ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی سے زیادہ تردفاترمیں سناٹاچھایارہا
یواین آئی
جموں/سرینگر؍؍جموں وکشمیر حکومت کے حکمنامے کے تحت ہفتہ کے روز زائد از اڑھائی ماہ بعد اس یونین ٹریٹری میں تمام سرکاری دفاتر باقاعدگی سے کھل گئے تاہم جہاں پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی کی وجہ سے دوردراز کے علاقوں سے تعلق رکھنے والے ملازمین اپنے اپنے دفاتر میں حاضر ہونے سے قاصر رہے وہیں تمام تعلیمی اداروں میں سناٹا چھایا رہا۔بتادیں کہ حکومت کے جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے جاری ایک حکمنامے میں کہا گیا تھا کہ 6 جون 2020 سے تمام افسران اور تمام سطح کا عملہ اپنے اپنے دفاتر میں باقاعدگی سے حاضر ہوں گے۔ تاہم عمر رسیدہ ملازموں، حاملہ خواتین اوت مختلف بیماریوں میں مبتلا ملازمین کو زیادہ احتیاط سے کام لینے کی تاکید کی گئی ہے۔دریں اثنا ایمپلائز جوائنٹ ایکشن کمیٹی اور جموں وکشمیر کیجول ڈیلی ویجرس فورم نے حکومت سے اس فیصلے پر نظرثانی کرنے کی اپیل کرتے ہوئے دوردراز کے علاقوں سے وابستہ ملازموں کو اپنے اپنے اضلاع میں ہی تعینات کرنے کی گذارش کی ہے۔ایمپلائز جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے صدر فیاض احمد شبنم نے یو این آئی اردو کو بتایا کہ حکومت کا یہ فیصلہ خوش آئند ہے لیکن موجودہ حالات کے پیش نظر اس میں نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی کی وجہ سے دوردراز کے علاقوں سے تعلق رکھنے والے ملازمین کا اپنے اپنے دفاتر پہنچنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن امر ہے۔موصوف صدر نے کہا کہ ہماری حکومت سے اپیل ہے کہ وہ ملازمین کو فی الحال اپنے اپنے ہی اضلاع میں تعینات رکھیں تاکہ وہ آسانی سے دفتر بھی پہنچ سکیں اور عوام کی خدمت بھی کر سکیں۔جموں وکشمیر کیجول ڈیلی ویجرس فورم کے صدر سجاد احمد پرے نے بھی ان ہی تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے یو این آئی اردو کو بتایا کہ ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی کی وجہ سے دوردراز کے ملازمین کا ڈیوٹی پر پہنچنا امر مشکل ہے۔انہوں نے کہا کہ یہاں کورونا کے مثبت کیسز میں تیزی اضافہ ہورہا ہے جس کی وجہ سے پانچ لاکھ ملازموں اور ان کے عیال کو خطرات لاحق ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ عمر رسیدہ، بیمار اور حاملہ خواتین ملازمین کے لئے خصوصی رعایت ہونی چاہئے۔یو این آئی اردو کے ایک نامہ نگار نے جب سری نگر میں بعض محکموں کے دفاتر کا دورہ کیا وہاں ملازمین سے معلوم ہوا کہ وہ اسی طرح ڈیوٹی پر حاضر ہورہے ہیں جس طرح اس حکمنامے سے قبل حاضر ہوجاتے تھے۔موصوف نامہ نگار نے کہا کہ دفاتر میں جو ملازم حاضر تھے وہ کورونا وائرس کے متعلق بحث و مباحثے میں مشغول ہونے کے ساتھ ساتھ دفاتر آنے والے سائلین کو بھی سن رہے تھے۔تاہم انہوں نے کہا کہ بہت کم لوگ دفاتر کا رخ کررہے ہیں جس کی ایک وجہ ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ کورونا کا خوف ہے۔ادھر محمد اشرف نامی ایک شہری کا کہنا ہے کہ ایک طرف تو یہاں کورونا کے مثبت کیسز میں تیزی اضافہ ہورہا ہے جس کے باعث لوگوں کو سماجی دوری برقرار رکھنے کی تاکید کی جارہی تو دوسری طرف سرکاری دفتروں کو دوبارہ کھولا جارہا ہے۔انہوں نے کہا کہ جب لوگوں کو کورونا کی روک تھام کے لئے گھروں میں ہی رہنا ہے تو ملازموں کو دفتروں میں کیا کرنا ہے۔ تاہم لوگوں کی بیشتر تعداد نے دفاتر کھولنے کے فیصلے کا خیرمقدم ہی کیا۔