مولانا ارشد فیضی قاسمی : سلامت آبرو رکھ ان کی خدا تو

0
0

بقلم: عین الحق امینی قاسمی

میں نے اپنی زندگی میں اپنے بہت سے بڑوں اور ہم عصروں کو زندگی کے مشکل سفر میں تھک ہار کر بیٹھ جاتے دیکھا ہے مگر میری نظر میں بعض ایسے متحرک وفعال اور ہمہ وقت رواں دواں رہنے والے لوگ بھی ہیں جنہوں نے زندگی کی کٹھن راہیں دیکھیں،مشکلات کا سامنا کیا،دشوار گزار موڑ سے گزرے اور کئی طرح کے حوصلہ شکن اتار چڑھاو کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔مگر نہ تو کبھی مصلحت کی چادر اوڑھ کر اپنے قدم پیچھے کئے اور نہ ہی تھک ہار کر بیٹھ جانے کو اپنی فکر مندی کا حصہ بننے دیا،ان ہی میں ایک نہایت معتبر اور قابل احترام نام نوجوان عالم دین،بے باک صحافی اور بے شمار خوبیوں کے مالک رفیق درس مولانا ارشد فیضی قاسمی کا بھی ہے ۔
مولانامحمد ارشد فیضی قاسمی نے 14/ اپریل 1981ء کو اپنے آبائی وطن ڈھاکہ بلاک کے مڑلی گاوں ضلع مشرقی چمپارن بہار میں اپنی آنکھیں کھولیں۔
بہت چھوٹی عمر سے ہی قعدہ بغدادی لے کر اپنے گاوں کے مدرسے میں جانے لگے تھے لیکن اپنی ابتدائی تعلیم کا باضابطہ آغاز والد محترم مولانا نعیم الدین قاسمی کی نگرانی میں مدرسہ قاسم العلوم حسینیہ دوگھرا سے کرتے ہوئے بورڈ کے نصاب کے مطابق یہاں وسطانیہ چہارم تک کی تعلیم حاصل کی ( درمیان میں حفظ کے لئے آزاد مدرسہ اسلامیہ ڈھاکہ بھیجے گئے مگر مقدر نے ساتھ نہیں دیا جس کی وجہ سے کچھ ماہ کے بعد ہی حفظ چھوڑ دیا اور واپس دوگھرا چلے آئے ) مدرسہ قاسم العلوم کے اساتذہ میں مولانا اسرار احمد شگفتہ سابق پرنسپل مدرسہ ہذا ،مولانا نعیم الدین قاسمی،مولاناجمیل احمد قاسمی علیہ الرحمہ ،مولانا مجیب الرحمان قاسمی علیہ الرحمہ ،ماسٹر سیف الاسلام مرحوم ،ماسٹر علاء الدین صاحب، ماسٹر مفید عالم صاحب ،مولانا محب الحق صاحب اور حافظ تبارک صاحب وغیرہ کے نام شامل ہیں،دوگھرا کی تعلیم کے بعد والد محترم نے انہیں سیتا مڑھی ضلع کی مشہور دینی درسگاہ مدرسہ اصلاح المسلمین کریم گنج جھٹکی بھیج دیا جہاں آپ نے 1991 سے 1995تک اپنی زندگی کے پانچ قیمتی سال گزارے اور چوکہ یہ ادارہ ندوة العلماء لکھنو سے ملحق تھا اس لئے وہیں کے نصاب کے مطابق عالیہ ثالثہ تک تعلیم حاصل کی اور ایک سال کے بعد انہیں ندوہ داخلہ کے لئے جانا تھا کہ اچانک ان کے تعلیمی سفر میں ایک نیا موڑ آیا اور آپ کے تعلیمی مستقبل کو دارالعلوم دیوبند کے ساتھ جوڑ دیا گیا ۔
در اصل ہوا کہ وہ جھٹکی میں پانچ سال گزارنے کے بعد رمضان کی چھٹی میں گھر آئے تو والد محترم نے کہا کہ” میں نے آئندہ سال کے لئے تمہارا ٹکٹ دیوبند کے لئے لے لیا ہے کیا تم جاوگے”چونکہ بچپن سے ہی انہوں نے والد صاحب کی زبانی دارالعلوم کی عظمت کے بے شمار واقعات سن رکھے تھے جس کی وجہ سے اس ادارہ کو دیکھنے کی خواہش دل میں بے پناہ تھی اس لئے انہوں نے بلا کسی تردد کے دیوبند کے سفر کے لئے خود کوراضی کر لیا،اس طرح وہ اپنے گاوں کے ہی ایک طالب علم حافظ فخر عالم کے ساتھ 1996 میں پہلے مدرسہ حسینیہ تاولی ضلع مظفر نگر کا سفر کیا اور درس نظامی کے مطابق عربی دوم میں داخلہ لے کر مولانا شیث قاسمی،مولانا شکرالدین قاسمی اور مولانا راشد قاسمی جیسے اساتذہ کی صحبت میں رہ کر عربی دوم اور سوم کی ایک ساتھ تعلیم حاصل کی، اب ان کی خواہش دیوبند میں داخلے کی تھی جس کے لئے انہوں نے ایک سال پہلے اپنا تعلیمی میدان بدلا تھا چنانچہ رمضان کی چھٹی میں گھر آنے کی بجائے انہوں نے دارالعلوم دیوبند میں رہ کر عربی چہارم میں داخلے کے لئے تیاری شروع کی جس میں انہیں کامیابی بھی ملی اور اس طرح انہوں نے مادر علمی میں اپنی زندگی کے پانچ قیمتی سال یعنی 1997 سے 2002 تک گزار کر سند فضیلت حاصل کی،اس دوران انہیں مولانا نصیر خان صاحب علیہ الرحمہ سابق صدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند،شیخ عبدالحق اعظمی علیہ الرحمہ،مولانا مفتی سعید صاحب پالنپوری علیہ الرحمہ،مولانا مفتی امین صاحب،بحر العلوم مولانا نعمت اللہ اعظمی،مولانا ارشد مدنی صدر جمعیة علماء ہند،مولانا حبیب الرحمان اعظمی،مولانا عبدالخالق مدراسی،قاری محمد عثمان صاحب منصور پوری،ترانہ دارالعلوم کے خالق مولانا ریاست علی بجنوری،علامہ قمر الدین گورکھپوری،مولانا نور عالم خلیل امینی،مولانا شوکت صاحب بستوی،شارح جلالین علامہ جمال صاحب،مفتی راشد صاحب اعظمی،مولانا سلمان صاحب بجنوری،مولانا خورشید عالم گیاوی، مولانا عبدالخالق سنبھلی،مولانا احمد علی،مولانا حسین صاحب ہری دواری اور مولانا خضر کشمیری سمیت متعدد اصحاب علم وفن سے کسب فیض کا موقع ملا۔

تعلیمی دور میں ان کی سنجیدہ مزاجی، سادگی،خوش اخلاقی،دور اندیشی،معاملہ فہمی، ملنساری اور کم عمری کے باوجودانتظامی صلاحیتیں بے حد مشہور تھیں جس کی وجہ سے وہ دربھنگہ کی ممتازانجمن "تہذیب الافکار، کے ناظم لائبریری اور ناظم عمومی تک رہے اور بہار ،جھارکھنڈ ،اڑیسہ ونیپال کی مشہور انجمن بزم سجاد میں بھی بطور ناظم ان کی خدمات مثالی رہیں۔
لکھنے پڑھنے کا ذوق انہیں قدرت کی طرف سے ملا تھا ،ہم ساتھیوں میں وہ عمر وقد کے لحاظ سے بہت چھوٹے تھے مگر پڑھنے لکھنے میں اپنے بہت سے ساتھیوں میں بڑے تھے ،اکثر ان کے ہاتھ میں ایک کاپی اور دوروپے والا پین رہا کرتا تھا،یہ چیز احاطہ دارالعلوم میں گویا ان کی شناخت بن گئی تھی،ایک دفعہ بعد مغرب مدنی گیٹ کی طرف (سجاد لائبریری) سے وہ آرہے تھے اور ہم کچھ ساتھی باب ظاہر سے مشرق فوارہ کے پاس کھڑے اٹکھیلیاں لے رہے تھے،ان میں سے ایک نے کہا:وہ فیضی بھی آگیا ،دوسرے نے کہا : اگر ہاتھ میں قلم کاپی ہے تو سمجھ لو بات سچ ہے ،اتفاق سے ایسا ہی ہوا ان کے ہاتھ میں وہی پتلی سی کاپی اور دوروپے والا قلم ….سب ٹھہا کے مار کر ہنسنے لگے۔
مزاج میں کھلا پن تھا ،مگر اپنے ساتھیوں میں کبھی اتنا کھلا پن بھی نہیں رہا کہ خود انہیں یا دیگر ساتھیوں کو پشیمانی ہو،جلد کھانے،ہنستے رہنے اور کسی بازاری کام کو بہت جلد کر کے واپس آجانا ان کا مزاج رہا ،وہ ہمیشہ اپنے ہی کمرے دار جدید 32 میں دکھتے،اس لیے ہم لوگوں کو بھی کسی ضرورت کے موقع پر انہیں ڈھونڈ نکالنے اور ان سے ملنے میں اپنا زیادہ وقت نہیں بتا نا پڑتا،کچھ نہ کچھ لکھتے رہنا ان کی عادت سی ہوگئی تھی،عام طور پر جب ساتھیوں کے درمیان ہنسی کی محفل سجتی تو بعض لبوں سے یہ آواز آجایا کرتی کہ” فیضی واحد ایسا قلم کار ہے،جو پڑھنے سے زیادہ لکھا کرتا ہے "ایک محنتی طالب علم کی حیثیت سے ساتھی ان کی قدر ضرور کرتے۔اسی انہماک کا نتیجہ تھا کہ زمانہ طالب علمی سے ہی ان کے مضامیں اور تبصرے مختلف اخبارات ورسائل میں تسلسل سے چھپنے لگے تھے یہ امتیاز انہیں ضرور حاصل تھا اپنی اسی خوبی کی وجہ سے وہ بزم سجاد کے سالانہ مقابلہ مضمون نگاری میں مسلسل کئی سالوں تک کامیابی حاصل کرکے گراں قدر انعامات کے حقدار بنتے رہے ۔دورہ حدیث شریف سے فراغت کے بعد شعبہ صحافت ” شیخ الہند اکیڈمی "سے بھی وابستہ رہ کر اپنی قلمی صلاحیت کے جوہر بکھیرتے رہے جہاں انہیں مولانا کفیل علوی علیہ الرحمہ ایڈیٹر آئینہ دارالعلوم کی نگرانی میں انہیں نکھرنے کا خوب موقع ملا ۔
دارالعلوم اور شیخ الہند اکیڈمی سے رسمی فراغت کے بعد قلمی ذوق نے انہیں کئی اداروں سے ایک ساتھ اور کبھی الگ الگ مشغول رکھا ،سب سے پہلے وہ دیوبند کے مشہور ومعروف ادبی رسالہ ترجمان دیوبند کے سب ایڈیٹر اور مشہور ادیب مولانا ندیم الوجدی صاحب کی فرمائش پر ترجمان کے معاون ایڈیٹر رہے اور تقریبا تین سال تک اپنے صحافتی ذوق کی علم داں طبقہ سے داد وصولی بھی کرتے رہے،وہاں سے سہارنپور ضلع کی علمی بستی مظفر آباد کا سفر کیا اور نوجوان عالم دین مولانا نظام الدین ندوی ( جو ان دنوں اپنے علاقہ سمستی پور میں الہدی اردو لائبری کے تحت اہم کام کر رہے ہیں )کی رفاقت میں دو سال مکمل احسا س ذمہ داری کے ساتھ ماہنامہ نقوش اسلام کے سب ایڈیٹر کی حیثیت سے اپنی ایسی ذمہ داریاں نبھائیں کہ ہر خاص وعام نے انہیں اپنے عزیزوں کی لسٹ میں سر فہرست رکھا،ابھی ان کی اس ادارہ سے وابستگی کا سفر جاری ہی تھا کہ انہوں نے اچانک بنگلور کا سفر کیا جہاں مولانا شمیم سالک مظاہری کی باریک نظر نے ان کی خوبیوں کا اندازہ لگا کر اپنے سے قریب کرتے ہوئے اپنے چھوٹے بھائی مولانا محمد نسیم سالک قاسمی کے زیر اہتمام ممتاز تعلیمی ادارہ المعہد الشفیق للعلوم الاسلامیہ کے لئے نظام تعلیم کے نگراں کے طور پر نامزد کر دیا اور پھر سالوں کا سفر المعہد الشفیق کی چہار دیواری کے اندر مولانا شمیم سالک مظاہری اور مولانا نسیم سالک قاسمی کی بے پناہ محبتوں کے بیچ اس طرح گزرا کہ ماہ وسال کے گزرنے کا احساس تک نہ ہوسکا ۔
ان کی زندگی کے یہ وہ قیمتی ایام ہیں جو تیز رفتاری کے ساتھ گزرتے گئے مگر دل میں بچپن سے اپنے علاقے میں رہ کر کام کرنے اور نئی نسل کے مستقبل کو سنوارنے کی ایسی خواہش تھی جس کے لئے ان کا دل بار بار مطالبہ کر رہا تھا لیکن مجبوری یہ تھی کہ مولانا شمیم سالک صاحب اور ان کے برادر عزیز مولانا نسیم سالک قاسمی نے ان سے اس طرح محبت کرنا شروع کردیا تھا بلکہ ان کے معاملے فیضی صاحب کے ساتھ گھر کے ایک فرد کی طرح ہو گئے تھے جس کی وجہ سے ان کے لئے اپنی اس خواہش کو سامنے رکھ کر ان سے اجازت مانگنا مشکل سا تھا ،مگر ان سب کے باوجود انہوں نے ان کی خواہش کا احترام کیا اور انہوں نے نہ چاہتے ہوئے بھی انہیں اجازت دے دی اور پھر اپنے علاقے میں ان کی سرگرمیاں تیز تر ہو گئیں ۔ یہاں انہیں بے باک خطیب ،ممتاز قلم کار اور مختلف تنظیموں سے تعلق رکھنے والے تجربہ کار منتظم کے طور پراپنی مختلف شناختوں کے ساتھ جنا ب مولانا مظفراحسن رحمانی صاحب دامت برکاتہم سے ملاقات ہوئی،انہوں نے چوں کہ جامعہ رحمانی مونگیر سے براہ راست کسب فیض کیا ہے ،جہاں کی بصیرت وبصارت بہت مشہور ہے ،جس کے سرخیل قطب عالم مولانا محمد علی مونگیری ،قطب زماں مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی اور موجودہ امیر شریعت مفکر اسلام مولانا سید محمد ولی رحمانی دامت برکاتہم جیسی نابغہ روزگار ہستیاں رہی ہیں اور ہیں اس لئےبھی احسن صاحب میں درک وادراک کی صفت ممتاز ہے ۔
خیر !مولانا مظفر احسن صاحب نے شروعاتی دن سے ہی فیضی صاحب کو اپنے سے قریب کرلیا اور ان کے ساتھ مل کر تعلیمی،دعوتی اور انتظامی تجربات سے گزارتے ہوئے مختلف مرحلوں میں ان سے اتنا کچھ قومی وملی کام لیا کہ پورے علاقہ میں ان کی قابلیت کے چرچے پھیل گئے اور یہی نہیں بلکہ وہ موصوف کے ساتھ زندگی کے قیمتی سفر میں اتنی شفقت ومحبت سے پیش آتے رہے کہ فیضی صاحب اکثر انہی کا گن گاتے دکھتے ہیں ،کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے چھوٹوں کو ساتھ رکھ بلندیوں کا سیر کراتے ہیں ،احسن صاحب میں یہ خوبی ہے ،انہوں نے فیضی صاحب کی تعلیمی ،تنظیمی اور دعوتی میدان میں کا فی اچھی رہنمائی کی جس کا وہ نہ صرف بر ملا اظہار کرتے رہے ہیں بلکہ اس کا احساس بھی انہیں دیر تلک رہے گا۔ایک موقع پر مولانا مظفر احسن رحمانی صاحب مولانا فیضی قاسمی کے تعلق سے یوں لکھتے ہیں:
” وہ دھن کا پکا لگن شعار ہے، رشتہ تو دور دور کا نہیں ہے لیکن تعلق ایسا کہ رشتوں کو مات کرتا ہے، غم ہو یا خوشی ہرایک میں شریک رہ کر رشتوں کی استواری کا خیال گویا ایک دوسرے کی ذمہ داری ہو،آج جب وہ متھلا یونیورسٹی میں ٹا پر کی حیثیت سے آگے بیٹھے تھے تو میرا دل خوشیوں سے کود رہاتھا اس خوشی کے موقع سے میں ان کے دوش بدوش خیالوں میں ہی سہی کھڑا تھا ”
بنگلور سے بہار لوٹتے ہی انہوں نے کئی طرح کی تعلیمی وتحریکی سرگرمیاں شروع کیں اس سلسلے کی پہلی کڑی پیام انسانیت ایجوکیشنل اینڈ ویلفئر ٹرسٹ اور اس کی زنگرانی”رحمانی دینیات کلاسیز” کی بنیاد تھی جس کے تحت انہوں نے مختلف اسکولوں میں زیر تعلیم طلبہ وطالبات کے اندر دینی فکر کی بنیاد رکھنے کے لئے کئی پیش رفتیں کیں اور ان سب کے مثبت نتائج بھی سامنے آئے۔
اسی دوران مولانا مظفر احسن رحمانی سمیت چند مخلص احباب نے انہیں پی ایچ ڈی کا مشورہ دیا مگر اس کے لئے ضروری تھا کہ پہلے ایم اے کر لیا جائے لہذا اسی پی ایچ ڈی کی طرف آگے بڑھنے کے منصوبے سے انہوں نے پہلے للت نرائن متھلا یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور 2015-17 کے سیشن میں نہ صرف پی جی کی تعلیم مکمل کی بلکہ اپنے کلاس میں اول اور پوری یونیورسٹی میں ٹاپ کرنے پر ہزاروں طلبہ اور باشعور طبقہ کی موجودگی میں بہار کے گورنر محترم لال جی ٹنڈن کے ہاتھوں انہیں ایک ساتھ دو گولڈ میڈل سے نوازا گیا۔
ابھی رحمانی دینیات سینٹر کے تحت کافی ذمہ داری کے ساتھ نئی نسل کی تعلیم وتربیت کا سفر جاری تھا کہ اسی دوران ان کے عزیز ترین دوست مولانا غلام مذکر خان کے ذہن میں آئے ایک خاکہ کے سلسلے میں ان سے مشورہ کیا کہ آیا کیوں نہ جالے میں” اسلامک مشن اسکول”کے نام سے ایک اسکول کی ہی بنیاد رکھی جائے تاکہ نئی نسل کے لئے دینی ماحول میں عصری تعلیم کا بہتر سے بہتر انتظام ممکن ہو سکے انہوں نے اپنے اس ذہنی خاکہ کو ان کے سامنے پیش کیا لیکن اپنی مالی دشواریوں کے سبب اولاً تو فیضی صاحب کو اس سمت میں آگے بڑھنے میں ذرا تردد ہوا مگر ان کی حوصلہ افزائی نے ان کی ساری مشکلات حل کردیں، اس طرح انہوں نے اپنی فکروں کو اسلامک مشن اسکول سے جوڑ کر اپنے مبارک سفر کی شروعات کی اور اب یہ سفر کافی مضبوطی وخود اعتمادی کے ساتھ جاری ہے۔
