اردو زبان اور ہماری ضرورت

0
0

پیر عادل مجید ندوی

دارالعلوم ندوةالعلماء لكهنو

فون نمبر :7006225028

قوم, زبان سے زندہ رہتی ہے کیونکہ یہ زبان ہی ہے جو قوم کی تاریخ اور تہذیب و تمدن کی نمائندہ ہے۔ زبان کے بغیر قوم اندھی، بہری اور گونگی ہوتی ہے ۔ زبان ، قوم کا حقیقی اثاثہ اور سرمایہ ہے جو قوم کے عروج و زوال کی عکاس بھی ہے۔

اردو زبان برصغیر کی ایک اہم اور بڑی زبان ہے، یہ سرزمین ہند کی اٹھارہ قومی زبانوں میں سے ایک ہے، ہندوستان کا اس زبان سے خاص تعلق اور رشتہ ہے ، کیونکہ یہ سرزمین ہند پر ہی پیدا ہوئی ہے. یہیں ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوئی، اور ترقی کے آسمان چھونے لگی، اور بہت ہی قلیل وقت میں برصغیر کے چپہ چپہ پر اپنا تسلط قائم کرنے میں کامیاب ہوئی۔

اردو کسی خاص مذہب و مسلک یا کسی خاص خطہ و علاقہ کی زبان نہیں ہے نہ ہی کسی خاص ملک کی زبان ہے بلکہ اردو زبان کی حلاوت و شیرینی سب کو اپنی طرف مائل کر لیتی ہے چاہے وہ ہندو ہو یا مسلمان سکھ ہو یا عیسائی جو اسکے بولنے اور سننے والے ہیں سب اسکے گرویدہ و شیدائی نظر آتے ہیں اسی کو انور جلالپوری صاحب نے یوں کہا تھا کہ

میں اک چراغ ہوں دیوار ہے نہ چھت میری

ہوائیں کرتی ہیں پھر بھی مخالفت میری

میں بادشاہ ہوں گذرے ہوے زمانے کا

سمٹ کے رہ گئ ایک گھر میں سلطنت میری

اگر ہم موجودہ دور میں اردو زبان کے حوالے سے بات کریں تو باوجود اس کے کہ اردو زبان کے ساتھ اس ملک میں سوتیلا سلوک کیا جاتا رہا اور ہنوز جاری ہے

کیونکہ بدقسمتی سے اس زبان کو مسلمانوں کی زبان قرار دیا جاتا رہا۔ لیکن ایسا نہیں ہے ، یہ زبان ہے ۔ فراق گورکھپوری کی، برج نارائن چکبست کی ، اور اسی طرح سے پنڈت ایسری پرشاد ، پنڈت دہلوی،دیورام کوثری، رات سندھ ناتھ فراقی، کشن بہاری نور لکھنوی، سوامی پرشاد، گردھاری لال وغیرہ کی بھی مگر پھر بھی یہاں کی تہذیب و تمدن پر اس کا گہرا اثر ہے اور اس کی جڑیں بہت گہری و پیوستہ ہے۔ اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اتنی آسانی سے ناپید ہونے والی نہیں ہے

اردو زبان برصغیر کی مختلف قوموں اور نسلوں کے درمیان رابطہ کی زبان رہی ہے۔ اس کا بنیادی رسم الخط عربی یعنی قرآنی ہے۔ جو مسلمانوں کو قرآن و سنت یاد دلاتا ہے ۔

لیکن افسوس کہ آج قوم کے لئے قرآنی رسم الخط پر مبنی اردو اجنبی زبان بن گئی۔ نیز اردو زبان کی تجہیز و تکفین اور تدفین کے لئے وفاقی و صوبائی حکومتوں کی تعلیمی پالیسی جس میں انگریزی زبان کو پرائمری تعلیم کے لئے لازمی ذریعۂ تعلیم قرار دے دیا گیا۔ اردو ہماری قومی زبان ہے مگر پارلیمانی حکمران پارلیمانی قوانین کے مطابق اردو زبان کو سرکاری اور تعلیمی زبان قرار دینے کے لئے مجرمانہ غفلت برتتے ہیں۔ اگر حکمرانوں کی یہی پالیسی رہی تو اردو زبان کو خوردبین سے تلاش کرنا بھی مشکل ہو جائے گا۔ کیونکہ اردو زبان اپنی عوامی حیثیت بھی کھو دے گی۔ قبل اس کے کہ پانی سر سے گزر جائے محبان دین و وطن سے درخواست ہے کہ اردو زبان کے احیاء، تحفظ اور فروغ کے لئے متحد ہو کر کام کریں۔

اس کے ساتھ ہمیں اس اردو کے ساتھ بحیثیتِ امت مسلمہ ایک گہرا تعلق بھی ہے۔ اولا جب یہ زبان سرزمین ہند پر ترقی کی طرف گامزن ہونا شروع ہوگئی تو اس وقت ہندوستان کا زمام اقتدار مسلمانوں کے پاس تھا۔ اسی وجہ سے علوم اسلامیہ کا ایک بڑا حصہ اس زبان میں منتقل ہوا جو اس وقت تک محفوظ ہے۔ مگر اس زبان کے ساتھ آج جو رویہ اپنایا جارہا ہے اگر اس پر ہم نے توجہ نہیں دی تو وہ دن دور نہیں جب اس عظیم ورثہ سے ہماری آنے والی نسلیں محروم ہو جائیں گی۔

اس حوالے سے اولا ہمیں اپنے سکولوں میں اردو زبان کے حوالے سے کام کرنا ہوگا ، اور ان میں اس زبان کو داخل نصاب کرنا ہوگا ، محلہ در محلہ اور گلی در گلی جو مدارس و مکاتب ہیں وہاں قرآن کریم کے ساتھ ساتھ اردو ادب و بیت بازی پر بھی توجہ دینی ہوگی۔ اسکی طرف لوگوں کو مائل کرنا ہوگا اور امت مسلمہ کو فکرمند کرنا ضروری ہے کہ اپنے بچوں کو خاص طور پر اس زبان سے ہم آہنگ کریں اور اس پر خصوصی توجہ کریں ۔

غرض یہ کہ اردو زبان کے تحفظ کی حکومتوں سے مطالبات کو کافی نھیں سمجھنا چاہیے ۔بلکہ از خود اس کے لئے محنت و تحفظ کا ذریعہ بننا ہے ۔خود بے عملی کا راستہ اختیار کر کے حکومت یا کسی دوسری تنظیم سے تحفظ کا مطالبہ کرنا ایسا ہی ہے کہ جیسے کوئی شخص دوسروں سے اپنے گھر کی امید رکھے۔اور خود ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھا رہے۔ہمیں خود اس میدان میں اتر کر اردو زبان کی تحفظ کے لے محنت کرنی ھوگی۔

یہ چند اہم ذمہ داریاں ہیں جن پر توجہ دے کر ہم کم از کم اس زبان کے تحفظ کے تئیں اپنی ذمہ داری ادا کر سکتے ہی

 

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا