آؤ اختلاف کریں

0
0

از:ڈاکٹر مفتی محمد ساجداحمد

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ علم ،صلاحیت،استعداد ،قوت فکر ،ثبات وٹھہراؤ ،زہد وتقویٰ کسی حسب ونسب ،جاہ وحشمت ،سابقہ ولاحقہ ،ادارے ،مدارس ومساجد ،کالج ویونیورسٹیز کی باندی نہیں ہے کہ فلاں سابقہ ،لاحقہ ہوگا تب ہی آپ ذی علم وباصلاحیت ہوں گے ،فلاں مدرسہ یا ادارے سے فارغ ہوں گے جب ہی آپ علامۃ الدہر ہوں گے ،فلاں یونیورسٹی میں پی ۔ایچ۔ڈی کریں گے تو آپ کی تھیسس میں کمال پیدا ہوگا،فلاں کالج میں اسٹوڈنٹ کی حیثیت سے ہوں گے تب ہی جا کر آپ کی فکری قوت پروان چڑھ پائے گی ،بلکہ یہ ساری چیزیں بظاہر ”محنت شاقہ “اور اصلا رحمت الٰہی ونظرو فیضان نبوی کی مرہون منت ہوتی ہیں ،یہ بات بھی نا قابل تردید حقیقت ہے کہ ”اللہ تعالیٰ کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا “،کئی بار کتابوں میں پڑھا ہے ”جس نے بلندیوں کو پایا وہ راتوں کو جگا ہوگا“،”جس نے کوشش کی اس نے منزل کو پا لیا “۔سلسلہ بہ سلسلہ یہ روحانی قوت بزرگان دین ،خدا رسیدہ بندوں ،محبوبان بارگاہ ایزدی کو بھی حاصل ہوتی ہے کہ جس ذرہ پر نظر ڈالیں کیمیا بنا دیں ،اور جس متکبر صاحب پرواز سے نظر پھیر لیں اس کو زمیں بوس فرما دیں ۔لیکن ایک چیز صاف ہے کہہ تربیت میں،اس دور میں انقلابی تصویر دیکھنے کو ملتی ہے مثلا کسی پیر صاحب کے مرید ہیں تو یقینا وہ حد درجہ محتاط ہوتے ہیں ،اور کسی صاحب کے مرید ہیں تو اس کے برعکس (اکثریتی تعداد کے اعتبار سے یہ تجزیہ ہے شاذ ونادر کا شمار نہیں )،کسی ادارے کے تعلیم یافتہ علیٰ وجہ الاغلب بہ شعور ،صاحب فکر ،منکسر المزاج ،صاحب تواضع ہوتے ہیں لیکن کسی کسی ادارے کے لوگ تو انتہائی متکبر اور بے حد و قید خوش فہمی کے مریض ہوتے ہیں کہ گویا ان سے بڑا کوئی عالم ہے ہی نہیں ،ٹھیک اسی طرح سے کوئی جے این یو کا تعلیم یافتہ ہے تو وہ اپنے آپ کو پردھان منتری سے کم نہیں سمجھتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔خیر !مجھے اس سے بحث نہیں کہ کون کیا ہے ؟اور کیوں ہے ؟لیکن ایک چیز ہماری قوم میں یں کامن ہے کہ ہم لوگ مسلمان ہیں ،نظام اسلام نے ہم کو یہ ”تم میں جو شخص بڑوں کی تعظیم اور چھوٹوں پر شفقت نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں ہے “قانون دیاہے ،جس کے تناظر میں جنرک پبلک سوسائٹی ،تعلیمی،علمی،وکنگ معاشرہ کا تجزیہ کریں تو اصول مذکور کی روشنی میں ہر طبقہ ومعاشرہ پر سکون محسوس کریں گے ،تمام شعبہ جات کی زندگی میں اخوت ومحبت کا انقلاب برپا ہوجائے گا،ہم کل بھی دوسری قوموں کے لیے چروغ سحری بن کر اپنی روشنی سے بے راہ رو کو صراط مستقیم کی طرف راہ دکھاتے تھے اور آج بھی ہمارا کردار وعمل قرون اولیٰ کے نفوس قدسیہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کچھ حصہ ان کے فیوض وبرکات کا حاصل کرےگا۔میڈیا کا یہ دور انتہائی زہریلا ہے ،کسی کے بھی خلاف کسی بھی آدمی کو بہ آسانی کھڑا کیا جاسکتا ہے ،یہ کوئی عجوبہ والی بات ہی نہیں ہے ،مرکز الفتن ”یو۔ٹیوب “کو کھول کر کھنگال ڈالیں ،بہت سی ایسی ویڈیوز،آڈیوز دیکھنے کو مل جائیں گی ،جس میں کسی شخص معین کی ذات پر الزامات لگا لگا کر خوب ڈینگیں مار رہے ہوں گے اور حال یہ ہے کہ سیکنڈ پرسن کو اس بات کی کوئی انفارمیشن ہی نہیں ہوتی ہے کہ آخر میرے خلاف کیاچل رہاہے نتیجہ جو بھی سنتا ہے بد گمان ہوتا ،مخالفت اور سب وشتم پر اتر آتا ہے ،اور کمال تو یہ ہے صاحب کہ اس پر جہلا ہی نہیں بعض تو دقاق لوگ بھی منزل السما کی طرح یقین کامل کرکے تردیدی بیان اور بائیکاٹ کا اعلان کرنے میں ایک لمحہ بھی نہیں تاخیر کرتے ،جب کہ ان مدققین فن کو معلوم ہے اس وقت محقق بے بدل جناب گوگل کے وسیع وعریض دامن پر فساد میں ایک سے ایک سافٹ وئر موجود ہیں جو کسی کی بی آواز کو کاپی کر سکتا ہے ،اس کے باوجود بھی وہ ”تحقیق احوال کرنا کسر شان سمجھتے ہیں “،”توضیح طلب مسئلہ میں وضاحت وصفائی وتشریحات کو قبول کرنا ناجائز وحرام سے کم نہیں سمجھتے ہیں “اور اس تشدد کو کبھی حب یعنی عشق ومحبت کا نام دیتے ہوئے ،آداب واحترام سے یک سر ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ،بعض تو اس قدر مخالفت میں اندھے ہوجاتے ہیں کہ ان کو یہ تک یاد نہیں رہ جاتا ہے کہ کس مسئلہ پر مناظرہ ہوتا ہے ؟کس پر مباحثہ،کس سے مناظرہ ہوتا ہے اور کس سے مباہلہ ہوتا ہے ،کب چیلنج کرنا چاہیے اور کب چیلنج قبول کرنا چاہیے ؟کچھ تو اس قدر جنون میں آ جاتے ہیں صاحب معام،لہ سے کنسلٹ کیے بغیر ہی اس کی ”ماں بہن تک کو نوازتے ہوئے چلے جاتے ہیں “(برائے مہربانی غیر جانب دار ہوکر تجزیہ کیجیے )اس پر طرفہ یہ کہ کیمرے کے سامنے مع زیورات و تصنعات ،میکپ شیکپ آکر،لچک لچک کر ،گلے پھاڑ پھاڑ کر اسلامی نظام پر حملہ آور ہوتے ہیں ،معمولات اہل سنت کا خون کرتے ہیں ،جب ان کی گرفت کی جاتی ہے تب یہ کہتے ہیں کہ یہ اختلاف ہے،ہر محقق کو حق اختلاف حاصل ہے ،اوئے بھائی جان!بالکل حق اختلاف حاصل ہےلیکن اختلاف رائے کے بھی اصول اور دائرہ کار ہیں،میں ایک جھلک آپ کے سامنے رکھتا ہوں ،حضرت مولی علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے درمیان اختلاف تھا لیکن اس انداز اختلاف کو بھی ذرا دیکھیں !جنگ صفین سے واپس ہو کر حضرت مولیٰ علی عوام سے مخاطب ہوتے ہوئے فرماتے ہیں پھول جھڑتے ہوئے لب ہائے مقدس سے بیان فرماتے ہیں ”ائے لوگو!تم امیر معاویہ کی گورنری کو ناپسند نہ کرو !