جیسا کہ عرض کیا گیا کہ زمانہ طالب علمی سے ہی انہیں لکھنے پڑھنے کا بے حد شوق تھا اور اس میں وہ ممتاز بھی تھے چنانچہ بعد کے دنوں میں وہ برسوں بعد بصیرت آن لائن کے چیف ایڈیٹر صاحب کے رابطے میں آگئے وہ کہاں انہیں چھوڑنے والے تھے انہوں نے جوائنٹ ایڈیٹر کے طور پر اپنے کارواں میں شامل کرلیا اور مسلسل لکھنے پڑھنے کا سلسلہ جاری ہے ۔جس طرح آنکھ کی خوبیاں بیان کرنے سے کان کی خوبیوں کی نفی نہیں ہوتی اسی طرح مظفر صاحب کی طرح غفران ساجد صاحب نے بھی فیضی صاحب کی اچھی رہنمائی کی ہے اور انہیں بافیض بنانے میں یا ان کی تحریکی قوت کو جلابخشنے میں جناب غفران ساجد صاحب کی مرکزی توجہات کو بھلایا نہیں جاسکتا ۔
دیکھتے ہی دیکھتے میدان صحافت میں فیضی صاحب ایک آزاد صحافی کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں گرچہ صحافت سے ان کا رشتہ2001 سے حال تک ہے،کوئی بھی موضوع ہو اس کی گہرائی تک پہنچنا ان کے لئے مشکل نہیں ،وہ زود نویس اور نہ تھکنے والے قلم کے پیکر ہیں،کم وقت میں انہوں نے صحافتی دنیا میں اپنی پہچان بنائی ہے اور کسی بیساکھی کے بغیر ذاتی ذوق ومحنت سے بلند مقام حاصل کیا ہے ،جیسا کہ مولانا مفتی اعجاز ارشد قاسمی سابق ویب ایڈیٹر دارالعلوم دیوبند ان کی ایک کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔۔۔کہ

” مولانا محمد ارشد فیضی کو اللہ نے ان تمام صلاحیتوں سے نوازا نے میں کوئی کمی نہیں کی ہے جو ایک کامیاب عالم اور مصنف کے لئے ناگزیر ہیں،بہت ہی کم عمر میں اللہ نے فکر وشعور میں ایسی پختگی اور زبان و قلم میں وہ سلاست وروانی عطا کر دی ہے جس کی توقع کم از کم اس عمر میں تو نہیں کی جا سکتی ” ( خواتین کی اصلاحی تقریریں صفحہ 6)
ان کی تحریروں میں بلا کی روانی وسلامت ہوتی ہے،اکثر قاری ان کی مکمل تحریر پڑھنے کے بعد ہی نشست بدلتے ہیں ،ان کی چھوٹی بڑی تحریروں کو ملک کے اخبارات میں نمایاں جگہ دی جاتی ہے ،ان کی خبروں کو اہمیت کے ساتھ شائع کیا جاتا ہے ،وہ دوٹوک لکھنے کے عادی ہیں ،حق اور سچ پر وہ بڑےبڑوں کو بھی مشورہ دینے میں ہچکچاتے نہیں ہیں ، ان کی تحریر ی بلندیوں کا کمال یہ ہے کہ جنہوں نے ان کی مسلسل تحریریں غائبانہ پڑھی ہیں اور یا پڑھتے رہتے ہیں وہ سامنے آنے پر انہیں پہچاننے سے انکار کردیں گے ۔