از قلم :۔شیبا کوثر .(برہ بترہ آرہ ،بہار ۔)۔
۔………………………………………………………………
آج کے بدلتے حالات میں اگر کوئی طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہے تو وہ بچے ہیں ۔یہ سماج کا وہ گروہ ہے جسکو اپنے آنے والے کل کے بارے میں خود تجزیہ کرنے کا شعور نہیں ہوتا ہے اور یہ بھی اتنا ہی سچ ہے کہ یہی وہ گروہ ہے جس پر آنے والے کل کا دار و مدار ہے ۔وہی قوم یا گروہ دنیا میں ترقی کے راہ پر چل پاتی ہے جس کے بچے کی تعلیم و تر بیت صیح نقوش پر ہوتے ہیں ۔اور جو ذہنی اور جسمانی طور پر صحت مند ہوتے ہیں ۔اور جن کے اخلاق و کردار بہتر ہوتے ہیں ۔
جب سے کورونا کی وبا آئ ہے جسکی وجہ کر آج پوری دنیا ایک ہیجانی کیفیت سے دوچار ہے ۔اس بے پناہی کے عالَم میں سماج کا ایک بڑا طبقہ ایسے حالات سے دوچار ہے جہاں پیٹ کی آگ بجھانا ہی لوگوں کا فرض اولین بن جاتا ہے اور لوگ دو وقت کی روٹی کی فکر میں سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ابھی جو خبریں ابھر کر سامنے آ رہی ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت اور بہت سارے فلاحی ادارے اپنے اپنے طور پر فلاحی کاموں میں لگے ہیں لیکن دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایک بڑا طبقہ بیکار ی کا شکار ہو چکا ہے جسکی دنیا تاریک ہو چکی ہے اور اس میں سب سے زیادہ وہ لوگ ہیں جو معاشی طور پر کمزور ہیں ۔
اب سوال یہ ہے کہ جن کے فکر کا محور زندگی بچانا ہو وہ اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں کیا سوچیں گے اور کیا پلا ننگ کرینگے ۔جب کے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے ضروری ہے کہ گھر کا ماحول بھی ساز گار ہو اور آس پاس کا معاشرہ بھی صاف ستھرا ہو ۔یہ ضروری نہیں کہ ہر ماں باپ پڑھے لکھے ہوتے ہیں لیکن معاشرہ کے اثرات ایک دوسرے پر مر تب ہوتے ہیں ۔اگر کوئی جاہل آدمی بھی اچھے لوگوں کے بی بیچ رہتا ہے تو عام طور پر وہ بھی اچھی سوچ کا حامل انسان ہو جاتا ہے اور جسکا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے اندر بھی یہ شوق پیدا ہوتا ہے کہ چلو اگر میں نے تعلیم حاصل نہیں کی تو اپنے بچوں کو صیح تعلیم و تر بیت کا انتظام کیا جائے اور اس کو پورا کرنے کے لئے وہ اپنی کمائی کا ایک بڑا حصّہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر خرچ کرنے کو تیار رہتا ہے ۔
آج جو لاکھوں لوگ گاؤں سے شہر کی طرف ہجرت کر کے گئے تھےاس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ گاؤں میں کوئی اچھا اسکول یا تعلیمی ادارہ نہیں تھا جہاں وہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کا بہتر انتظام کر تے۔ شہر میں رہنے کی وجہ یہ بھی بنی کہ وہاں چار پیسے کمانے کا ذریعہ بھی تھا اور ساتھ ساتھ بچوں کو پڑھنے کےمواقع بھی مل جاتے تھے ۔
انسانی تاریخ شاہد ہے کہ جب جب انسان نے جہالت و کم ہمتی کے مذموم خصایص کو اپنایا اور دنیا کے تقاضوں سے بے فکر ہوا یہ درندوں سے بڑھ کر خونخوار،ظالم اور سفاک بنا ایک دوسرے کا قتل و قتال ،باہمی عداوت و دشمنی اور استحصال وحقوق کی پامالی کا جذبہ ء فاسدہ اس کو ایک۔ حقیر، ذلیل اور بیکار انسان کی صورت میں بھڑ کا تا رہا اور پھر اس نے دشمنوں سے مار بھی کھائی،ذلت و رسوائی بھی اٹھائی اور معاشی معاشرتی اور اخلاقی تباہی کا بھی شکار ہوا ۔لیکن جب بھی اس انسان نے علم کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑا جہل نادانی اور کاہلی کی نا پاک عادتوں کو لگام لگایا تو اس کی خوا بیدہ صلاحیتیں بیدار ہوئیں ۔اخلاقی اقدار نے چمک دمک کے ساتھ معاشرے میں اپنا وجود تسلیم کروایا ۔اور دنیاوی ترقی کی راہیں کھل گئیں ۔ہر محاذ پر حیرت انگیز ترقیاں ہوئیں اور اس کے بد و لت تسخیر عالم کے بڑے بڑے کارنامے انجام دئے ۔
دوسری طرف جہالت و نا خوا ندگی تمام تر تباہی کا مو جب ہوتی ہے پہلے کے دور میں چند افراد لکھنا پڑھنا جانتے تھے ۔لیکن آج دنیا میں ہر طرف علم کا چرچہ ہے قومیں علم کی بنیاد پر آسمانوں میں کمند یں ڈال رہی ہیں روز بروز جدید تحقیق ہو رہی ہے یعنی علم کا ہی دور دورہ ہے جو قوم علم میں آگے ہے وہی ترقی کے منازل طے کر رہی ہے تعلیم و تعلم کا ایسا ماحول قائم ہوا کہ ترقی یافتہ ملک میں نا خواندگی کی شرح بہت کم ہو گئی ہے ۔لیکن ہمارا ملک تو پہلے سے ہی نا خواندگی کی مار جھیل رہا ہے اور اس عالمی وبا نے تو رہی صیح کثر بھی پوری کر دی اور سرِ دست پورا تعلیمی نظام لگ بھگ ٹھپ ہے ۔اس وقت ہماری حکومت اور بہ ذات ِخود ہر تعلیم یافتہ افراد اپنی۔ اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے علم کے پرچم کو بلند کرینگے اور اس کو سر نگوں نہیں ہونے دینگے تو کل کو کامیابی ہماری قدم چومے گی ۔اس کے لئے جو بھی قیمت ادا کرنی ہو وہ دے ۔ہمارے خیال سے حکومت اور عوام کا با شعور طبقہ مل جل کر ایک ایسا فارمولہ بنائے جس سے ہمارے ملک کے ذہین بچے جسکو قدرت نے ذہانت عطا کی ہے وہ علم حاصل کرنے میں پیچھے نہیں رہ جاۓ ۔اس میں غریب اور امیر کو یکساں سہولت فراہم ہونا چاہئے کیونکہ اگر غربت کی وجہ سے کوئی ذہین بچہ علم سے دور رہ جاتا ہے تو یہ اسکا نقصان تو ہے ہی ساتھ ساتھ ملک قوم اور ملّت کا بھی بہت بڑا خسارہ ہے۔
کسی قوم کے مثبت نتایج کے لئے عوامی بیداری کا ہونا بہت ضروری ہے ،یہی وہ سرمایہ ہے جسکی بدولت کوئی بھی ملک بہت آسانی سے اپنا ہدف پا لیتا ہے ۔عوامی بیداری کے لئے ضروری ہے کہ حکومت عوام کو اپنے ساتھ جوڑے ۔عوام کو جوڑنا کوئی اتنا آسان بھی نہیں ہوتا ہے اس کے لئے حکومت کو ہر محاذ پر عوام کو یہ احساس دلانا پڑتا ہے کہ حکومت کا مقصد ہر حال میں عوام کو سہولت مہیا کرانا ہے۔ جس کے لئے ضروری ہے کہ ایک ایسا نظام ہو جس میں استحصال کے خلاف جنگ اور اس کا خاتمہ،سرمایہ داری کا انسداد،انسانی دوستی اور حقیقت پسندی جیسے اوصاف نمایاں ہوں۔
بچوں کے کامیاب مستقبل کے لئے ان کے تعلیم وتر بیت کا بہتر انتظام کرنا بیحد ضروری ہے ۔اس کے لئے ایک بہتر تعلیمی نظام ہونا چاہئے ۔حکومت کی جو کوشش ہے وہ تو اپنی جگہ ہے لیکن حکومت کی کوشش تبھی کامیاب ہوتی ہے جب اس کا نفاذ سہی ڈھنگ سے ہو پاتا ہے ۔
آج کے حالات اب پہلے جیسے نہیں رہے ۔غریب اور مزدور ہجرت کرنے پر مجبور ہیں اور اپنے اپنے گاؤں اور قصبے میں لوٹ رہے ہیں اس وقت ضروری ہے کہ گاؤں ،قصبہ ،یا چھوٹے چھوٹے شہر وں میں جو تعلیم یافتہ طبقہ ہے وہ آگے آئے اور حکومت کے افسر ان سے مل کر ایک ایکشن پلان تیار کرے جس سے ایسے پریشان حال لوگوں کی مدد ہو سکے اور ان کے بچوں کا مستقبل بھی سنوارا جا سکے۔ ابھی کے حالات میں تعلیمی نظام کے بارے میں ایک غیر یقینی صورتحال بنی ہوئی ہے فی الحال سارے اسکول کالج بند ہیں ۔کچھ جگہوں پر آن لائن کلاسز کا انتظام کیا گیا ہے ۔لیکن یہ کہاں تک کامیاب ہوگا یہ تو وقت ہی بتاۓ گا ۔اس کے نا کامیابی کی وجہ ہمارے ملک کا معاشرہ ہو سکتا ہے جہاں کے گارجین عام طور سے تعلیم یافتہ نہیں ہوتے ہیں اور اس۔ طرح کے تعلیمی نظام میں خاص کر چھوٹے درجے کے بچوں میں شاید یہ اتنا کامیاب نہیں ہو سکتا کیونکہ درجے کے کلاس کے بچوں کو اساتذہ کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے ۔بچے جب کلاس میں رہتے ہیں تو اساتذہ بچوں کے ذہنی معیار کے مطابق انہیں سمجھانےکی کوشش کرتے ہیں کیوں کہ یہ کوئی ضروری نہیں ہوتا کہ ہر بچہ ایک ہی جیسا ہو ۔الگ الگ بچوں کی ذہنی صلاحیت الگ الگ ہوتی ہے ۔لیکن اون لائن کلاسسز میں پڑھنے پڑھانے کا طریقہ بالکل الگ ہوتا ہے ۔اس میں اگر گار جین خود پڑھے لکھے ہیں تب تو کسی حد تک اپنے بچوں کو گائڈ کر سکتے ہیں مگر جو گارجین غیر تعلیم یافتہ ہیں ان کے لئے مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے کہ اپنے بچوں کی کچھ مدد کر سکیں ۔جس کا خسارہ یقینی طور پر بچو ں کو اٹھانا پڑے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
sheebakausar35@gmail.com