موت کی آغوش میں جاتے روٹی کے متلاشی مزدور

0
0

مودی جی انسانی لاشوں پر سیاست کب تک؟

شہاب مرزا ، 9595024421

 

غیر اعلانیہ اور غیر منظم لاک ڈاؤن کی مار جھیل رہے مزدوروں کا کوئی پرسان حال نہیں لاک ڈاؤن کی وجہ سے ایسا کوئی طبقہ نہیں جو متاثر نہ ہوا ہو لیکن فی الوقت سب سے زیادہ تباہ حال مزدور طبقہ ہے – مزدور طبقہ پہلے معاشی تنگی جھیل رہا ہے اور حکومت کی جانب سے صرف دلاسہ دیا جارہا ھیکہ اناج کا انتظام کرےگے لیکن آج یہی مزدور روٹی کے لیے اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے در بدر بھٹک رہے ہیں –
حکومت کی جانب سے اسپیشل ٹرین چلانے کی بات ہوئی تھی لیکن جو پریشانیاں ان مزدوروں نے اٹھائی ہے اسکا کوئی پرسان حال نہیں مزدور بھی مجبور ہے کیا کریں گے کام نہیں کھانا نہیں تو یہاں رک کر کیا فائدہ؟ مدھیہ پردیش سے روٹی کی تلاش میں اورنگ آباد آئے 16 مزدور ایس آر جی کمپنی میں کام کرتے تھے لاک ڈاؤن کی وجہ سے کمپنی بند ہو گئی کام چلا گیا تو یہ مزدور واپس اپنے گاؤں جانا چاہتے تھے روٹی کی تلاش میں آئے تھے روٹی بچ گئ لیکن یہ نہیں بچ سکے –
ہائی وے سے اپنے گھروں کو جاتے تو بے بیریکیڈ لگے ہوئے ہیں پولیس تعینات ہے اور لاٹھیاں برسا رہی ہے ان مزدوروں کا حال یہ ہے کہ ہاتھ میں لاٹھی یا پولیس والا دیکھا تو خوف سے راستہ بدل لیتے تھے چاہے پھر وہ کتنا لمبا ہی کیوں نہ ہو پولیسی لاٹھی سے بچنے کے لیے ان مزدوروں نے ریلوے ٹریک کا سہارا لیا تھا جس کی وجہ سے ان 16 مزدوروں کی موت ہوگئی اس خطرناک راستے میں ان مزدوروں نے نجات تلاش کی تپتی دھوپ، پیروں میں چپل نہیں، ساتھ میں سامان کا بوجھ، معصوم بچے، ہزاروں کلو میٹر کا راستہ نہ کھانے کے لئے کھانااور نہ پینے کے لئے پانی اور لگاتار پیدل سفر جاری شائد یہ مزدور سوچ رہے ہونگے کہ کسی طرح اپنے گھر پہنچ گئے تو کم از کم دو وقت کی روٹی بھی مل جائے گا – آخر ان مزدوروں کا گناہ کیا تھا وہ روزگار کی تلاش میں آئے تھے اپنی مرضی سے اور واپس جانا چاہتے تھے اپنی مرضی سے!
پولیس کی لاٹھیوں کا خوف، انتظامیہ کا کوئی تعاون نہیں، کھانے کے لئے اناج نہیں، ہائی وے سے جانے کی اجازت نہیں تو پھر یہ مزدور جائے تو جائے کہا؟ مزدور کی بات ہوتی ہے لیکن ان کی پریشانی کو کوئی نہیں سمجھتا نہ ان کے لئے راحتی کیمپ اور نہ ہی کھانے کا انتظام اور نہ ہی انتظامیہ کی جانب سے کوئی یقین دہانی!
یہ 16 مزدور مدھیہ پردیش جانا چاہتے تھے پولیس کے ڈر سے ریلوے پٹری کے سہارے نکل پڑے اورنگ آباد سے جالنہ کے بیچ کرماڑ کے پاس پٹری پر تھک کر سو گئے یہ مزدور سوچ رہے تھے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے کوئی ٹرین نہیں چلے گی نیند اتنی گہری آئی کہ صبح سوا پانچ بجے ان کے اوپر سے مال گاڑی گزر گئی مال گاڑی آواز کرتے ہوئے کچل کر آگے بڑھ گی ان مزدوروں کو محسوس بھی نہیں ہوا اور نہ ہی سنبھلنے کا موقع ملا اور وہ موت کے آغوش میں چلے گئے – 16 مزدوروں کی جان چلی گئی لیکن ایسے لاکھوں مزدور ہے جو پیدل اپنے گھروں کی طرف نکل پڑے ہیں نیشنل میڈیا اب بھی مندر مسجد، ہندو مسلمان، جماعت، مولانا سعد میں الجھی ہوئی ہے یہ منظرنامہ پچھلے ڈیڑھ ماہ سے ہیں لیکن سب پر خاموشی طاری ہے اب جبکہ 16 مزدوروں کی جان چلی گئی تو سبھی کو دکھ ہورہا ہے حکومت کی جانب سے پانچ لاکھ معاملے کا اعلان ہو رہا ہے ان مزدوروں کو جانے کی ٹرین نہیں ملی اور اب ان کی لاشوں کے لیے ہوائی جہاز کے انتظام کا اعلان کیا جا رہا ہے موت ہوگئی اب 5 لاکھ امداد دی جائے گی کیا ان 5 لاکھ سے ان مزدوروں کی جان واپس آ سکتی ہے؟ان 16 اموات کی ذمہ داری کون لے گا یا معاوضہ دینے سے جوابدہی ختم ہوجائے گی؟
ریلوے منترالے نے ٹویٹ کر کے کہا کے ڈرائیور نے ٹرین روکنے کی کوشش کی تھی لیکن ناکام رہا لیکن یہ نہیں کہا کہ ان مزدوروں کو اناج پہنچانے کی کوشش کی تھی ملک کے غریب عوام کے دکھ درد کا ذکر کرکے ہمیشہ سینہ پیٹنے والے وزیراعظم مزدوروں غریب عوام کو لاک ڈاؤن سے بچانے میں نا اہل نظر آرہے ہیں غیر اعلانیہ و غیر منصوبہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ان مزدوروں کی جان گئی اگر لاک ڈاؤن کرنا ہی ہوتا تو حکومت کو سوچنا چاہئے تھا کہ کروڑوں مزدور روزگار کے تلاش میں دوسری ریاست میں ہجرت کر کے گئے ہیں انہیں اپنے گھر واپس جانے کے لیے 24 گھنٹے کا وقت دیدیا ہوتا تو شاید آج یہ صورتحال نہیں ہوتی – مزدور تپتی دھوپ میں بھوک سے نہیں مرتے اور نہ ہی ریل کی پٹری میں جاکر سوتے –
یہ مزدور ملک کو تعمیر کرتے ہیں لیکن آج ان کی زندگی داؤ پر لگ گئی ہے جس پٹری پر ان مزدوروں کی موت ہوئی اس پٹری کو بھی کسی مزدور ہی نے بنایا تھا بنا کھانے پانی کے ہزاروں کلومیٹر کے سفر پر پیدل نکل رہے ہیں اور اس پر ستم یہ ہے کہ پولیس اہلکار مزدوروں پر ایسے ٹوٹ پڑ رہے ہے جیسے کوئی مجرم ہو – رویش کمار کے پرائم ٹائم میں مزدوروں کے کی ویڈیو موجود ہے جسے دیکھ کر سینے میں دل رکھنے والے ہر شخص کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں گے ان مزدوروں کو اندازہ بھی نہیں تھا کہ وہ اپنے گھر پہنچ پائیں گے یا نہیں لیکن وہ بھوک سے مرنا نہیں چاہتے – اس منظر نامے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ مزدور پیدل نکلے تھے ٹرین نہیں ملی ٹرین نے کچل دیا اور موت واقع ہو گئی ان مزدوروں کو دیکھنے کے لئے اعلی افسران اسپیشل ہوائی جہاز سے آئے جانے کے لیے ٹرین میسر نہیں تھی اب ان کی لاشوں کو ہوائی جہاز سے لے جانے کی بات کی جارہی ہے اور یہ سب ممکن ہوا وزیراعظم کے ایک غلط فیصلے سے اگر وہ انتظام کر دیتے یا وقت دے دیتے تو یہ واقعہ رونما نہیں ہوتا ان 16 جانوں کی ذمہ داری لے کر وزیراعظم کو معافی مانگنی چاہیے نوٹ بندی کی طرح لاک ڈاؤن بھی حکومت کی نا اہلی ظاہر کرتا ہے

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا