محمد کامل رضا مصباحی
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ساری کائنات کے لیے رحمت بن کر اس دنیا میں مبعوث ہوئے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کی شانِ رحمت نہ صرف انسانوں کے ساتھ خاص ہے بلکہ شانِ رحمت کی وسعت میں جانوروں کے حقوق کے لیے بھی مساوات کا درس عیاں ہے۔ جانوروں کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے برتاؤ اور حالیہ دنوں بے زبان ہتھنی کے ساتھ کیے گئے بربریت کا جب تقابلی جائزہ لیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ ہمارے نبی ﷺ کی تعلیمات پر عمل کیے بغیر کوئی بھی انسان بے زبان جانوروں کے ساتھ کما حقہ حقوق کی ادائیگی نہیں کر سکتا۔ یہ ستم ظریفی کہیے کہ جس طرح تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو بالائے طاق رکھ کر روزمرہ جانے انجانے میں جانوروں کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی برتی جا رہی ہے یہ افسوس ناک پہلو ہے۔
ملک ہندوستان کا سب سے عظیم ترقی و تعلیم یافتہ ریاست کیرلا مانا جاتا ہے اسی ریاست میں ایک بے زبان حاملہ ہتھنی جانور کے ساتھ جس طرح بربریت کا مظاہرہ کیا گیا بعدہ اس کی موت نے پورے ملک کو ایک بار پھر شرمسار کر دیا ہے۔
کیرلا ایک ایسا صوبہ ہے جہاں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ لوگ پائے جاتے ہیں اگر ایسی ریاست میں ایک حاملہ ہتھنی کی انسانوں کے ذریعہ موت ہوجائے تو پھر کیرل کو تعلیم یافتہ ریاست کہنا اس کے حق میں نا انصافی ہوگی۔ ایک حاملہ ہتھنی اپنے اور اپنے بچہ کے کھانے کی تلاشی میں سڑکوں کے کنارے کنارے کیرل کے ایک گاؤں میں پہنچ جاتی ہے بے چاری ہتھنی کو اس بات کا علم ہی نہیں ہوپاتا کہ یہاں پر کچھ انسان بشکل جانور بھی ہیں جو بھوک کی جگہ موت کی گولی بھی کھلا سکتے ہیں۔ شاطر مزاج لوگوں نے بے زبان ہتھنی کے ساتھ ایسا ہی رویہ پیش کیا اور کھانا کی جگہ بارود سے بھرا انناس کھانے کو دیا اس پھل کو کھاتے ہی اس کے سونڈ میں وہ بارود پھٹ گیا جس کی وجہ سے پوری طرح سے سونڈ کے اندر کا حصہ زخمی ہوگیا اس کے باوجود اس بے زبان ہتھنی نے اس گاؤں کو نقصان نہیں پہنچایا بلکہ وہ پانی کی تلاش کرتے ہوئے ایک ندی میں جا پہنچی جہاں وہ اپنی سونڈ کو پانی میں ہی ڈبو دیا اور کبھی نہیں نکالا۔ ہتھنی کے زخمی ہونے کا یہ واقعہ لوگوں کے سامنے اس وقت رونما ہوا جب ریپڈرسپانس ٹیم کے فوریسٹ آفیسر موہن کرشن نے فیس بک پر اس ہتھنی سے متعلق ایک جذباتی پوسٹ لکھا کہ” ہتھنی زخمی ہونے کے بعد گاؤں سے بھاگتی ہوئی نکلی لیکن اس نے کسی کو تکلیف نہیں پہنچائی”۔ فیس بک پر ہتھنی کی تصاویر پوسٹ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ تصویروں میں ہتھنی کا درد بیان نہیں ہوسکتا ہے۔
محکمہ جنگلات نے ہتھنی کو پانی سے باہر نکالنے کے لیے دوسرے ہاتھیوں سے مدد بھی لی لیکن وہ زخم خوردہ ہتھنی پانی سے باہر نہیں آئی نہ جانے کیوں نہیں آئی؟ شاید اس کی دو وجہ ہوگی ایک انسانوں کے ظلم کے خوف سے دوسری وجہ اپنے درد سے۔آخر کار ۳ دن کے بعد پانی میں ہی اپنا دم توڑ دیا۔
محکمہ جنگلات نے ہتھنی کو پانی سے باہر نکال کر پوسٹ مارٹم کیا تو معلوم ہوا کہ وہ حاملہ ہتھنی تھی اور ان کی عمر تقریبا ۱۴۔۱۵ سال ہوگی۔ یہ تو ایک ہتھنی کی دردناک موت ہے جو میڈیا میں وائرل ہونے کی وجہ سے زیادہ چرچا میں ہے لیکن موجودہ لوک ڈاؤن کے شروعاتی دور میں ہی پٹنہ میں وزیر اعظم مودی کے کہنے پر چراغ جلاتے جلاتے ایک گھر میں آگ لگنے کی وجہ سے ایک بھیس کے جسم کا پورا چمڑہ جل گیا تھا اگرچہ وہ بھینس مرا نہیں تاہم تکلیف کا سامنا تو اس نے ضرور کیا ہوگا حد تو یہ ہے کہ اس بھینس پر کسی میڈیائی شخص نے آواز تک بلند نہیں کیا۔ ویسے بھی ہمارے ملک میں انسانیت کا دم توڑنا اور اس طرح کا حادثہ پیش آنا کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ پچھلے کئی سالوں سے ہندوستان میں آئے دن انسانیت دم توڑتی رہتی ہے چاہے نام نہاد گؤ رکشک اور گؤ شالاؤں میں محفوظ گایوں کو چارہ پانی نہ دے کر انھیں تڑپا کر موت کے حوالے کرنے کا معاملہ ہو یاصرف شبہ کی بنیاد پر دادری کے اخلاق اور گجرات میں گائے کی کھال اتارنے والے دلتوں پر تشدد کرکے کئی دلتوں کو موت کی نیند سلا دینے کا معاملہ ہو، حالیہ ہتھنی پر بعض لوگوں کا آنسو نکالنا بس ایک بہانہ ہے ورنہ مختلف ذرائع سے یہ بھی خبر وائرل ہوئی ہے کہ خود نام نہاد گاؤرکشکوں کا اپنے گائے ماتا سے کوئی ہمدردی نہیں ہے، کچھ صوبے جہاں بی جے پی کی سرکار ہے وہاں کے کئی گاؤ شالاؤں کا بدترین احوال گذشتہ کئی سالوں پر خوب الیکٹرانک میڈیا کی سرخیوں میں رہا، جے پور کے مشہور ھمونیا گاؤ شالہ میں ستر گائے بھوک پیاس سے تڑپ تڑپ کر مرگئیں، مہینوں سے ان گایوں کو نہ چارہ دیا گیا نہ پانی، گاؤ رکشک گایوں کے نام پر نوٹ چھاپتے رہے اور گائے ماتا دم توڑتی رہی، بعض مقامی افراد کے مطابق تقریبا 250 گائے بھوک کی تاب نہ لاکر دم توڑ دیں، یہ وہی گائے ماتا کی حفاظت کا دم بھرنے والی ٹولی ہے جو گذشتہ پانچ سالوں میں گاؤ شالہ کے نام پر بیس کروڑ کا چارہ گھوٹالہ بھی کر چکی ہے، نام نہاد گاؤ رکشکوں نے گایوں کے چارے پانی اور کھلی تک کو نہیں چھوڑا، کروڑوں روپئے کا چارہ ہضم کرگئے۔ ایسے دور میں جانوروں کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی مناسب دیکھ بھال کے حوالے سے روشن تعلیمات مذہب اسلام سے بڑھ کر کسی اور مذہب میں نظر نہیں آتیں۔
اللہ رب العزت کی ان گنت نعمتوں میں سے ایک نعمت یہ بھی ہے کہ اس نے چھوٹے سے لے کر بڑے جانور تک کو ہمارے مطیع و فرمانبردار بنادیا ہے، ایک چھوٹا سابچہ ایک بڑے اونٹ کی نکیل تھام کر اپنے قابو میں کر لیتا ہے، یہ بس اللہ عزوجل کی کرم فرمائی اورانسانیت کے ساتھ اس کا فضل ہے کہ ایک بڑے جانور کو ایک چھوٹا بچہ بھی اپنے تابع کر لیتا ہے ، ورنہ یہ ضعیف اور ناتواں انسان کی کیا حیثیت کہ وہ اس قدر بڑے قوی ہیکل، اس سے کئی کئی گنا بھاری بھرکم جسم وجثہ کے مالک جانوروں کو قبضہ قدرت میں لا سکے؟
جانورں کی اہمیت و خوبی کو بتلانے کے لیے یہ کہنا بر محل ہے کہ مذہب اسلام نے قرآن کریم میں نہ صرف متعدد جانوروں اور حیوانات کاتذکرہ کیا ہے، بلکہ کئی ایک سورتیں جانوروں کے نام سے موسوم بھی کیا ہے جیسے :
سورة البقرہ(گائے )،الأنعام(چوپائے)، النحل (شہد کی مکھی)، النمل (چیونٹی)، العنکبوت (مکڑی)، الفیل (ہاتھی)۔ ایک اور جگہ میں اللہ عزوجل نے جانوروں کے فوائد وخصائص اور ان کے منافع کو یوں بیان کیا ”اور اس نے چوپائے پیدا کیے ، جن میں تمہارے لیے گرم لباس ہیں اور بھی بہت سے منافع ہیں اور بعض تمہارے کھانے کے کام آتے ہیں،ان میں تمہاری رونق بھی ہے جب چرا کر لاؤ تب بھی اور جب چرانے لے جاؤ تب بھی،اور وہ تمہارے بوجھ ان شہروں تک اٹھالے جاتے ہیں جہاں تم آدھی جان کے نہیں پہنچ سکتے تھے ، یقینا تمہارا رب بڑا شفیق اور نہایت مہربان ہے۔“ (النحل : ۵-۸)۔
حضور اکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض جانوروں کے صفات حمیدہ اور ان کے معنوی اور اخلاقی خوبیوں کے حامل ہونے کی وجہ سے ان کے ساتھ احسان اورسلوک کا حکم فرمایا ہے، مسلم شریف میں ہے”گھوڑے کے ساتھ روزِقیامت تک خیر وابستہ ہے“۔ اور ایک روایت میں ہے کہ”اونٹ اپنے مالک کے لیے عزت کا باعث ہوتا ہے اور بکری میں خیر وبرکت ہے۔ ابوداؤد کی حدیث میں ہے کہ”مرغ کو گالی نہ دو کیونکہ وہ نماز کے لیے جگاتا ہے”۔
