حافظ عبدالطیف ملک
اِس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ وقت میں چہار سوافرا تفری کا ماحول ہے، نفسا نفسی ہے، ’’میں میں ‘‘کی جنگ ہے،نمود و نمائش کی شدت سے مقابلہ آرائی ہے ،دکھاوا عروج پر ہے ،محبتوںکے مقابلے میں نفرتوں کا رجحان زیادہ ہے، رنجشیں ہیں، بلا وجہ اور بے بنیاد اختلافات ہیں،ہر کوئی توجہ کا مرکز بننے کی دوڑ میں ہے،پیار و محبت سے دل جتنے کی کوئی مثال دور دور تک آنا بہت مشکل ہے بلکہ تذلیل آمیز حربوں سے دل جیتنے کی ایسے ایسے کھیل کھیلے جاتے ہیںکہ انسانیت دنگ رہ جاتی ہے، انسانیت اور انسان دونوں اِس مصنوعی دلجوئی کے وقت زندہ درگور ہونے کو ترجیح دیتے ہیں لیکن نمود و نمائش کے سر چڑھے نشہ میں مبتلا انسان نما درندوں کو ذرا بھی رحم نہیں آتا اور نہ ہی شرم آتی ہے بلکہ وہ غریبوں کی اِس تذلیل آمیز امداد پر فخر کرتے ہیں اور پھر احسان بھی جتاتے پھرتے ہیں۔ گو کہ وہ اِس وہم میں گمان میں ہوتے ہیں کہ ہم ضرور کوئی نیک کام انجام دے رہے ہیں لیکن جس طرح رویہ اپنا کر وہ نیکی آڑ میں اپنی اشتہار بازی کر رہے ہوتے ہیں وہ انسانوں کے دلوں کو مجروح کئے بغیر نہیں رکھ سکتا۔خیر یہ غم و اندہ کا اک پہلو تھا لیکن یہاں یہ مقام کس قدر خوش کن ہے کہ اتنی دُکھ بھری فضا میں بھی انسانیت ابھی زندہ ہے ،اِ انسانیت کو دوام بخشنے اور اِس کو زندہ کھنے کیلئے معاشرے میں ابھی ایسے اللہ کے پیارے موجود ہیں جو مستحقین اور ضروتمندوں کی امداد،خبر گیری ، داد رسی او رحقیقی معنوں میں دلجوئی کرنے کیلئے ہمہ تن گوش فکرمند ہیں۔گوکہ یہی قوم کے اصلی ہیرو ہیں لیکن قوم کے ہیرو کب ، کسے اور کتنی امداد کرتے ہیں خبر تک نہیں ہوتی کیوںکہ ایسے ہیروز کو سرخیاں اور تعریفیں بٹورنے کا شوق ہرگزنہیں ہوتا بلکہ اللہ کے پیارے لوگ یہ کام صرف اللہ کی رضا مند ی کے لئے یہ کام انجام دیتے ہیں، جی ہاں یہ وہی لوگ ہیںجو اِس بات پرکامل یقین ہیں کہ …’’ کسی کی امداد اِس انداز میں کرو کہ ایک ہاتھ سے امداد کرو تو دوسرے کو خبر تک نہ ہو‘‘… واقعی ایسے ہی لوگ دنیا وی لحاظ سے بھی سرخرو ہوتے ہیں اور آخرت میں بھی اِن کا مقام بہت اونچا ہوتا ہے،اس میں کوئی شک نہیں کہ معاشرے میں ایسے لوگوں کو بہت کم اہمیت دی جاتی ہے بلکہ یوں کہیں کہ انہیں کسی کام کا سمجھا ہی نہیں جاتا تو بیجا نہ ہوگا،لیکن راقم کے نزدیک یہی لوگ اللہ کے پیارے ہیں جو اللہ کی راہ میں اپنا مال اور وقت صرف کرتے ہیں ۔بلا شبہ جو اللہ کا پیارا ہو تا ہے وہی معاشرے کا دولارا ہوتا ہے گوکہ معاشرے کی تنگ نظری اُنہیں پہچان نہیں پاتی لیکن یہ خوش بخت لوگ انتہائی ٹھنڈے ذہن کے لوگ ہوتے ہیں انہیں لوگوں کی تنگ نظر ہر نہیں ستاتی کیوں کہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنا مقام کہا ں پیش کرنا چاہتے ہیں ، اِسی بالغ نظر ی اور عوامی ہمدردی کا جذبہ رکھنے کے عوض اک دن اُنہیں اللہ رب العزت انعام سے نوازتا ہے اور آخرت میں اُن کا مقام بلندیوں پر ہوتا ہے۔معاشرے میں ایسے بھی افراد اللہ نے پیدا کئے ہیں جو بذات ِ خود دیہاڑی دار ہیں لیکن اپنے سے نچلی سطح پر زندگی بسر کرنے والوں کی امداد کے لئے پیش پیش رہتے ہیں ، گزشتہ روز راقم کو اک ایساہی واقعہ دیکھنا نصیب ہوا ، اللہ کا یہ معجزہ دیکھ کر جہاں میں حیران ہوا وہیں دل باغ باغ ہوگیا ، اللہ چاہیے تو مجبوروں و مسکینوں اور ضرورتمندوں کی امداد کیلئے کسی دیہاڑی دار کو بھی توفیق عطا کر دیتا ہے، یہاں یہ بات آئینے کی صاف ہو گئی کہ نیک راہ میں نیک مال ہی خرچ ہوتاہے، صرف صاحب مال ہونے سے یہ ضروری نہیں کہ آپ کا مال نیک راہ میں خرچ ہو بلکہ یہ ضروری ہے کہ آپ کا مال حلال کمائی کا ہو تبھی جاکر اللہ توفیق عطا کرے گا کہ آپ اپنا مال نیک راہ میں خرچ کریں گے ۔اللہ جسے چاہیے اُسے توفیق دے وگرنہ انسان کی کیا مجال کہ وہ صاحب مال ہوکر بھی کسی کی امداد کرنے میں قاصر رہ جاتا ہے اور فضول خرچی میں لاکھوں ،کروڑوں کے حساب سے خرچ کرتا ہے۔ بس اگر کہیں اُس کا مال استعمال نہیں ہوتا ہے تو وہ اللہ کی راہ میں نہیں ہوتا۔ آخر میں بس اتنی سی التجا ہے کہ جو بھی لوگ اِس وقت کسی کی امداد کرنے کیلئے آگے آتے ہیں جنہیں اللہ توفیق عطا کرتا ہے وہ ہر گز ہرگز نمود ونمایش کرکے اپنے ثواب کو خو د اپنے ہاتھوں برباد نہ کریں۔بلکہ خفیہ انداز میں صرف اور صرف اللہ کی رضا کیلئے امداد کریں ۔ آخر میں راقم اُن تمام اللہ کے پیاروں کو سلام پیش کرتا ہوں جو خفیہ انداز میں مستحقین اور ضروتمندوں کی امداد کیلئے خود کو واقف کئے ہوئے ہیں ، میری دعا ہے کہ اللہ اُن کے مال میں دن دگنی رات چگنی برکت عطا فرمائے ، اُن کی عمر دراز ہو، ایسے لوگ قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں ،اللہ ہمارے اِس سرمایہ کی حفاظت کرے، تندرستی کے ساتھ سلامتی عطا کرے، آمین یا رب العالمین !