تحریر:منتظر مومن وانی
بہرام پورہ کنزر
8082706173
رب کعبہ نے انسان کی تخلیق کے بعد ہر دور میں انبیا ع بیھجے تاکہ وہ لوگوں کو ان چیزوں کی تربیت کرے جو مکمل انسان بننے کے بنیادی اصول ہے. ان ہی اصولوں میں انسان کا تعارف بھی ایک اصول ہے انسان کس مٹی کس شہر کس ملک یا کس خاندان میں تولد ہوجائے اسی سے اس کا تعارف ہوتا ہے.
﴿جَعَلْنَاکُمْ شُعُوباً وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا﴾ (الحجرات:۱۳)
ترجمہ: ہم نے تمہارے اندر مختلف جماعتیں اور خاندان بنائے تاکہ تم باہم پہچانے جاؤ
اللہ نے ایک انسان کو شرف عطا کیا کہ جب وہ کسی خاندان میں جنم لیتا ہے تو وہ خاندان اس کےیے بہت زیادہ قابل احترام ہوتا ہے اور وہی خاندان اس کے شناخت کا بھی ذریعہ ہوتا ہے. امام کائنات نبی محترم ﷺ نے جس خاندان میں جنم لیا وہ کائنات کا سب سے عظیم اور بلند خاندان ہے جس کے عظمت کی مثال کائنات میں موجود نہیں ہے. خاندان سے انسان کے احساس کا رشتہ ہوتا ہے جس احساس کی کمزوری انسان کبھی برداشت نہیں کرسکتا. بہرحال خاندان یا عیال سے مراد وہ افراد جو کسی ایک خاص جگہ پر آباد ہو اور وہ قانونی یا خونی رشتے میں قید ہو اس کو کسی کیمنوٹی کا بنیادی ستون بھی کہیں گے. ماہر سماجیات کے نزدیک خاندان سے کیا مراد ہے.اگر اس پر ایک وسیع جرح اور طویل گفتگو موجود ہے لیکن سٹیفن کی بات ہم یہاں درج کریں گے اس کے مطابق.
Stephen (1999) defines the family as a social arrangement based on marriage including recognition of rights and duties of parenthood, common residence for husband, wife and children are reciprocal economic obligations between husband and wife.
١۵ مئی کو عالمی طور خاندان کی اہمیت کے حوالے سے دن منایا جاتا ہے اگر دیکھا جائے تو یہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے. خاندان سے مراد وہ سارے افراد جو شفقت محبت پیار ہمدردی اور باقی احساسوں کے واحد سائبان تلے زندگی گزارتے ہیں. ایک خاندان سے ہی انسان کے زندگی کا وجود ہر اعتبار سے اور یہی خاندان انسانی شناخت کا ضامن ہے.خاندان کے حوالے سے جو ماضی میں ہم نے دیکھا یا اپنے بڑھوں کے زبان سے سنتے آئے ہیں یعنی وہ ہمدردی محبت ایک دوسرے کا خیال یہ سب کچھ موجودہ دور میں ایک سکون دینے والی کہانی کے سوا کچھ نہیں. ترقی کے نام پر اس تیز رفتار زندگی نے ہم سے وہ سب کچھ چھینا جو ہماری شناخت اور سکون و قرار کا ذریعہ تھا اب مادیت پرستی اور ٹیکنالوجی نے ہمیں تنہائی کے گونگے شہر میں دھکیل دیا جس سے ہم نفسیاتی مریض کی زندگی گزار رہیں ہے. اسلام نے خاندان کی اہمیت اور عظمت پر کافی زور دیا اور امام کائنات محمد عربیﷺ نے ہمیں اس تعلیم سے پہلے ہی آشنا کیا.اللہ تعالی نے قران کریم میں ہمیں واضح کیا.
’’ اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تم کو ایک جاندار سے پیدا کیا اور اس جاندار سے تمہارا جوڑاپیدا کیا اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلائیں‘‘۔(النساء:۱)
اب موجودہ دور میں خاندانی طرز عمل کا جائزہ لیا جائے تو وہ احترام و شفقت کی باتیں نظر نہیں آتی بلکہ فقط شکایتوں کا بازار گرم ہے. باپ کو بیٹے کا احترام نہیں اور بیٹی کو ماں کا احترام نہیں غرض ہر ماتھے پر شکوے ہی شکوے درج ہے.
سورہ الحجرات میں اللہ تعالیٰ مزید فرماتا ہے :
’’ اور تم کو مختلف قومیں اور مختلف خاندان بنایا تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کر سکو اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ شریف وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہو‘‘۔(الحجرات:۱۳)
ٹیکنالوجی یا موبائیل فون بھی ایک ذریعہ ہے جس سے ہم نے اپنا وہ نظام گنوادیا جو ہمارے سکون قلبی لیے سامان راحت ہے. ماضی میں گھروں میں ایک محفل ایک ہی کمرے میں ہوتی تھی سب ایک دوسرے کا سنتے تھے اور ہر احساس کا اظہار ہوتا تھا. ہر رشتے کا خیال کیا جاتا تھا لیکن ہم لوگ اب زندگی کے اس شاہراہ پر کھڑے ہیں جہاں فقط چار دیواری میں ہم تنہائی کے غلام ہے. ہم لوگ دوسرے لفظوں میں نفسیاتی مریض بن چکے ہیں کیونکہ یہ ہماری طرز عمل اور جدیدیت کے سوچ کا ثمر ہے. کسی انسان کو اپنے گھر میں دوسرے انسان کے معملات کی خبر نہیں اس کا کھانا پینا, اٹھنا بیٹھنا یا دیگر معملات زندگی انسان خود بھی اب اپنے آپ سے بے خبر ہوچکا ہے. ایک انسان کو بحثیت گھر کا ذمہ دار ان چیزوں پر سوچنا ہے کیونکہ اللہ تعالی نے یہ کہہ کر اس بات کی وضاحت کی ہے کہ.
یاایھاالذین آمنو کوانفسکم واھلیکم نارا
’’ اے ایمان والو! خود کو اور اپنے اہل خانہ کو آگ سے بچائو‘
اور امام کائنات نے ہمیں یہ پیغام دیا ہے کہ.حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ فرماتے ہیں، میں نے رسول ؐ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ’’ تم میں سے ہر شخص نگہبان اور ذمہ دار ہے اور ہر ایک سے اس کے زیر کفالت و زیر نگرانی افراد سے متعلق پوچھ گچھ ہوگی ۔ امام بھی راعی ہے اور ذمہ دار ہے ۔ اور یہ کہ اس سے اس کی رعیت کے بارے میں باز پرس ہو گی ۔ آدمی بھی اپنے گھر کا حاکم ہے اور اس سے بھی زیر دست افراد کے متعلق سوال ہو گا ۔ عورت بھی اپنے شوہر کے گھر کی نگراں ہے ۔ اس سے بھی اس کے زیر نگرانی امور کے بارے میں باز پرس ہوگی ۔ ‘‘(بخاری و مسلم )
زندگی کو پر لطف بنانے کے لیے ہمیں اپنے خاندان میں وہ اصول پھر سے قائم کرنے ہیں جن سے ماضی میں ہمارے خاندان خوشحالی کے شاہراہ پر مسکراتے لبوں سے زندگی گزارتے تھے. یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ خاندان ہی وہ گہوارہ ہے جہاں سے ہم آنے والے کل کے معماروں کی تشکیل دے سکتے ہیں. یہی وہ تربیتی درسگاہ ہے جہاں سے ہم اخلاق و ادب, علم وعقل کے حامی لوگ تیار کرسکتے ہیں شرط یہ ہے کہ ہم اس نظام میں بہتری لانے کے لیے اسلامی تعلیمات پر عمل کریں اور خاندانی رشتوں کے عظمت پر سنجیدہ ہوجائیں. ہم سب اس بات سے آشنا ہے کہ مغربی تقلید نے ہمیں اسقدر بدالاخلاق بنایا کہ خاندانوں میں اب بہت زیادہ فتنے جنم لیتے ہیں حاتاکہ عدالتوں میں اب خاندانی فتنوں کے معملے حد سے زیادہ درج ہوتے ہیں جو کہ ایک المیہ ہے.
اللہ تعالی فرماتے ہیں:’’نیکی صرف یہی نہیں کہ آپ لوگ اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لیں بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اللہ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اللہ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں ،یتیموں،محتاجوں، مسافروں، سوال کرنے والوں اور غلاموں کی آزادی پر خرچ کرے،یہ وہ لوگ ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں، زکوۃ دیتے ہیں اور جب کوئی وعدہ کریں تو اسے پورا کرتے ہیں۔ سختی، مصیبت اور جہاد کے وقت صبر کرتے ہیں۔ یہی لوگ سچے ہیں اور یہی متقی ہیں‘‘۔(البقرۃ 2:177)
ہمارے سماج خاص کر کشمیر میں جو ماضی میں خاندانی محبت کا جو رواج تھا وہ ہر ایک کے لیے قابل تقلید ہے اس میں فقط محبت کا جنون نظر آتا تھا.”زوو ووندن تہ بلائے لگن”یہ الفاظ ورد زبان رہتے تھے لیکن جوں جوں ہم ترقی پزیر ہوئے ہماری سارا اخلاقی صورتحال ابتر ہوگئی اب کیا رہا ایک دوسرے کے بارے میں منفی خیالات سازیشیں بدخواہی اور ایک دوسرے کا حسد موجود ہے. میرے کشمیر میں وہ سب کچھ ختم ہوا جس پر ہمیں ناز تھا یہاں باپ بیٹے کا مقدمہ قانونی وکلا کے پاس آتا ہے جو کہ ہماری بربادی کا مکمل اطلاع ہے. بیٹی ماں سے اس قدر خفا ہے کہ کئی سالوں سے وہ ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے یہی اصل وجہ ہے ہماری نفسیاتی بیماریوں کا کیونکہ ایک خاندان میں رہ کر بھی اب اجنبیت کی زندگی گزار رہے ہیں اور ہمارے آنے والی نسل بھی یہی تربیت پارہی ہے. یہ سب کچھ مغرب کی اس بے ثمر تعلیم کا نتیجہ ہے جس کو ہم نے ترقی کا راز سمجھا تھا وہ مغرب جہاں خالہ پھوپھی یا دیگر رشتے تو دور کی بات اب ماں باپ کے مقدس رشتے کا بھی احساس ختم ہوا. اس طاغوتی نظام کی لپیٹ میں ہم بھی آئے جس کی وجہ سے ہمارا خاندانی نظام صحت مند نہیں رہا. مغرب کی یہی تعلیم ہے خود کا سوچنا اور باقی وہاں رشتوں کی کوئی قدرو قیمت نہیں لیکن ہمارا نصاب وہ نصاب ہے جو ہمیں عظمت کی بلندی پر مقام عطا کرتا ہے.
وَبِالْوَالِدَیْنِ احْسَاناً امَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الکِبَرَ أحَدُہُمَا أوْ کِلاَہُمَا فَلا تَقُل لَّہُمَا أفٍ وَلاَ تَنْہَرْہُمَا وَقُلْ لَّہُمَا قَوْلاً کَرِیْمًا وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیَانِی صَغِیْراً (الاسراء:۲۴)
ترجمہ: اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو اگر ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو اُف نہ کہو اور نہ جھڑکو، ان سے اچھے لہجے میں بات کرو اور رحمت وانکسار کے ساتھ ان کے آگے جھک جاؤ اور ان کے لیے دعاکرو کہ پروردگار ان پر رحم فرما، جس طرح انھوں نے بچپن میں میری پرورش کی تھی.
ہماری تعلیم ہمیں خاندان کے ہر فرد کے عظمت سے آشنا کراتی ہے لیکن ضرورت یہ ہے کہ ہم ان چیزوں کو اپنے سوچ میں جگہ دے.
﴿وَالرَّجُلُ رَاعٍ فی أہلہ ومَسْئُولٌ عن رَعِیَّتِہ﴾ (بخاری باب الجمعہ:۸۵۳)
ترجمہ: مرد اپنے گھروالوں کا نگراں ہے، اس سے اس کی رعیت کے بارے میں بازپرس ہوگی.
جب ہم پھر سے اپنوں کے لیے رحم دل اور فکر کرنے والیں بنیں گے ہمارے سارے ذہنی مسائل حل ہوسکتے ہیں ورنہ جو تنہائی کا دامن ہم نے تھام لیا یہ اندر سے ہم کو نوچ کر ہمیں فنا کی راہ دکھائے گا. امام کائنات نبی محترم ﷺ نے فرمایا کہ
خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَہْلِہ وَأنَا خَیْرُکُمْ لِاَہْلِی الحدیث رواہ الترمذی والدارمی․ (مشکوٰة باب عشرة النساء:۲۸۱)
تم میں بہتر شخص وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو اور میں اپنے گھر والوں کے لیے تم سب سے بہتر ہوں .
وقت کی ضرورت ہے کہ خود کو موبائل فون کے حوالے نا کرے بلکہ اپنے خاندانوں میں وہی ماضی کا نظام قائم ہوجائے اور یہی بات ہماری سکون کی علامت ہے.اپنوں ک ساتھ حسن سلوک سے پیش کر ہم اپنے دل میں سکون کا بہار قائم کرسکتے ہیں شرط ہے کہ ہم ان چیزوں کو زندگی کے اول مشوروں میں ترجیع دے. ورنہ موجودہ روش خاندانوں کے تئیں فقط بربادی کی ضمانت ہے.
اللہ ہمارے خاندانوں کو سلامت رکھے اور وہی احساس قائم ہوجائے جس میں ایک دوسرے کے لیے ہمدردی اور محبت موجود ہو.آمین