جانوروں کے ساتھ حسن وسلوک میں اجر وثواب بھی رکھا گیا ہے تاکہ کوئی بھی انسان گونگے جانوروں کے ساتھ برے سلوک سے پیش نہ آئے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بدکار عورت کی بخشش صرف اس وجہ سے کی گئی کہ ایک مرتبہ اس کا گذر ایک ایسے کنویں پر ہوا۔ جس کے قریب ایک کتا کھڑا پیاس کی شدت سے ہانپ رہا تھا، اور قریب تھاکہ وہ پیاس کی شدت سے دم توڑ دیتا، باوجودیکہ کنویں سے پانی نکالنے کے لیے اس عورت کے پاس وہاں کچھ اوزار بھی دستیاب نہیں تھا، تاہم اس عورت نے اپنا موزہ اوڑھنی سے باندھ کر پانی نکالا اور پیاسا کتے کو سیراب کیا، اس عورت کا یہ فعل بارگاہ الٰہی میں مقبول ہوا،اور اس کی بخشش کر دی گئی۔(مسلم)
اپنے جانوروں کے ساتھ بدسلوکی کوعذاب اور حد درجہ کی معصیت اور گناہ قرار دیا اورانسانی ضمیر کو جھنجھوڑنے والے سخت الفاظ استعمال کیے؛ حضرت امام بخاری نے روایت نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک عورت کو اس لیے عذاب دیا گیا کہ وہ بلی کو باندھ کر رکھتی تھی نہ کھلاتی نہ پلاتی اور نہ اس کو آزاد کرتی۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک گدھا گذرا، جس کے منہ پر داغا گیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دیکھ کر فرمایا: اس شخص پر لعنت ہو جس نے اس کو داغا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف یہ کہ گھریلو جانورں کے ساتھ بدسلوکی اور بے جا مارپیٹ کی ممانعت فرمائی بلکہ ان جانوروں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش نہ آنے اور بے جا پریشان کرنے سے منع کیا باوجود یکہ اس کا گوشت کھانا اسلام میں ممنوع ہے :حضرت ابنِ عباس سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں کو آپس میں لڑانے سے منع فرمایا ہے(ترمذی)۔ حضرت عبدالرحمن بن عبداللہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا ایک مرتبہ ہم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سفر میں تھے جب ایک موقع پر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئے تو ہم نے ایک چڑیا کو دیکھا جس کے ساتھ دو بچے تھے ہم نے ان دونوں بچوں کو پکڑ لیا، اس کے بعد چڑیا آئی اور اپنے بچوں کی گرفتاری پر احتجاج کرنے لگی جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر اس پر پڑی تو فرمایا کہ کون اس کے بچوں کو پکڑ کر پریشان کر رہا ہے؟ اس کے بچے اس کو واپس کر دو۔
یہ تو رہی ان جانوروں کی بات جن کا گوشت کھانا اسلام میں منع ہے لیکن جن جانوروں کو ذبح کرکے اس کا گوشت کھایا جاتا ہے ان جانوروں کو بھی تکلیف دینے سے منع کیا گیا ہے۔اور فرمایا کہ ”جب تم ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو، اپنی چھری کو تیز کرلو، اور جانور کو آرام دو“۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے بکری کو لٹایا اور اپنی چھری کو تیز کرنے لگا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کیا تم اس کو دو موت مارنا چاہتے ہو؟ کیوں تم نے اپنی چھری کو اس کے لٹانے سے پہلے تیز نہیں کر لیا۔ اس حدیث کے تناظر میں فقہا نے لکھا ہے کہ ذابح کو ذبیحہ کے سامنے چھری تیز کرنا منع ہے، اور اس کو بری طرح سے لٹانا بھی صحیح نہیں ہے۔
ایک حدیث میں ہے کہ ایک صحابی رسول نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! جب میں بکری کو ذبح کرتا ہوں تو مجھے اس پر رحم آتا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اگر تم بکری پر رحم کرتے ہو تو خدا بھی تم پر رحم وکرم فرمائےگا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے موذی اور تکلیف دہ جانوروں کو مارنے کا حکم ضرور دیا ہے، مثلا سانپ ، بچھو وغیرہ؛ لیکن ان کے مارنے میں بھی احسان اور بھلائی کا حکم دیا اور فرمایا کہ: اللہ نے ہر چیز میں احسان کرنا فرض کیا ہے؛ اس لیے جب تم لوگ کسی جانور کو مارو تو اچھے طریقے سے مارو اور جب ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو ۔(مسلم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گرگٹ کو مارنے کا حکم ضرور فرمایا ہے لیکن اس کے مارنے میں بھی نرمی اور احسان کا حکم اس طرح دیا ہے کہ مارنے میں جلدی کیا جائے تاکہ اس کو زیادہ درد کا احساس نہ ہو۔
مسلم کی روایت ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص گرگٹ کو ایک ہی وار میں مار ڈالے ، اس کے لیے سو نیکیاں لکھی جائیں گی ، دوسرے وار میں اس سے کم اور تیسرے وار میں اس سے بھی کم نیکیاں لکھی جائیں گی(مسلم)
جانور سواری کے لیے ضرور پیدا کیے گئے ہیں لیکن طویل سفر میں اس کے لیے آرام اور چرنے چگنے کا موقع فراہم کرنے کو کہا گیا ہے: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب تم سبزہ والی زمین میں سفر کرو تو اونٹوں کو انکا حصہ دو۔ یعنی سفر کے دوران اگر ہریالی دیکھو تو ان کو کچھ چرنے اور آرام لینے کا موقع دو ،بھوکا ، پیاسا مسلسل چلاکر ان کو نہ تھکاؤ۔
جانور پر اس کی طاقت اور قوت سے زیاد ہ بوجھ لادنا جائز نہیں،اس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے منع فرمایا ہے: صحابہ رضی اللہ عنہم کو اس بات کا علم تھا کہ جو شخص جانور پر اس کی طاقت اور قوت سے زیادہ بوجھ لادے گا تو اس کو روز قیامت حساب کتاب دینا ہوگا، حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے اپنے اونٹ سے کہا: اے اونٹ! تم اپنے رب کے یہاں میرے سلسلہ میں مخاصمہ نہ کرنا ، میں نے تم پر تمہاری طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں لادا (احیاء علوم الدین: الباب الثالث فی الآداب:۱/۲۶۴)
ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی انصاری کے باغ میں داخل ہوئے، اچانک ایک اونٹ آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں لوٹنے لگا، اس وقت اس کی آنکھوں میں آنسو تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی کمر پر اور سر کے پچھلے حصے پر ہاتھ پھیرا جس سے وہ پر سکون ہوگیا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس اونٹ کا مالک کون ہے؟ تو وہ دوڑتا ہوا آیا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا:”اس کو اللہ تعالیٰ نے تمہاری ملکیت میں کر دیا ہے، اللہ سے ڈرتے نہیں، یہ مجھ سے شکایت کر رہا ہے کہ تم اسے بھوکا رکھتے ہو، اور اس سے محنت ومشقت کا کام زیادہ لیتے ہو“(ابوداوٴد)
جانوروں کے ساتھ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن سلوک کا عالم یہ تھا کہ آپ جانوروں کی پیاس تک کا خیال رکھتے تھے، اور دورانِ وضو بلی کو اپنے برتن سے پانی پلاتے، اور پھر اسی بچے ہوئے پانی سے وضو فرمالیتے۔
درج بالا آیت واحادیث کا لب لباب یہ ہے کہ اگر چہ گونگا جانور کو رب قدیر نے ہمارے تابع و مطیع بنایا ہے تاہم اس کے ساتھ بد سلوکی کرنے پر عتاب کا حکم بھی سنایا ہے اس لیے ہمیں چاہیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے بے زبان جانوروں کے ساتھ بھی حسن سلوک سے پیش آئیں تاکہ آخرت میں منھ کی نہ کھانی پڑے۔
(مضمون نگار۔۔۔۔آئی آئی ایم سی دہلی کا طالب علم ہے)