کیوں کہ جس دن وہ نہیں ہوں گے تمہاری گردنیں حنظل درخت کی طرح کٹ کٹ کر گر جائیں گی “اب ذرا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بھی سنیں !آپ فرماتے ہیں ”حضرت علی شجاعت میں مثل شیر اور سخاوت کے دریاے فرات ہیں “یہی شان وعظمت وطریقہ اختلاف صحابہ سے تابعین و تبع تابعین سے ہوتے ہوئے امام اہل سنت سیدنا سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک چلا آیا ،”فسٹ ٹائم میں علامہ زینی دحلان نے الدولۃ المکیہ کی تصدیق نہیں فرمائی ،وجہ ؟علوم خمسہ سے وہ امام سے اتفاق نہیں رکھتے تھے ،یہ اور بات ہے کہ بعد میں انھوں نے مکمل رسالہ ہی تائید میں لکھا “لیکن کیا کوئی امام کا ایک بھی جملہ دکھا سکتا ہے کہ آپ نے ان کو سخت وشست کہا ہے ؟نہیں؟امام وقت سرکار تاج الشریعہ سے محقق مسائل جدیدہ صاحب قبلہ کو کئی مسائل میں اختلاف رہا لیکن اگر کسی کے پاس بھی شرعی دلیل موجود ہو کہ دونوں میں اکابرین میں سے کسی نے کسی کو برا بھلا کہا ہو تو میدان میں آئیے !اور اگر ان تمام اکابرین نے ایسا کچھ نہیں کیا اور یقینا نہیں کیا تو آپ کس کی روش پر چل کر موجودہ ”بیان جلالی “سے اختلاف کرکے ”ماں ،بہن ،کافر ومرتد،گم راہ وگم راہ گر،فرقہ خاطیہ کے امام،جلالی کی ماں سے خطا ہوئی ،گستاخ سیدہ ،گستاخ اہل بیت جیسے گھناؤنے مرکبات سےمسجع ومقفیٰ گالیاں دے کر “سخت وشست کہا جا رہا ہے؟اور رافضی وناصبی خارجی و شیعیت زدہ شیوخان ایران وتہران تو آگ لگا ہی رہے ہیں ستم بالائے ستم یہ ہے کہ میدان تحقیق کے عنوان میں کتابوں سے نہ بلد ،عقائد ومعمالات اہل سنت سے نہ آشنا ،لا علم لہ کے مصداق لوگ بھی اپنی علمی کاٹھ دکھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں حالاں کہ موصوف جلالی صاحب کے پیش کردہ دلائل کا رد یا اس کی دوسری کوئی توضیح وتشرح کرنے کے لیے کوئی بھی علامہ زماں تیار نہیں ہو رہے ہیں ،خدا را ! اختلاف کو اختلاف ہی رہنے دیں ،اختلاف ”اختلاف امتی رحمۃ ۔الحدیث“کریں ”اختلاف ھذا لامۃ فتنۃ ۔فقط جملہ “نہ کریں !بس،کسی بھی مسئلہ میں اختلاف کرنے سے پہلے اصول وضوابط اور دلائل کو لازم پکڑیں ،کسی کا رد کرتے ہوئے اس کی ماں بہن نہ کرکے اس کے قائم کردہ دلائل کی صحیح تشریح وتوضیح فرمائیں ،اور ہاں ایک سنی صحیح العقیدہ وہ بھی عالم کو چیلنج مناظرہ کرنے سے پہلے ٹھنڈا پانی ضرور پی لیں تاکہ ہوش وحواس باقی رہے کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی مسلمان کو کافر یا مرتد سمجھ کر ہی مناظرہ کی دعوت دے دیں ورنہ لینے کے دینے پڑ جائیں !۔

برگ حنا پہ لکھ دیا ہے درد دل کی بات ۔شاید کی رفتہ رفتہ لگے دل ربا کے ہاتھ!

 

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا