مسلمان اور جدیدیت

0
0

اعجاز الحق
سائنس اور ٹیکنالوجی نے آج دنیا کی حالت کوپوری طرح سے بدل دیا ہے جو کسی کی بھی کی آنکھوں سے چھپی نہیں ہے ۔ بلکہ اسکے اثرات نے تو لوگوں کونئی زندگی اور معاشی ترقی کی جانب بھی گامزن کیا ہے ۔ جس کو آج جدید تہذیب کا نام دیا جاتا ہے جدیدیت کا مطلب جدید سائنس کی ترقی ، جدید ہتھیاروں کی فراہمی، جدید ٹرانسپورٹ کے سازو سامان کی خوج کمپوٹر ، موبائل جہازوں کا مفید استعمال ہے ۔ اسلامی تاریخی سے ان تمام چیزوں کے الگ الگ انداز میں استعمال کی معلومات کا حصول ہوتا ہے ۔جسکی مثال کے طور پر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابہ کرام کو چمڑے کی کھالوں میں قرآن کی آیات تحریر کا حکم دینا ہے اور یہ دنیا میں لکھنے اور پڑھنے کا ایک آسان اور جدید طریقہ تھا۔ لیکن افسوس کے ہم نے اپنے ابا واجداد کی تاریخ کو پس پشت ڈال کر الگ طریقوں کو اپنانے میں اہم رول ادا کیا ۔ جس کی وجہ سے کسی حد تک ہم پستی کی جانب گئے ۔جہاں تک تعلق ہے تعلیم کاتو اسلام نے کسی بھی تعلیم کا انکا رنہیں کیا ہے ۔ قرآن پاک کے نزول کا پہلا لفظ اقراء ہے جسکا مطلب پڑھو خدا کے نام سے یہ قرآن کی پہلی آیت ہے جس کا مطلب پڑھناہے ۔ تعلیم کوئی بھی مسلمانوں کی سیکھنی چاہئے ۔کیونکہ لفظ علم کا مطلب عام ہے ۔ جو تمام طرح کی تعلیمات کو شامل ہے ۔
مسلمانوں کے لئے اسلام کا ابتدائی دور بہت ہی حوشحال تھا تاریخ گواہ ہے سلطنت عثمانیہ کے بادشاہوں نے تین برے اعظموں پر چھہ سو سال حکومت کی افسوس کہ عروج کے بعد زوال بھی آیا بیسوین صدی کے ابتدائی دور میں زوال کی وجہ سے تعلیم و تعلم سے دوری ہے دوسری طرف یورپ نے جدید سائینس اور ٹیکنالوجی کو نئی سمت دی ہے ۔ انہوںنے جدید ایجادات جدید کالجوں کی بنیاد ڈالی ، خطرناک ہتھیار بنانے میں مہارت حاصل کی ۔ ان تمام چیزوں کا سلطنت عباسیہ نے نکار دیا ۔ جسکی وجہ سے مسلم امہ کو تو برے وقت کا سامنا کرنا پڑاحالانکہ دور حاضر میں ترقی اور ایرانی حکمرانوںنے جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کو عروج دینے کی کوشش کی بیسویں صدی کے درمیان میں بھی ترقی کی رفتار تیز ہوئی چاہئے وہ تجارتی ترقی یا معلوماتی ۔ گزرتے وقت کے عرب ممالک نے بھی جدید یت کی طرف دھیان دیا ۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ علماء اور دانشورو ں کو تعلیمی بحران سے نکالنے کے جدید اسائش ، ترقی یافتہ وسائل کے زریعہ قرآن حدیث سے جدید فنون کا استنباط کرنا ہوگا ۔
حدیث پاک علم حاصل کرنا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے سے بھی بدلتے دور کے مطابق تعلیم حاصل کرنے کی تعلیم ملتی ہے ۔یہ الگ بات ہے سرکار کے اس فرمان کو ہم نے مکاتب قائم کرنے امام مقرر کرنے تک محددد کیا ۔علم حاصل کرکے دوسروں کو علوم سے منور کرنان ہر نئی چیز کو سیکھنا علم کہلاتا ہے ۔ ہمیں دینی علوم کے ساتھ دنیاوی علوم جدیدعلوم کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔کیونکہ اسلام میں حصول علم کے لئے بہت اعلیٰ ترین اور واضح پالیسی ہے چانچہ رب کائنات ارشاد فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے علم حاصل کرنے والوں کے درجات کو بلند کیا ۔ یہ بات اس جانب توجہہ دیتی ہے ۔ جدید علوم و فنون ہمیں جدید دور سے مستفیض کریں گے ۔ در حقیقت جدید علوم نے بہت سے ممالک کو فلاح وبہبودی کی جانب بڑھنے کا موقعہ دیا ہے ۔
آخر میں کچھ اہم ترین شخصیات جنہوںنے جدیدعلوم و فنون کے زریعہ دنیا کو ایک نئی راہ دکھائی جسے انو نسر الفریبی،البتانی ابن سینا،محمد بن موسیٰ الخوارزمی، عمر خیام، ثابت بن قرہ ان تمام لوگوں نے لوگوںنے اسلا می تعلیم سے خود کو منو ر کیا اور اونچا مقام حاصل کیا انہوںنے دینی علوم کے ساتھ دنیاوی علوم حاصل کئے ۔ ہمیں وقت کی ضرورت کے مطابق دینی تعلیم کو حاصل کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں موجودہ دور سے ہم اہنگی کے لئے دینی تعلیم کو اصل مقصد بنا کر دنیاوی تعلیم کو بھی حاصل کرنا ہے یہ بات واضح ہے دینی تعلیم کے ساتھ دنیاوی تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب غیر اسلامی نہیں ہے ۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا