھتے ہیں تو خون کے آنسوں رونے پر مجبور ہوجاتے ہیں ،اللہ اکبر! جس جاے درس سے قال اللہ وقال الرسول کی صدائیں بلند ہونی تھیں ،دین اسلام کے محافظین کو پیدا کرنا تھا ،امت کے لیے بلند فکر قائد تیار کرنا تھا جس کے لیے ایک ذی علم مرکزی ہستی کی ضرورت تھی وہاں پر ذی علم ہستی تو کیا کہیں کہیں تو حد ہی کر دی ہے عالیہ کے مدرسین عام مدرس اور پرائمری کا مدرس ،کھیت کھلیان میں اپنی توانائی صرف کرنے والا پرنسپل ،واہ صاحب ،کمال کس کا ہے کیا فن کا کمال ہے ،کیا صلاحیت کی اہمیت ہے ؟کیا حلم و برد باری اور تقویٰ شعاری کا لحاظ ہے ؟نہیں صاحب نہیں صرف ”حق لینے کے نام پر ان الراشی والمرتشی کا طوق پہننے “گھوس ،رشوت لینے ودینےکی وجہ سے ،اب مناصب علم نہیں ،صلاحیت واستعداد نہیں پیسوں سے بیچے اور خریدے جاتے ہیں ،جس کا نتیجہ آپ کے سامنے ہے ۔ظاہر ہے جو بندہ پیسہ سے کسی منصب کو خریدے گا تو آپ اس سے یہ امید کریں گے کہ وہ خدمت کرے گا ؟وہ خدمت نہیں!حسب منصب ۔۔۔کرےگا ۔لیکن جن اداروں نے مثلا علیمیہ،اشرفیہ،امجدیہ ،جامعۃ الرضا و منطر اسلام ۔۔وغیرہ نے جن کے یہاں ابھی بھی علم اور صلاحیت ہی حصول مناصب کا ذریعہ ہیں وہ ادارے قابل ستائش و لائق مبارک باد ہیں اور مستقبل میں اسی رویہ کی امید بھی کرتے ہیں ۔جاری ۔۔۔۔۔
Dr.sajidmaharshah@gmail.com