چوں کہ جو باک پن ان کی اوازوانداز میں ہے وہی ان کی تحریر سے بھی جھلکتی ہے،جب کہ سامنے سے ملیے تو سرا پا متواضع ،مزاج میں سادگی، پہناوے اوڑھاوے میں بے تکلف،ملنے جلنے میں ایسا کہ آپ نے ارادہ کیا اور وہ آپ کے سامنےحاضر۔تکلف اور ناممکن کو وہ اپنے پاس پھٹکنے بھی نہیں دیتے ،حوصلوں کے دھنی انسان ہیں،ہم لوگوں نے پڑھا تھا ” آج کا کام کل پر نہ ڈال ” اور فیضی صاحب اس کو صرف پڑھا ہی نہیں،بلکہ اپنی زندگی میں اسے عملاً کردکھاتے ہیں ان کے نزدیک حاضر میں حجت نہیں اور غائب کا انتظار نہیں کا مقولہ بالکل سچ ثابت ہوتا ہے،آپ نے کسی کام کا ارادہ کیا اور کہہ دیا کہ فیضی صاحب یہ کام ہونا ہے ،اب اگر مالی قربانی کی بھی ضرورت ہوئی تو قربانی دے کر کام کو بحسن وخوبی کرلینا جانتے ہیں اور سچائی میں عرض کروں کہ ہر فرد کو ہر انجمن وتنظیم کو ایسوں کی ضرورت ہوا کرتی ہے ،مگر ملتے کہاں ہیں ایسے باوفا لوگ،اسی لئے سبھی ان کی قدر کرتے ہیں اور دعاؤں سے نوازتے ہیں ۔
یہ سوشل میڈیا کا دور ہے یہ اس معاملے میں بھی طاق ہیں ،اپنی صالح فکر اور مثبت خیالات کے ساتھ ہمہ سرگرم رہتے ہیں ،ہمیشہ فکری اور تعمیری پوسٹوں سے احباب کو با خبر کرتے ہیں ،غیر معیاری پوسٹ پر بھی سبک گامی کے ساتھ صالح تنقید وکمنٹ کرجانا ان کا امتیاز ہے ،کم لفظوں میں بڑی بات کہہ جانا ان کی فطرت ہے ،کمنٹوں کے دوران عموما وہ چراغ پا نہیں ہوتے،جذبات سےالگ اپنی بات کہہ دینا ذمہ داری سمجھتے ہیں ،اس پر بھی اگر کوئی جامہ سے باہر ہو جائے تو قالو سلاما ان کی عادت دیکھی گئی ہے،واٹشاپ کو دیکھنا اور اس کا فوری مناسب جواب دے کر اگلے کو مطمئن کردینا بھی انہیں خوب آتا ہے ،یہ وہ چیزیں ہیں جو ان کی مختلف النوع صلاحیتوں کا پتہ دیتی ہیں ۔
تھوڑے وقت میں ہزاروں صفحات پر مشتمل مقالات ومضامین کے علاؤہ ان کی کئی عدد مستند تالیف بھی منصہ شہود پزیری کا شرف حاصل کر چکی ہیں ،ان میں(1)خواتین کی اصلاحی تقریریں (2) دلفریب مکالمے (3) نصاب تعلیم اور عصری تقاضے ( زیر طبع ) وغیرہ کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں،لکھنے لکھانے ،نیز!بھاگ دوڑ کر کچھ نہ کچھ کرتے رہنے اور ملت کی زندگی میں کام آنے والے خاکوں میں رنگ بھر نے کا سلسلہ ہنوزجاری وساری ہے۔خدا انہیں آباد شاد رکھے ،سر بلندی اور بلند کرداری ان کے نصیبے کا حصہ بنائے ۔آمین
…………………………………………..
* ناظم معہد عائشہ الصدیقہ رحمانی نگر کھاتوپور بیگوسرائے۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا