مرحوم چودھری منظور گلشن

0
0
مضمون نگار: چودھری ایاز  احمد ہکلہ
راجوری  8803197920
 چودھری منظور گلشن صاحب مرحوم انتہائی ذہین اور باکمال انسان تھے، اللہ تعالی نے آپ  کو انتہائی شاندار شخصیت کے سا تھ پیدا کیا تھا۔ آپ کو بے انتہا خوبیوں اور صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ آپ کسی بھی قسم کی مشکل سے یا دن رات محنت کرنے سے نہیں گھبراتے تھے۔ آ پ عزم اور ارادے کے پکے تھے۔ آپ حوصلہ مند اور بہادر تھے۔ آپ ہمیشہ دوسروں کے ہر اچھے اقدام کو تحسین و تعریف کی نظر سے دیکھتے تھے۔آپ مشکل سے مشکل حالات میں بھی سچ بولتے تھے۔ آپ بہت با اخلاق اوراعلی ظرف شخصیت کے مالک تھے۔ آپ بہت منکسر المزاج تھے اور دوسروں کا خیال رکھتے تھے۔ آپ اپنے دوستوں کی ہر مشکل وقت میں مدد کرتے تھے۔ آپ اپنی ملازمت نہایت ایمانداری کے ساتھ کرتے تھے۔ آپ سے ایک بار ملنے کے بعد لوگ آپ سے دوبارہ ملنا پسند کرتے تھے۔ آپ جس محفل میں بھی جاتے وہاں لوگ آپ کو بہت زیادہ عزت دیتے تھے کیونکہ آپ لوگوں کو بھی بے پناہ عزت اور پیار دیتے تھے۔ جو لوگ مشکل حالات میں آپ سے مدد مانگتے آپ ان سے خندہ پیشانی سے بات کرتے تھے اور مسکراتے ہوئے ان کی ہر ممکن مدد کرتے تھے۔ یہ معاشرہ آپ جیسے لوگوں کی وجہ سے ہی اتنا خوشحال اور ترقی یافتہ ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہر وہ شخص جس نے کچھ وقت، خواہ چند لمحے ہی اپکی معیت میں گزارے ہوں ان کی تعریف میں رطب اللسان نظر آتا ہے۔ منظور گلشن صاحب تو ہمیں ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر چلے گئے اور داغ مفارقت دے گئے۔ لیکن اپنے پیچھے ایک ایسی زندگی چھوڑ گئے جو قدم قدم پر  ہمارا سرفخرسے بلند کر دیتی ہے۔ صرف ہم ہی نہیں زمانہ بھی ان کی مثال دیتا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ اگر منظور گلشن صاحب نہ ہوتے تو آج میں اس مقام پر نہ ہوتا۔ تو کوئی کہتا ہے کہ یہ منظور صاحب کی ذات ہی تھی جنہوں نے زندگی کے ہر موقع پر بلا غرض و غایت مدد کی۔
غریب کیا امیر کیا، اپنے کیا پرائے کیا۔ ہر شخص ان کی تعریف کرتا نظر آتا ہے۔ وہ تھے بھی ایسے۔ اخلاص ان کی شخصیت میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ تحمل، بردباری اور برداشت ان کا خاصہ تھے۔ نرم و شفیق لہجہ، حسن اخلاق، زندہ دلی اور دور اندیشی و دانائی اخلاق سے مراد باہمی ادب و احترام، ہمدردی اور خیرخواہی، تواضع و انکساری، خلوص،  فرض شناسی، پرہیزگاری، توکل، بیمار کی عیادت کرنا، پڑوسی کا خیال رکھنا، سچ بولنا، جھوٹ سے بچنا، دوسروں کی ناپسندیدہ باتوں پر صبر کرنا، دوسروں کے لئے آسانیاں پیدا کرنا، دوسروں کی غلطیوں سے درگزر کرنا، کینہ سے بچنا، مظلوم کی مدد کرنا، خود ظلم کرنے سے بچنا، حاجت مند کی حاجت پوری کرنا، اپنے اہل و عیال کا خیال رکھنا، صلہ رحمی کرنا، حسد، کبر، جھوٹ، بغض، غیبت، ریا کاری اور لغویات سے بچنا، ان سب خوبیوں سے مرقع تھے۔ رعب اتنا تھا کہ گاؤں میں بچے تو کیا بڑے بھی ان کی عزت کرتے تھے۔
پیدایش: منظورگلشن صاحب کی پیدائش 1954 میں ضلع راجوری کے  گاوں پلانگڑھ  میں حاجی غلام حسین کسانہ کے گھر میں ہوئی ۔ ان کا نام منظورحسین رکھا اور شعر وشاعری کے میدان میں طبع آزمائی کرنے کے لئے تخلص گلشن رکھا اور یوں منظور گلشن ہو گئے۔
ابتداعی تعلیم: منظور گلشن صاحب نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں پلنگڑھ کے املیمٹی اسکول  سے ہی حاصل کی تعلیم حاصل کرنے کی انکے اندر بہت بڑی تڑپ تھی یہ وہ دور تھا جب وسائل کی بہت بڑی کمی تھی اور بہت زیادہ غریبی تھی ۔ یہ وہ وقت تھا جب پہننے کو کپڑا اور جوتا تک میسر نہیں ہوتا تھا۔  یہ سب کچھ دیکھتے ہوے انکے والدین نے انکا داخلا گورنمنٹ ہائی اسکول اجیان میں کروایا جہاں سے انہوں نے میٹرک کا امتحان پہلی ڈویژن میں پاس کیا۔ اور یہاں یہ بتانا بڑا ضروری ہے کے پلانگڑھ سے اجیان اسکول کی دوری 10 کلومیٹر تھی اور وہ یہ سفر روزانہ پیدل کرتے تھے ۔ وہ تعلیم کے ساتھ ساتھ  گھر کے کاموں میں اپنے والدین کا ہاتھ بھی بٹاتے تھے۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد انہوں اپنی تعلیم جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اب انہوں نے کالج میں داخلہ لینا تھا اور کالج اس شہر میں نہیں تھا اسکےلئے انہیں اپنا شہر چھوڑ کر دوسرے شہر میں جانا تھا۔ اس وقت کالج تک پہنچنا بھی مشکل تھا صرف چند ایک شاگرد ہی تعلیم حاصل کرنے کے لے کالج تک پہنچتے تھے۔ کالج  دوسرے شہر میں تھا، اس لئے انہوں نے پونچھ کالج داخلہ لے لیا اور تعلیم جاری رکھی۔ پونچھ میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے سوشیالوجی میں جموں یونیورسٹی سے ماسٹرس کی اور بی ایڈ مولانا آزاد کالج جموں سے کی تھی۔ اور پھر علیگڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم اے اردو کی ڈگری بھی حاصل کی۔ اسوقت وسائل بہت کم تھے  اور بہت زیادہ غریبی تھی لیکن تعلیم حاصل کرنے کا  جزبہ اتنا تھا کے غریبی وسائل کبھی انکے آگے رکاوٹ نہ بن  سکے۔ مالی حالت کمزور ہونے کی وجہ سے وہ خود بھی محنت مشقت کیا کرتے تھے۔  وہ بڑے محنت کرنے والے تھے اور کبھی ہار نہیں مانتے تھے۔ انہوں نے اپنی تعلیم بڑی تنگی کے ساتھ مکمل کی اور حالات کے اگے سر نہیں جکھایا بلکہ پورا مقابلہ کر کے فتح حاصل کی۔ غربت کا تصور اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کے گاؤں میں بھی کہیں ایک آدمی ملازم ہوا کرتا تھا۔ اور لوگ بڑی تنگدستی کی زندگی بسر کرتے تھے ۔یہ تمام مصیبت اور پریشانی دیکھ کر انہوں نے اپنی تعلیم مکمل کی ۔
ملازمت: اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ان کو 1979 میں جموں کشمیر محکمہ تعلیم میں بطور استاد کے طور پر ملازمت ملی۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب ملازمت ملنا کسی خواب کا سچ ہونے کے برابر تھا کیونکہ دور دور تک کہیں ملازمت کا نام و نشان تک نہ تھا اور ہر طرف بے روزگاری اور غربت بہت ہوتی تھی ۔ اس کے بعد 1982 میں انہوں نے اپنے ہی ماموں کے گھر شادی کرلی۔
ملازمت براے وارڈن گجر ہوسٹل: وہ اتنے قابل اور ذہین تھے کہ محکمہ تعلیم میں انںہے لوہا منوانے میں دیر نہ لگی اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ 1987  میں جب وہ بطور ماسٹر محکمہ تعلیم میں کام کر رہے تھے اسی وقت ان کی قابلیت اور ذہانت کو دیکھ کر  انہیں یہاں سے تبدیل کرکے ڈوڈہ میں گجر ہوسٹل کا وارڈن مقرر کیا گیا  اور وہاں پر انہوں نے گیارہ سال تک گجر ہوسٹل کے وارڈن کے طور پر کام کیا یہ ان کی زندگی کا وہ سنہرا دور تھا جسے وہ آخری دم تک یاد کرتے رہے جتنا وہ ڈوڈہ اور ڈوڈہ کی عوام سے پیار رکھتے تھے اس سے کہیں زیادہ  وہ لوگ ان سے محبت کرتے تھے جس کا ثبوت انہوں نے ایک نہیں بلکہ کئی بار دیا۔ ڈوڈہ میں ان کے لیے کام کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ بہت زیادہ دشوار بھی تھا۔ وہاں کی گجر قوم جس کے لئے یہ گجر ہوسٹل بنایا گیا تھا وہ بہت زیادہ پچھڑے ہوئے لوگ تھے۔لیکن جس قدر ان کے اندر قوم کے لئے درد اور جذبہ تھا انہوں نے اس ناممکن کو بھی ممکن کر دیا ۔وہ ڈوڈہ کے ہر ایک گاؤں گھر اور محلہ تک گئے اور وہاں سے بچوں کو لاکر ڈوڈہ کے گجر ہوسٹل میں داخلہ دلوایا۔ یہ کام کتنا مشکل تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس ڈوڈہ کے آج تین ضلع بنے ہوئے ہیں ڈوڈہ، کشواڑ اور رامبن  تین ضلع میں گھر تک جانا کتنا مشکل تھا  لیکن قوم کے درد میں انہوں نے یہ سب کیا ۔انہوں نے صرف بچوں کو وہاں سے لاکر نہیں چھوڑ دیا بلکہ ان کی تعلیم پر کڑی توجہ دی اور نوکری سے ہٹ کر ان کی دینی اور سیاسی رہنمائی بھی کی جس کی بات ڈوڈہ کے لوگ آج تک کرتے ہیں۔ اسی سب کی وجہ سے ڈوڈہ سے آج تک جو بھی گجر آفیسر نکلے ہے وہ ان ہی کی خواہش کا نتیجہ ہے۔آج بھی ڈوڈہ کی عوام انہیں اپنا محسن سمجھتی ہے۔ ڈوڈہ کے نامور گجر شاعر جان محمد حکیم ان کے اولین شاگرد میں سے ہیں۔ ان کے کام کی تائید کرتے ہوئے مولانا عطاءاللہ سہروردی نے کہا تھا کہ میں نے یہاں سب  کو جگایا صرف ایک قوم بچ گئی تھی جسے آکر آپ نے جگایا ہے۔ ڈوڈہ سے ہی انہوں نے گجر ہوسٹل کی گجر ٹوڈے نام کی ایک میگزین نکالنی شروع کی۔ واضح رہے پنجاب سے نکلنے والی گجر ٹوڈے انگریزی میں ہے جبکہ یہ ہوسٹل کی میگزین اردو اور گوجری شاعری پر مبنی تھی۔ جس میں وہاں کے نوجوانوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ۔ڈوڈہ سے ان کے پیار کا اس وقت پتہ چلا جب 1995 میں ان کا ایکسیڈنٹ ہوا جس میں ان کی ٹانگ ٹوٹ گئی تھی اور جس گاڑی میں ان کو لایا جارہا تھا لوگوں نے اس گاڑی میں اپنے سر کے عمامہ اور لنگی  نکال کر ان کی ٹانگ باندھی تھی تاکہ ان کے جسم سے خون اور زیادہ نہ نکلے اور ہسپتال میں ان کو خون دینے کی جب باری آئی تو لوگوں کا ایک تانتا بند گیا تھا اس وقت ہسپتال میں ہر طرف ان کے چاہنے والے ہی نظر آ رہے تھے ۔ ڈوڈہ سے ملے اس پیار کا ذکر وہ اپنے آخری دم تک کرتے رہے ڈوڈہ میں انکی دوستی مولانا عطاءاللہ سہروردی، مشتاق آفریدی، امین قمر ، پروفیسر جاوید مغل ،  مولانا غلام قادر، عبدالقیوم ندوی ،اصحاق زرگر، چوہدری علی محمد ،  چودھری سلام دین، لطیف بانیاں  ،چوہدری ابراہیم وغیرہ سے بڑی اہم دوستی تھی اور یہاں بھی انہوں نے اپنے علمی اور ادبی حلقے میں اہم مقام  بنا لیا تھا۔وہ اکثر ڈوڈا کے لوگوں کا پیار محبت دیکھ کر وہ اپنے دوستوں اور احبابوں سے یہ کہتے تھے کہ اگر وہ ڈوڈا سے چاہیں الیکشن لڑیں تو وہ بڑے آسانی سے کامیاب ہو سکتے ہیں ۔ 1998 میں ڈوڈہ کے لوگوں کے لئے وہ دن بڑا دکھ کا تھا جب ان کو ڈوڈا سے تبدیل کرکے پونچھ میں گوجر ہوسٹل کا وارڈن مقرر کیا گیا ۔ڈوڈا کی طرح پونچھ میں بھی انھوں نے اپنا ادبی کام جاری رکھا اور مولانا غلام قادر سے ان کی لمبی لمبی ملاقاتیں ہوتی رہتی تھی ۔اسی طرح سن 2000 میں ان کو پونچھ سے تبدیل کرکے ادھمپور میں گجر ہوسٹل کا وارڈن مقرر کیا گیا وہاں کے حالات بہت زیادہ مشکل تھے ہوسٹل برائے نام تھا یوں کہا جائے کہ ہوسٹل نہیں گیسٹ ہاوس زیادہ تھا ۔انہوں نے وہاں جا کر سب کچھ آہستہ آہستہ ٹھیک کر دیا اور پوری توجہ بچوں کی تعلیم پر دی جانے لگی ادھمپور سے پہلے آئی اے ایس آفیسر فاروق چودھری انہی کی کوشش کا نتیجہ تھا یہاں انکی دوستی ڈی سی سعیدخان، ایڈووکیٹ شفیع چوہدری اور نواب دین کسانہ صاحب وغیرہ سے بڑی گہری ہوگئی ۔ ڈوڈا اور پونچھ کی طرح یہاں بھی انہوں نے جم کر محنت کی اور ان  کے کام کی بہت زیادہ تعریف ہوئی ۔ 2002 میں ان کو ادھمپور سے تبدیل کرکے راجوری گجر ہوسٹل کا وارڈن مقرر کیا گیا اور یہاں جو انہوں نے کام کیا وہ اپنے آپ میں ایک مثال ہے جس گجر ہوسٹل کو سیاسی اڈے کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا جس کی چھت سے پانی ٹپکتا تھا اسی ہوسٹل کی شان و شوکت میں چار چاند لگا دیئے  چاہے وہ تعلیمی میدان ہو یا دوسری سرگرمیاں  اور ہر جگہ گجر ہوسٹل کے بچے اول مقام حاصل کرنے لگے۔ اور راجوری گجر ہوسٹل وہ پہلا گجر ہوسٹل تھا جس کے بہت سارے  بچے ڈاکٹر اور انجینئر سلیکٹ ہوئے تھے۔ ان کے کام کی اس وقت اتنی بڑی سراہنا کی گئی تھی کہ اس وقت کے گورنر ایس کے سنہا نے گجر ہوسٹل کا دورہ کرکے انہیں مبارکباد پیش کی تھی۔ انہوں نے راجوری میں اس وقت تاریخ رقم کردی تھی جب بابائے گوجری رانا فضل حسین کے لئے ایک کنونشن مقرر کیا جس میں بابائے گوجری رانا فضل حسین نے خود شرکت کی تھی ۔ شاید یہی بات کچھ لوگوں کو ناگوار گزری اور ان کی مخالفت ہر طرف ہونے لگی لیکن وہ بھی کبھی جھکے نہیں ڈٹے رہے اور کہتے تھے مخالفت سے میری شخصیت سنورتی ہے ۔ انہوں نے 2010 گجر ہوسٹل راجوری نے بطور وارڈن کام کیا اور پھر 2013 میں ڈائٹ راجوری سے ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔    منظور گلشن صاحب کی ایک بات ہمیشہ سے خاص رہی ہے چاہے وہ ڈوڈہ پونچھ ادھمپور یا راجوری  کا گجر ہوسٹل ہو انہوں نے گجر ہوسٹل کے  بچوں کے کھانے پینے اور پہننے پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا ہمیشہ ان کو اعلی غذا اور اچھی قسم کا لباس پہنے  کو دیا کرتے تھے لیکن دوسری طرف تعلیم میں کبھی کسی قسم کا بھی کوئی سمجھوتہ نہیں تھا اور بڑی سختی سے تعلیم کے معاملے میں بچوں سے پیش آتے تھے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ان کے گجر ہوسٹلوں سے پاس ہوئے نوجوان اچھے عہدوں پر اور اعلی مقام پر فائز ہیں ۔وہ ہمیشہ سےہی گجر ہوسٹل کے بچوں کو اپنا بچہ سمجھتے تھے اور ان کی ایسی تربیت کرتے تھے جیسے ماں باپ اپنے بچوں کا خیال رکھتے ہیں اور ہمیشہ ان کا ایسا ہی خیال رکھا کرتے تھے ۔اور اسی کی وجہ سے آج ان کے  اپنے بچے اچھی جگہ پر پہنچ چکے ہیں ۔پسماندگان میں منظورگلشن صاحب کے تین بچے اور تین بچیاں ہیں جن میں سے دو ڈاکٹر، ایک لیکچریر ، اور انکا بڑا بیٹا راشد الاسلام جموں کشمیر  بنک میں بنک مینیجر ہے۔ اور ایک بچی نیٹ کوالیفائی ہے
ادبی زندگی: ادبی دنیا کی طرف شروع سے ہی ان کا بڑا رجحان تھا  ادبی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا انکو طالب علمی کے دور سے ہی بڑا شوق تھا ۔جب ایم اے ایم کالج سے بی ایڈ کر رہے تھے تب اس زمانے میں ان کی ملاقات بانی گوجری صحافت مرحوم سروری کسانہ صاحب سے ہوئی اور  پہلی ہی ملاقات کے بعد سروری کسانہ پھر انہیں کبھی نہ چھوڑ سکے۔ اور پھر وہ ہمیشہ اپنے بہت سارے قومی مسائل کا تذکرہ ان سے کیا کرتے تھے ۔منظور صاحب سروری صاحب کے رسالہ گجردیش کے لئے کام کرتے تھے جو نہایت ہی خوبصورت جریدہ تھا، اور گجربکروال قوم کا نمائندہ رسالہ تھا۔ اس رسالہ کے ذریعے کئیں عوامی مسائل کو ابھارا جاتا تھا جس میں منظور صاحب تواتر سے لکھا کرتے تھے اور ان کی تحریروں کو بہت سراہا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ وہ سروری صاحب کے اخبار نوائے قوم کے لئے بھی لکھا کرتے تھے۔ اسی دوران ان کی گوجری شاعری بھی اس رسالے میں چھپا کرتی تھی جسے بہت پسند کیا جاتا تھا۔ اسی وقت بیگم عبداللہ یعنی مادر مہربان نے جب اس رسالہ میں منظور صاحب کو پڑھا اور پھر گلشن صاحب کو بلایا اور یہ ملاقاتوں کا سلسلہ چلتا رہا ۔الغرض یہ کہ جس نے بھی یہ رسالہ پڑھا اور ان کی تحریروں کو پڑھاوہ ان سے ملے بغیر نہ رہ سکا۔ منظور گلشن صاحب نے شعری اور نثری دونوں اصنافِ سُخن میں طبع آزمائی کی ہے۔ اور ان کی شاعری میں کمال کی جاذبیت موجود ہے۔ نثر پر بھی اچھی پکڑ ہونے کی وجہ سے کافی مقبولیت حاصل کی اور کئی ادبی محفلوں میں مقالات کے ذریعے خوب داد حاصل کی۔ ملازمت ملنے کے بعد انہوں نے راجوری میں گجر اصلاحی کمیٹی قائم کی جو ادبی اور علمی سرگرمیوں میں شامل رہی ۔اپنی قوم کے لئے درد ان کے سینے میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا ۔ راجوری اور ادھمپور ہوسٹلوں سے بھی انہوں نے گجر کانفرنس اور گجر کل اور آج کے نام سے رسالے نکالے جو بڑے مقبول ہوئے۔ان رسالوں کو بھی لوگوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور انکے کام کی سراہنا ہر طرف ہونے لگی۔ ایک بہترین شاعر کی حثیت سے ان کی نظم
"کون کسے گو کد تک وے گو”
آج بھی زبان زد عام ہے ۔
ایک بار جب راجوری میں رانا فضل حسین بابائے گوجری کاکنونشن کروایا اسی کنونشن میں جب ان کی ملاقات ہوئی تو بابائے گوجری نے پاکستان جاکر ایک نظم کتاب کے احوال میں لکھیں
"بیل کسانہ کی رہ نت پھلتی  تیرا باغ وا سدابہار گلشن”
اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ رانا فضل حسین جناب منظور گلشن صاحب سے کتنے متاثر تھے ۔  وہ ریاستی کلچرل اکیڈمی کے گوجری شعبہ تیسرے ممبر تھے۔ اردو میں ان کو اتنی بڑی مہارت حاصل تھی کے ان کے سامنے بڑے بڑے سکالر خاموش ہو جاتے تھے وہ بھی صرف اردو ہی نہیں بلکہ گوجری عربی اور انگریزی پر بھی ان کو بہت بڑی مہارت حاصل تھی اور ان کے سامنے ان کے بڑے بڑے سکالر خاموش ہو جاتے تھے۔ ادبی دنیا سے ان کو بہت لگاؤ تھا ۔انہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ  کتابوں کا مطالعہ کرنے پڑھنے اور کتابیں لکھنے میں گزار دیا تھا انہوں نے ریاست جموں کشمیر کے اولیااکرام پر بھی ایک کتاب لکھی ہے۔ دنیاوی علم کے ساتھ ساتھ وہ دینی علم میں بھی مہارت رکھتے تھے قرآن پاک کی بیشتر تفسیر یاد تھیں۔ چاہے وہ مولانا حمیدالدین فراہی ہو امین حسن اصلاحی ہو ، مولانا مودودی ہو یا مولانا ابوالکلام آزاد ہو  سب کے دیوانے تھے اس کے علاوہ ڈاکٹر اسرار سے بڑے متاثر تھے اور کہتے تھے اور اس دور میں کوئی عالم ہے تو وہ یہی ہے۔ پڑھنے لکھنے کا آنا اتنا شوق تھا کہ بیماری کے اس دور میں بھی کتاب لکھ رہے تھے اور شاعری سے بہت زیادہ لگاؤ تھا انکو  علامہ اقبال، حافظ جالندھری ، حبیب جالب، بشیر بدر ، مرزا غالب ، داغ دہلوی ان کے پسندیدہ شاعر تھے ۔ اور کبھی کبھار بولتے تھے کہ مجھے جب دور حاضر کے اندھیرے گھیر لیتے ہیں تو چودہ سو سال پیچھے پلٹ کر دیکھ لیتا ہوں۔ انکی ایک بات خاص تھی کے وہ پڑھنے سے زیادہ لکھنے پر ترجیح دیتے تھے۔ ایک بار ان سے کسی نے کہا کے فلاں شخص بڑا پڑھا لکھا ہے تو انہوں نے بڑھے غصہ سے کہا تھا کے پڑھنے اور لکھنے میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔کیونکہ  ہر کوئی پڑھ تو سکتا ہے لیکن لکھنا ہر آدمی کے بس کی بات نہیں ہوتی ۔ اس بات سے ان کی شخصیت کا پتہ چلتا ہے کیونکہ لفظ لکھنے کی قدر وہی جانتا ہے جو خود لکھتا ہے ۔ بہت جلد ان کے گوجری اور اردو شاعری کا جتنا بھی کلام ہے اس کو شائع کیا جا رہا ہے اس پر ان کے فرزندان کام کررہے ہیں۔
دوست واحباب: جس شخص سے وہ سب سے زیادہ متاثر تھے وہ تھے حاجی بلند خان یہی وجہ ہے کہ حاجی بلند خان صاحب بہت سارے کاموں میں ان سے مشورہ اکثر کرتے رہتے تھے ۔اس کے علاوہ چوہدری غلام عباس اور شمیم احمد شمیم سے بھی بہت زیادہ متاثر تھے اور اکثر شمیم احمد شمیم کے قصے سناتے تھے ۔ ان کے علاوہ اگر ان کے دوستوں کے نام لئے جائیں تو ان میں   امین قمر ، جج زبیر احمد ،عبدالقیوم ندوی، خورشید بسمل ،نواب دین کسانہ، مولانا مفتی فیض الوحید ،مولانا غلام قادر، ڈاکٹر شاہنواز چودھری ، پروفیسر جاوید مغل، رفیق انجم ،پروفیسر مرزا خان وقار،  مولانا امیر محمد شمسی ،فاروق مظتر، نثار راہی، شہباز راجوروی ،  فدا رجوروی، میر عبدالسلام  ، اعظم شاہ، چودھری گلزار ، سجاد پونچھی، مولانا عابد حسین اور نسیم پونچھی وغیرہ۔ انہوں نے اپنی زندگی بڑی سادہ  اور عمدہ گزاری وہ لباس میں ہمیشہ سفید رنگ کی شلوار قمیض پہنا کرتے تھے 2013 میں وہ نوکری سے سبکدوش ہو گئے تھے ۔قوم کی خدمت کرنے کا جذبہ ان کے اندر بہت تھا اور اسی لئے انہوں نے دو ملازمت چھوڑ دی تھی ایک نوکری کلچرل اکیڈمی میں تھی اور دوسری جواہر نودھالیہ  میں بطور پرنسپل کی نوکری  چھوڑی تھی ان کا یہ ماننا تھا کہ جتنی خدمت و قوم کی خدمت گجر ہوسٹل کے وارڈن کے طور پر کرسکتے ہیں اتنی کہیں اور سے نہیں کر سکتے ۔
سیاسی زندگی: سیاست نے ان کا بڑی دیر تک پیچھا کیا لیکن وہ کبھی بھی سیاست کے قابو نہ آئے اور ہمیشہ سیاست کو اپنے سے دور رکھا۔ سب سے پہلے جب ان کے ایک قریبی دوست حاجی بلند خان صاحب کو ڈاکٹر فاروق عبداللہ جو اس وقت کے سی ایم تھے نے منظور گلشن صاحب کو پیشکش کی تھی سیاست میں آنے کی  لیکن انہوں نے انکار کر دیا اس کے بعد جب ان کے دوسرے دوست  جو  پیپلز کانفرنس کے صدر عبدالغنی لون کا پیغام لیکر انکے آبائی گاؤں پلانگڑھ پہنچے تھے ۔عبدالغنی لون صاحب نے انکو پیپلزکانفرنس کی طرف سے راجوری سے بطور ایم ایل الیکشن میں حصہ لینے کی  کی پیشکش کی تھی لیکن اس بار بھی انہوں نے انکار کر دیا تھا۔  اور ایک بار انہوں نے خود کہا تھا کہ ڈوڈا کے لوگوں کا پیار دیکھ کر اگر میں وہاں سے الیکشن میں حصہ لو  اور میں بڑی  آسانی سے کامیاب ہو سکتا ہوں۔
ایک دلچسپ واقع: 18 رمضان کو ان پر یہ پورا کالم لکھ کر مکمل کردیا تھا اور پھر اس کے بعد اس کو پروف ریڈنگ کے لیے بھیجا تھا 20 رمضان کی صبح ایک بڑا دلچسپ واقعہ پیش آیا ۔ جس سے اور بہت سے راز کھل گئے ۔ غالبا صبح دو بجے کا وقت تھا جب میں نے خواب میں منظور گلشن صاحب کو اپنے ایک ساتھی سے بات کرتے ہوئے دیکھا خواب میں وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے ہیں انہوں نے سب کچھ تو لکھا ہے لیکن ایک بات جو ہے وہ اس میں نہیں لکھی کہ ان کی اہلیہ محترمہ کے بارے میں ابھی تک کچھ نہیں لکھا اور یہ بات صحیح ہے کہ میں نے لکھا بھی کچھ نہیں تھا یہاں تک ان کا نام بھی نہیں لکھا تھا ۔آگے جو میں بیان کر رہا ہوں یہ میرے نہیں بلکہ میں ان کے  بولے ہوئے الفاظ ہی لکھ رہا ہوں جو انہوں نے اپنے اہلیہ محترمہ کے لئے کہا کہ وہ خاموش طبع، سلیقہ مند، خوش اخلاق، فرماں بردار اور تابع دار تھی اور زندگی کے اتار چڑھاؤ اچھے برے وقت میں ہر وقت ان کا مکمل ساتھ دیا ۔انہوں نے شوہر کے حقوق ادا کرنے میں کوئی بھی کمی نہ آنے دی اور خصوصی طور پہ آخری وقت میں جب وہ بیمار تھے اس وقت ان کی دیکھ بال  میں کبھی بھی کوئی بھی کمی نہ آنے دی۔ 2011 میں جب گلشن صاحب کے گردوں نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا تو اس وقت ان کی اہلیہ نے اپنا ایک گردہ ان کو دیا تھا اس وقت سے لے کر آج تک وہ ایک ہی گردہ پہ زندہ ہیں ۔  ایک خاوند کا اپنی بیوی کے بارے میں یہ سب کچھ کہنا بہت کچھ بتا دیتا ہے اور بہت معنی رکھتا ہے ۔اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کی بخشش ہوچکی ہے اور وہ جنت الفردوس میں آرام فرما رہے ہیں اور وہ اپنے پسماندگان سے کتنے خوش ہیں۔ اور ان کے روح ان پر راضی ہیں ۔ وہ عورت کتنی خوش نصیب ہے جس کے لیے اس کے خاوند کے یہ خیال ہو اور وہ اس کا خاوند ان پر راضی ہوں ۔وہ اولاد بھی کتنی خوش نصیب ہے کہ جن کے والد کی روح ان پر راضی ہوں۔
آخری وقت اور  بیماری:2011 میں اچانک ہی ان کے گردوں نے کام کرنا چھوڑ دیا  جس کی وجہ سے ان کے گردے ٹرانسپلانٹ کروانے پڑے جو سات سال تک چلا اور پھر دوبارہ ناکام ہوگیا  اور بالآخر 14 دسمبر 2019 کوصبح اذان کے وقت منظورگلشن صاحب کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی،اور یوں زمین کھا گئی آسمان کیسے کیسے اس کے بعد آبائی قبرستان ” کوپرا” میں جسد خاکی کی تدفین ہوئی،اور یہی ان کی آخری آرام گاہ ٹھہری۔ مفسر قرآن مولانا عابد حسین رحمانی کے وہ الفاظ جو انہوں نے ان کے قرآن خوانی کرتے ہوئے کہا تھا کے "سو چاے مر جے لیکن سو غو سردار نہ مرے” اس کے بعد انہوں نے بڑے غم کے ساتھ یہ کہا تھا کہ آج ہمیں ایسا لگ رہا ہے کہ گلشن صاحب نہیں بلکہ  ادبی اور علمی دنیا کا سردار چلا گیا ہے ۔اللہ مرحوم کو کروٹ کروٹ سکون عطا فرمائے ، مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلی سے اعلی مقام نصیب عطا فرمائے اور عالم برزخ کی ساری منزلیں آسان فرمائے آمین ۔میں چوہدری ایاز احمد ہکلہ ان بد نصیبوں می سے ہوں جنہیں ان سے کبھی دل کھول کر بات کرنے کا موقع نہیں ملا اور ہاں ان خوش قسمتوں میں سے بھی ہو جنہیں ان پہ لکھنے کا اور کام کرنے کا موقع ملا۔ اللہ پاک کروٹ کروٹ جنت میں اعلی مقام سے نوازے۔
FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا