تحریر: میر امتیاز آفریں
بڈگام کشمیر
imtiyazaafreen@gmail.com
9858064648
اقوام متحدہ کے بین الاقوامی ڈرگ کنٹرول پروگرام کے سروے کے مطابق 2008 میں کشمیر میں 70000 سے زیادہ نشے کے عادی افراد تھے جن میں 4000 خواتین بھی شامل تھیں۔ سروے میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ کشمیر میں 65 سے 70 فیصد طلباء منشیات کا استعمال کر رہے ہیں اور 26 فیصد طالبات بھی اس جال میں پھنس چکی ہیں۔ تحقیق کے مطابق 70 فیصد سے زیادہ عادی افراد 18 سے 35 سال کی عمر کے گروپ میں آتے ہیں۔ 2 فروری ، 2016 کو وادی کے ایک معروف اخبار میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ، کشمیر میں دو لاکھ سے زیادہ افراد افیون کا استعمال کررہے ہیں اور ریاست کے دو بڑے سرکاری اسپتالوں نے اپریل اور دسمبر 2015 کے درمیان 69،434 منشیات کے عادی مریضوں کو دیکھا۔اس طرح کے حقائق اور مشاہدات انتہائی تشویشناک ہیں اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ منشیات کی بدعت ہمارے اطراف میں پھیلا چکی ہے اور اگر فوری طور پر اس جانب توجہ نہ دی گئی تو کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اپنی نو جوان نسل کو ہی کھو بیٹھیں۔ ایسا لگتا ہے کہ منشیات کی لت کشمیر کے ہر علاقے میں داخل ہوچکی ہے۔اگر ہم اپنے گردو نواح کو غور سےدیکھیں تو معلوم ہوگا کہ تقریبا ہر گاؤں، قصبے میں منشیات فروشوں کا ایک مافیا وجود میں آچکا ہے جو کچھ پیسوں کی خاطر نوجوانوں کو اپنے مذموم منصوبے کا شکار بناتے ہیں۔ منشیات کی لت کے اس بڑے پیمانے پر پھیلنے کے کئی وجوہات ہو سکتی ہیں، جیسے ریاست میں کئی دہائیوں سے موجود تشدد جس کے نتیجے میں نوجوان اپنا مستحکم مستقبل گنوا بیٹھے ہیں۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں میں بے روزگاری کی وجہ سے نفسیاتی بیماریوں اور پریشانیوں میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ اپنے فطری ہنر کو درکنار کرکے نوجوان منشیات کی اسمگلنگ کرنے والوں کے جال میں بری طرح پھنس چکے ہیں۔ ان کے اکسانے پر نوجوان منشیات کا استعمال کرتے ہیں اور وہ اسے ہر قسم کے غم سے نجات پانے اور سکون حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ منشیات کے اسمگلرز اپنا شیطانی کاروبار چلانے کے لئے بڑے پیمانے پر ڈرگ سپلائی کرنے کا جال بچھاتے ہیں اور جوانوں کی نو عمری کا غلط فائدہ اٹھا کر انہیں اپنے دامِ فریب میں پھانس لیتے ہیں۔ منشیات کے اسمگلرز اس گھناونے دھندے میں اس لئے آتے ہیں تاکہ کم وقت میں زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کر سکیں کیونکہ منشیات کی ڈیمانڈ بہت زیادہ ہوتی ہے اور اس کے عادی کسی بھی قیمت پر ان کو خریدنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ جو نوجوان منشیات کا استعمال کرتے ہیں وہ کئی قسم کی بیماریوں مبتلا ہو جاتے ہیں، ان میں خودکشی کرنے کے خیالات پروان چڑھتے ہیں اور اس طرح سے کافی تعداد میں جوان اپنی زندگی کھو بیٹھتے ہیں۔ عام طور پر جوان منشیات کے منفی اثرات سے بے خبر ہوتے ہیں اور دیکھا دیکھی میں کبھی ان کا استعمال کرتے ہیں مگر ایک بار عادت پڑ گئی تو پھر اس لت کو چھڑانا آسان نہیں رہتا۔ منشیات کی لت انسان کو اخلاقی، معاشرتی، نفسیاتی اور جسمانی طور پر کمزور بنا دیتی ہے اور صحت و تندرستی کو دیمک کی طرح چاٹ کر رکھ دیتی ہے۔ منشیات کو سپلائی کرنے والے روز بروز دولت مند ہوتے جارہے ہیں اور وہ اپنے کاروبار کے فروغ میں جی جان لگا دیتے ہیں اور نوجوان ان کا سب سے آسانtarget ہوتے ہیں۔ منشیات کی لت نہ صرف ان لوگوں کے لئے خطرناک ہے جو اس کے عادی ہو چکے ہیں بلکہ یہ پورے معاشرتی تانے بانے پر بھی منفی اثر ڈالتی ہے۔
منشیات کے استعمال سے انسان کے دماغ ، جسم اور روح پر خطرناک اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ منشیات کی لت کا سب سے پریشان کن پہلو یہ ہے کہ یہ ہمارے گرد و نواح میں ایک وبا کی طرح پھیل رہی ہے۔ ہماری وادی جسے روحانی روایات کی بنیاد پر ‘پیر واری’ کہا جاتا ہے میں بھی لوگ تیزی سے ہر طرح کے منشیات کے عادی ہوتے جارہے ہیں۔ اور سب سے تکلیف دہ بات یہ ہے کہ یہ لت اسکول اور کالج جانے والے نوجوانوں کو بڑے پیمانے پر متاثر کررہی ہے۔ اکثر طالب علمی کا دور ذہنی تناؤ میں گزرتا ہے، طلباء والدین اور سماج کی توقعات پر پورا اترنے اور زیادہ سے زیادہ نمبرات حاصل کرنے کی دوڈ میں ذہنی پریشانیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
منشیات کے اسمگلر ان معصوم طلباء تک رسائی حاصل کرکے انہیں اپنا شکار بناتے ہیں۔
منشیات کی لت میں گرفتار ہونے کی قیمت بہت بھاری ہوسکتی ہے۔ اس طرح کی لت کے سادہ مضر اثرات میں جسمانی خارش ، کوما اور قبل از وقت موت بھی شامل ہے۔ نفسیاتی طور پر دیکھیں تو
منشیات انسان سے اس کے جینے کا مقصد ہی چھین لیتے ہیں۔ان کے تعلیمی کیریئر پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے اور وہ کسی کام کے نہیں رہتے۔
وقت کا تقاضہ ہے کہ معاشرہ اور حکومت مل جل کر اس سماجی ناسور کی روک تھام کے لئے مستحکم موقف اپناتے ہوئے اپنی زمہ داریاں نبھائے۔ ایک کمیونٹی پلان بننا چاہئے جس پر منشیات کی لت کو روکنے کے لئے ایک جامع اور قابل عمل حکمت عملی عمل میں لائی جانی چاہئے۔جو اس لت میں مبتلا ہو چکے ہیں پہلے ان کا سراغ لگا کر drug de-addiction مراکز میں ان کی نگہداشت کی فوری ضرورت ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ڈرگ اسمگلروں کو گرفتار کر کے ان پر قانونی کاروائی کی جائے اور سماج میں پھیلائے ہوئے ان کے مافیا کو بے نقاب کیا جائے تاکہ اس مسئلے کا دائمی حل نکالا جاسکے۔
اس منصوبے میں ان مخصوص ممنوع ادویات کی نشاندہی کرنا ہوگی جو نوجوان استعمال کر رہے ہیں اور ان کی خرید وفروخت پر سخت نگرانی رکھی جائے۔ لوگوں کو منشیات کے منفی اثرات کے بارے میں جانکاری فراہم کرنے کے لئے مختلف ذرائع ابلاغ استعمال کئے جائیں۔ان پروگراموں میں منشیات کے استعمال سے بچاؤ کے طریقے سکھائے جائیں اور معاشرے کے کردار کو بھی اجاگر کیا جائے۔منشیات کی لعنت کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے مڈل اور سیکنڈری اسکولوں کی سطح پر
Community Awareness Programmes
کا انعقاد ہوناچاہئے تاکہ بچے بر وقت منشیات کے برے اثرات کے بارے میں واقفیت حاصل کرکے مفاد پرستوں کا شکار ہونے سے بچ سکیں۔ منشیات کی روک تھام کے لئے گھر ایک مضبوط قلعے کا کام انجام دے سکتا ہے۔ عام طور پر والدین اپنی مصروفیات میں مگن ہوتے ہیں اور ان کے پاس اپنی اولاد کو سمجھنے کے لئے وقت نہیں ہوتا ۔والدین کو اپنے بچوں کی فکری نشونما پر خصوصی توجہ دینی ہوگی تاکہ ان کے خیالات میں انتشار پیدا نہ ہو اور وہ سماج میں ایک مثبت رول ادا کرسکیں۔نوجوان بھی یاد رکھیں کہ منشیات کے استعمال سے انہیں ایک لمحے کا سکون میسر آتا ہے مگر اس کے نتیجے میں ان کی ساری زندگی جہنم بن کے رہ جاتی ہے۔ نشہ انسان کی یادداشت اور عزت نفس کو پامال کرکے چھوڑتا ہے اور اسے احسن التقویم کی بلندی سے گراکر اسفل السافلین تک لے جاتا ہے۔
چونکہ وادئ کشمیر میں مسلمان اکثریت میں ہیں اور اسلام میں منشیات کا استعمال حرام قرار دیا گیا ہے لہذا اس برائی کے خاتمے کے لئے مذہبی مبلغین کی خدمات کو اچھی طرح استعمال کیا جانا چاہئے۔ مختلف مبلغین ، آئمہ مساجد اور دیگر دینی تنظیموں کو اس سلسلے میں حساس بنانے کی ضرورت ہے اور مطلوبہ نتائج جلد حاصل کرنے کے لئے ان کے اثر و رسوخ سے پورا فائدہ اٹھایا جانا چاہیئے. پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’ ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔ ‘‘ (بخاری: 7172)
حضرت دیلم الحمیری روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا: اللہ کے رسول! ہم لوگ سرد علاقے میں رہتے ہیں اور سخت محنت و مشقت کے کام کرتے ہیں، ہم لوگ اس گیہوں سے شراب بنا کر اس سے اپنے کاموں کے لیے طاقت حاصل کرتے ہیں اور اپنے ملک کی سردیوں سے اپنا بچاؤ کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا وہ نشہ آور ہوتا ہے؟ میں نے عرض کیا: ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر تو اس سے بچو ۔ راوی کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: لوگ اسے نہیں چھوڑ سکتے، آپ نے فرمایا: اگر وہ اسے نہ چھوڑیں تو تم ان سے لڑائی کرو ۔ (ابو داؤد: 3683)
ایک اور مقام پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا: شراب کے پینے اور پلانے والے، اس کے بیچنے اور خریدنے والے، اس کے نچوڑنے اور نچوڑوانے والے، اسے لے جانے والے اور جس کے لیے لے جائی جائے سب پر اللہ کی لعنت ہو ۔ ( ابوداؤد:3674)
دوسرے لفظوں میں ، ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان تمام لوگوں پر لعنت ہے جو شراب یا کسی اور طرح کے نشے میں ملوث ہیں۔منقول ہے کہ جمعہ کے خطبے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ، ” خمر ” یعنی شراب کو ہر اس چیز سے تعبیر کیا ہے جو انسان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو کند کردے۔ ان کے دور خلافت میں ایک شخص کی دکان جلا دی گئی کیونکہ وہاں خفیہ طور پر شراب فروخت کی جاتی تھی کیونکہ ایک مسلم معاشرے میں کسی بھی قسم کے نشے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
منشیات کی روک تھام کے لئے حکومتی ادارے اپنا کردار ادا کرنے میں غیر مؤثر ثابت ہوئے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔منشیات کے اسمگلروں سے شہریوں کو محفوظ رکھنے کی بنیادی ذمہ داری انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے۔ مگر بدقسمتی سے وہ اس سلسلے میں اپنے فرائض منصبی نبانے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ اس معاملے میں ارباب اقتدار کی بے حسی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے یہاں شراب نوشی کو فروغ دینے کے لئے لائسنس جاری کئے جاتے ہیں اور منشیات کے اسمگلروں کو تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔
پولیس اور دیگر سرکاری ادارے اپنی آنکھوں کے سامنے اس ذہر کو سماج میں پھیلتے ہوئے دیکھتے ہیں مگر اس سلسلے میں مؤثر اقدام نہیں اٹھاتے۔کئی منشیات کے اسمگلروں کو گرفتار کیا گیا اور معمولی جرمانہ وصول کرکے بہت جلد انہیں رہا کیا گیا۔انہیں چھڑوانے کے لئے دیکھا گیا ہے کہ ارباب سیاست اپنے سفارشی پروانے بھیجتے رہتے ہیں۔ دراصل منشیات کے اسمگلرز سیاسی رسوخ حاصل کرکے اپنی کرتوت پر پردہ ڈالتے رہتے ہیں اور ان سے الجھنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں رہتی۔
ہر چھوٹے بڑے قصبے اور دیہات میں ان کا ایک مافیا کام کر رہا ہے، ان کی لالچ کی وجہ سے کتنے جوانوں کا تعلیمی کیریئر برباد ہوگیا، کتنے جوانوں کی موت واقع ہو گئی، کتنے افراد اپنی سماجی ذمہ داریوں کو چھوڑ کر بربادی کے دہانے تک پہنچ گئے۔ اگر بروقت اقدامات نہیں اٹھائے گئے تو موجودہ نوجوان نسل کا مستقبل ہی برباد ہوکر رہ جائے گا۔ نہ جانے کتنے باصلاحیت نوجوان ہیں جو نشے کی لت میں پڑ کر اپنی خداداد صلاحیتوں کو گنوا کر راہ راست سے بھٹک چکے ہیں۔ جب تک حکومت اور سماجی ادارے اپنی زمہ داری ادا نہیں کریں گے اس سماجی ناسور سے نپٹا نہیں جاسکتا۔منشیات کی لت سے وابستہ خطرات اور مضمرات کو اجاگر کرنے میں کمیونٹیز اور میڈیا کو حساس بنانے کی ضرورت ہے۔ میڈیا پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ منشیات سے جڑے طبی، نفسیاتی اور سماجی مسائل کو اجاگر کرے تاکہ لوگوں کو اس بارے میں جانکاری فراہم کی جاسکے اور متعلقہ اداروں کو جوابدہ بنایا جاسکے۔ وادی کے اطراف و اکناف میں فعال مختلف NGO’s کی رسائی کو بھی پوری طرح سے بروئے کار لانے کی ضرورت ہے تاکہ مناسب اجتماعی آگاہی کا حدف حاصل کیا جاسکے۔اس سنگین مسئلے سے نپٹنے کے لئےانفرادی کاوشیں کارگر ثابت نہیں ہوسکتیں لہذا تمام سماجی و انتظامی اداروں کو مل جل کر کام کرنا ہوگا تب جاکر منشیات کی وبا کو جڑ سے اکھاڑا جاسکتا ہے۔