عوامی مسائل کو درکنار کر کے سیاسی نمائندے لے رہے ہیں مذہبی تعصب کا سہارا۔ ۔۔۔
محمد سیف اللہ
ان دنوں بھلے ہی پورا چمپارن سیلاب کی مار جھیل کر اپنی قسمت کا رونا رو رہا ہو اور چہار جانب خوف ودہشت اور بے بسی کی حکمرانی ہو مگر اس حالت میں بھی سیاست کی روٹی کھانے والے لیڈران کے سر سے الیکشن کا بھوت اترتا دکھائی نہیں دے رہا ہے اور اس بھیانک منظرنامے میں بھی فرقہ پرستی کے سیڑھی پر پیر رکھ کر چڑھنے والے نمائندے عوامی مفادات سے الگ تھلگ انتخابی ماحول بنانے کا کھیل شروع کر کے نہ صرف اپنے مقصد کے حصول کی جد وجہد میں مصروف ہیں بلکہ اپنی سوچ کے مطابق عوام تک پہنچنے کے بہانے بھی ڈھونڈے جا رہے ہیں،لیکن اس نقل وحرکت کا سب سے چونکانے والا پہلو یہ ہے کہ انتخابی سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے پورے ماحول پر فرقہ پرستی اور مذہبی تعصب کی ایسی چادر اوڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے جس کو کسی بھی طرح درست نہیں مانا جا سکتا،کیونکہ اس کے نتیجے میں سرحدی خطے کے اندر جس طرح کی فضا بنتی جا رہی ہے اگر اس کو پاک کرنے کا عمل انجام نہ پایا تو پوار سماج نفرت کے زہر سے بے ہوشی کا شکار ہو جائے گا،بتادیں کہ یہ سرحدی علاقہ آزادی کے بعد سے آج تک تعلمی،معاشی اور آمد ورفت کی سہولیات کے فقدان سمیت ایسے بے شمار مسائل میں گھرا رہا ہے جن سے اسے آج تک نجات نہ مل سکی،حالت تو یہ بھی ہے کہ ریاستی حکومت کی جانب سے کئے جانے والے تمام تر ترقیاتی دعوے نہ صرف یہاں کی لاکھوں آبادی کے لئے بے معنی سی چیز ہو کر رہ گئے ہیں،بلکہ ان دعوں کے کھوکلے پن سے عوام کی پیشانیوں پر مایوسی کی لکیریں صاف جھلکتی نظر آرہی ہیں،بات چاہے سڑکوں کی ہو تعلیمی اداروں کی ہو،سرکاری محکموں کی ہو،یا عوامی مفادات کے لئے چلائی جارہی سرکاری اسکیموں کی ہر جگہ بدعنوانی لوٹ کھسوٹ اور بندر بانٹ کا ایسا کھیل جاری ہے جس سے ایک بڑی آبادی کی پیشانیوں پر فکر کی لکیریں ہیں،لیکن ان سب موضوعات پر بات کرنے اور ان مسائل سے یہاں کی عوام کو نجات دلانے کی بجائے فرقہ پرستی کا سہارا لیا جا رہا ہے،ظاہر ہے کہ اس منظرنامے میں جب عوام سے ووٹ کے لئے امیدوار سماج کے ان بے سہارا مزدوروں کے دروازے تک پہونچیں گے تو ان کی پیشانیوں پر اپنے مستقبل اور ان کی حصولیابیوں سے متعلق ابھرنے والے سوال ان امیدواروں کو ضرور پریشان کریں گے جو انتخابات میں جیت کے بعد عوامی منظرنامے سے غائب ہوکر خاموشی کی چادر اوڑھ لیتے ہیں،دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ ابھی تک کی چہل پہل میں یہاں کے لوگ نہ تو لیڈروں کے فرقہ پرستانہ پالیسیوں سے کوئی دلچسپی لے رہے ہیں اور ان کے وعدوں پر انہیں کوئی اعتماد ہے بلکہ اس کے برخلاف ان کا سیدھا سا سوال یہ ہے کہ انہوں نے جن مدعوں پر الیکشن جیتا تھا ان کو انجام تک پہونچانے میں انہوں نے کس حد تک اپنی ذمہ داریاں نبھائی ہیں،شاید یہی وجہ ہے کہ ایک جانب جہاں بر سر اقتدار پارٹی کے موجودہ نمائندے اور لیڈران حکومت کی حصولیابیوں کے ساتھ پھر سے کامیابی کی امید میں عوام تک پہونچنے کی حکمت عملی تیار کر رہے ہیں وہیں دوسری جانب تمام ہی اپوزیشن جماعتیں اور عوام زندگی کے تمام تر شعبوں میں حکومت کی ناکامیاں گنا کر ان کے نمائندوں کو گھیرنے میں مصروف ہیں،اب اس اٹھا پٹخ کا عوام پر کیا اثر پڑنے والا ہے اس کی گتھی بھلے ہی بعد میں سلجھ پائے گی مگر ابھی سے ہی جس طرح کی صورت حال دکھائی دینے لگی ہے اس سے مستقبل میں سیاسی جنگ کے کافی دلچسپ ہونے کا امکان ہے، اس لئے کہ اگر اس پورے خطے کے بدلتے حالات میں نوجوان طبقہ کی زمینی چہل پہل کو سامنے رکھ کر گفتگو کی جائے تو اس طبقہ میں علاقے کے بنیادی مسائل اور عوام کے حقوق کی بقاء کے لئے اپنے نمائندوں سے سوال پوچھنے کا جو رجحان پیدا ہوا ہے وہ نہ صرف خوش آئند ہے بلکہ ماہرین اندازہ لگا رہے ہیں کہ اگر نئی نسل میں اپنے بنیادی مطالبات کے تعلق سے یہی بیداری رہی تو سیاست کے مزاج میں کافی تبدیلی کے آثار نمایاں ہوں گے اور فرقہ پرست طاقتوں کے لئے بڑے بڑے وعدوں کے سہارے اقتدار تک پہنچنے کا خواب چکنا چور ہوگا،اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ بھلے ہی حکومتی سطح پر نئی نسل کو تعلیم یافتہ بنانے کی باتیں کی جاتی رہی ہوں، مگر آج بھی بیشتر علاقوں میں قائم سرکاری ادارے اپنی بدحالی کا ماتم کر رہے ہیں،اگر کہیں کوئی سرگرم قابل ذکر اسکول ہے بھی تو راستے ایسے نہیں ہیں کہ دور دراز کا سفر کرکے نئی نسل وہاں تک پہنچ سکیں،مزدوروں اور کسانوں کی حالت بھی مایوس کن حد تک افسوسناک ہے،نہ کسانوں کو کاشت کاری کے لئے مناسب سہولیات مہیا ہیں اور نہ مزدوروں کے پاس روزگار کے مواقع،غرض یہ کہ اس طرح کے بے شمار مسائل نے یہاں کے عام لوگوں کے پاوں میں ایسی زنجیر ڈال دی ہے کہ وہ چاہ کر بھی اپنی خوشحال زندگی کی طرف قدم نہیں بڑھا پاتے،ان سب کے علاوہ اگر سرکاری محکموں کی بات کریں تو وہاں بھی ہر سطح پر لوٹ کھسوٹ کی عجیب وغریب فضا قائم ہے جس کی وجہ سے عام لوگوں کو قدم قدم مشکلات کا سامنا ہے،کہنے کو تو ڈیجیٹل انڈیا کی طرف حکومت بڑی تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے مگر یہ ڈیجیٹل انڈیا سرحدی خطے کی عوام کے لئے کسی ایسے خواب کی طرح ہے جو پورے ہونے سے پہلے ہی بھلا دیئے جاتے ہیں۔