
ذیشان الہی منیر تیمی چمپارنی
مانو کالج اورنگ آباد مہاراشٹر
پوری دنیا میں کورونا وائرس کی قیامت مچی ہوئی ہے ۔ہر طرف، ہر جگہ لاک ڈاؤن کیا جارہا ہے تاکہ اس کی قیامت خیز اثرات سے انسان بچ سکے ۔مرکزی حکومت سے لے کر صوبائی حکومت کے ساتھ ساتھ ہر چھوٹا بڑا انسان اس وباء کی حیرت انگیز پھیلاؤ سے لوگوں کو آگاہ کر رہے ہیں ۔لوگوں کو گھر میں رہنے، صاف صفائی کا خیال رکھنے ،شادی و بیاہ ،،میلوں و ٹھیلوں میں نہ جانے ،علیک و سلیک اور معانقہ و مصافحہ نہ کرنے کے ساتھ ساتھ ،پارکوں اور ریسٹورینٹوں میں نہ جانے کی نصیحت کررہے ہیں ۔لیکن اس کے باوجود چند ممالک (سنگاپور، تائیوان، ساؤتھ کوریا) کے علاوہ دنیا کا ہر ایک ملک اس کی درد و کرب کو دیکھ اور محسوس کررہا ہے ۔تمام لوگ گھروں میں خود کو قید کر رکھے ہیں ۔اپنی تجارت و کاروبار اور معیشت سے اوپر اٹھ کر جان بچانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں ہر شخص کو اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے اگر کوئی بیمار ہوجائے اسے بخار لگ جائے یا کسی کو چھینک آجائے تو ایک شخص دوسرے کو دیکھ کر ایسا بھاگتا ہے جیسا کہ شیر کو دیکھ کر گیدر بھاگتا ہے ۔چنانچہ چھینک اور بخار کی بنا پر ہمدردی و غمگساری کے بجائے سر پر پیر رکھ کر بھاگنا ۔اس آیت کی طرف اشارہ کرتا ہے جس میں اللہ نے قیامت کا نقشہ کھینچا ہے کہ کس طرح قیامت کے دن محشر کے میدان میں ایک شوہر اپنی بیوی سے اور بیوی اپنے شوہر سے، باپ اپنے بیٹے سے اور بیٹا اپنے باپ سے کوسوں دور بھاگے گا اس ڈر سے کہ کہی اس سے نیکی کا مطالبہ نہ کرلیا جائے ۔دونوں معاملہ ایک دوسرے سے آپس میں ملتا جلتا ہے کیونکہ ایک جگہ نیکی گھٹنے کی وجہ سے ایک دوسرے کو پہچاننے سے انکار ہے وہی دوسری طرف بیماری پٹنے کی وجہ سے ایک دوسرے سے دوری بنانا ہے ۔اس کی واضح ثبوت اٹلی کے اندر رونما ہوچکا ہے ایک واقعہ ہےکہ ایک ڈاکٹر جب کورونا وائرس کا شکار ہو گیا اور اسے لگا کہ وہ اب نہیں بچے گا تو انہوں نے اپنی آخری خواہش کے طور پر اپنے گھر والوں سے ملنے کی ضد پر آگئے چنانچہ اس پر ڈاکٹروں کو رحم آیا اور اس نے مکمل حفاظت کے بعد اس کے گھر والوں کو فون کیا کہ آپ کے ایک رشتہ دار ہے جو ہوسکتا ہے کہ زیادہ دنوں تک اب دنیا میں نہ رہیں وہ آخری خواہش کے طور پر آپ لوگوں کو دیکھنا چاہتا ہے چنانچہ بیوی، بیٹی اور بیٹا نے صاف ملنے سے ہی نہیں بلکہ اس ڈاکٹر سے اپنے رشتہ تک کا انکار کردیا ۔پھر تین دن کے بعد اس ڈاکٹر کی وفات ہوجاتی ہے تو یہ واقعہ یقینا قیامت کے منظر سے ملتا جلتا ہے اس لئے اس خطرناک، دردناک، المناک اور ہیبت ناک بیماری سے بچنے کے لئے ہمیں وہ تمام تدبیریں اپنانی چاہئے جس کی وجہ کر ہم اس بیماری سے محفوظ رہ سکے ۔کیونکہ دن بدن یہ وباء پھلیتی جارہی ہے پوری دنیا میں 26 لاکھ سے زائد لوگ اس بیماری کے شکار ہوچکے ہیں خود وطن عزیز ملک بھارت میں 25 ہزار سے زائد لوگ اس کے چنگل میں پھنس چکے ہیں اور اس کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے ۔اس لئے ایک ذمہ دار شہری ہونے کے اعتبار سے ہمیں وہ تمام کام کرنے چاہئے جو اس وبا کے روک اور تھام میں معاون و مددگار ہو ۔ اب رمضان کا مہینہ شروع ہوچکا ہے جس میں مسلمان عام طور سے روزہ و نماز اور تراویح کا اہتمام کرتے ہیں پروگرام وغیرہ، کرتے ہیں جس میں کتاب و سنت کی باتیں کی جاتی ہیں اور یہ مسلمانوں کے ہر رمضان کے مہینہ کا معمول رہا ہے اور اس میں بھیڑ اور ازدحام وافر مقدار ہوتی ہے ۔لیکن اس سال مسلمانوں کو بھیڑ سے بچتے ہوئے اپنے اپنے گھروں میں زیادہ سے زیادہ اللہ کی عبادت و بندگی کرنی چاہئے ۔واضح رہےکہ رمضان المبارک کا مہینہ اللہ کی رحمت، شفقت اور محبت کا مہینہ ہے اس مہینہ میں اللہ رب العالمین اپنی رحمت اور اجر و ثواب کا دروازہ کھول دیتا ہے ۔
لفظ رمضان کا معنی شارحین نے مختلف بتائی ہے کسی نے اسے رمض الذنوب سے مشتق مانا کہ یہ مہینہ گناہوں کو جلا دینے والا مہینہ ہے تو کسی نے رمض رجلہ سے مشتق مانا ہے کسی نے سحاب اور مطر سے مشتق مانا حتی کہ عبد القادر جیلانی نے اس کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ "انما سمی رمضان لانہ یرمض الفصال من شدت الحر "کہ رمضان کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ گرمی کی شدت کی وجہ سے اونٹ کے بچے کا پیر اس مہینہ میں جلنے لگتا تھا ۔
مجموعی طور پر اس مہینہ میں اللہ کی مغفرت اور بخشش کی وجہ سے لوگ اپنے گناہوں سے دھل جاتے ہیں
رمضان کا مہینہ یہ نہایت ہی مقدس مہینہ ہے اس کی فرضیت سورہ بقرہ کی آیت کے تحت کی گئی "شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن ھدی للناس و بینات من الھدی و الفرقان فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ ۔
اس آیت کے مد نظر ایک مہینہ کا روزہ مسلمانوں پر فرض قرار دیا گیا گویا جو غیر مسلم روزہ رکھے اس کی روزہ قابل قبول نہیں کیونکہ روزہ کی قبولیت کے لئے مومن کا ہونا شرط ہے اس لئے آج کل جو فیس بک ؤاٹس ایپ اور ٹوئیٹر پر غیر مسلم کے روزہ رکھنے پر مبارکبادی دی جاتی ہے وہ صحیح نہیں ہے
روزہ یہ اللہ کے اجر و ثواب اور آفر کا مہینہ ہے اس میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق ایک نیکی پر اللہ ایک فرض اور ایک فرض پر ستر فرض کےبرابر ثواب دیتا ہے اور جو کوئی مسلمان کسی غریب و لاچار مسلمان کو افطار کراتا ہے تو اللہ تعالی اس کو بخش دیتا ہے ۔
ایک دوسری حدیث کے مطابق جنت کے سارے دروازے اس مہینہ میں کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند اور مردود شیطان کو قید کردیا جاتا ہے ۔
ایک تیسری حدیث کے مطابق روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مسک خوشبو سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ ہے ۔
رمضان المبارک کی اس ڈھیر ساری اہمیت و افادیت اور فضیلت کے ساتھ ساتھ یہ مہینہ اللہ کی خاص رحمت و آفر کا مہینہ ہے اس،لئے مسلمان اپنے گھروں میں رہ کر ہی لاک ڈاؤن کا پالن کرتے ہوئے اللہ کے اس آفر کو حاصل کرنے کی کوشش کرے کیونکہ "لا یکلف اللہ نفسا الا وسعاھا ” کہ اللہ تعالی کسی کو اس کے طاقت سے زیادہ کا مکلف نہیں بناتا ایسے لوگوں کے لئے واضح دلیل ہے کہ وہ گھر پے اپنی عبادت و ریاضت کو جاری و ساری رکھے چہ جائیکہ وہ مسجد جائے وہاں بھیڑ اکٹھا ہو اور اس بیماری کے پھلنے پھولنے اور میڈیا کو نمک مرچ لگاکر مسلمانوں کو بدنام کرنے کا موقع،ملے ۔اور چونکہ یہ وبا بہت خطرناک ہے اور دلیل موجود ہے کہ جب اللہ کے نبی کہ زمانہ می بارش ہوتی یا آندھی آتی تھی تو لوگوں کو کہا جاتا تھا آذان میں "حی علی الصلاة "آؤ نماز کے لئے کی جگہ پر "صلوا فی رحالکم ” کہ تم لوگ اپنے اپنے گھروں میں نماز پڑھ لو ۔ جب بارش سے کپڑا بھیگنے کی وجہ سے اسلام نے گھر میں نماز کا حکم دیا تو اس بیماری میں تو جان کا سوال ہے اسی طرح آپ صلعم کے زمانہ میں جب ایک اونٹ کو پٹنے والی بیماری لگتی تھی تو آپ صلعم جو صحیح و سالم اونٹ ہوا کرتے تھے اس کو اس بیماری والے اونٹ سے الگ رکھتے تھے تو جانور کے جان کی قیمیت کا اندازہ بھی یہاں لگایا جا سکتا ہے چہ جائیکہ انسان کی بات ہو اسی طرح جب ہیضہ کی بیماری کسی علاقہ میں آپ صلعم کے زمانہ میں آتا تو آپ صلعم صحابہ کو اس علاقہ میں جانے سے صاف صاف منع کردیتے گویا سوشل ڈیسٹینس کا ثبوت ہمیں حدیث سے ملتا ہے اسی طرح اب کورونا کو بنیاد بنا کر یہ بھی مسئلہ سننے کو آرہا ہے کہ تروایح کی نماز کو مائک یا زوم کی مدد سے پڑھا جا سکتا ہے یا نہیں ؟ تو امام و مقتدی کے جو اصول یا شرائط اسلام نے بتائے ہیں اس سے یہ باہر ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو آج کل حرم شریف اور مسجد نبوی کے ساتھ ساتھ دنیا کے کونے کونے میں اس کی مدد سے لوگ جماعت کے ساتھ نماز پڑھتے اور یہ واضح رہے کہ فرض نماز کے مقابلہ میں تراویح کی اہمیت بہت کم ہے حتی کہ محدثین کی ایک جماعت اسے سنت قرار دیتی ہے جب کے دوسری جماعت وجوب کے قائل ہیں لیکن فر ض نماز کے ہم پلہ نہیں اس لئے اونٹ و ہیضہ والی دلیل اور لا یلکف اللہ نفسا والی دلیل کے ساتھ ساتھ امام و مقتدی کے اصول اس بات پر دال ہے کہ اس طرح سے نماز یا پھر تراویح کی نماز پڑھنا درست نہیں بلکہ اس سال مسلمان سوشل ڈیسٹینس کا خیال کرتے ہوئے انفرادی نماز پڑھے یا اگر گھر میں حافظ قرآن شخص ہو تو تمام افراد مل کر ایک چھوٹی سی جماعت بنالے ۔
اس رمضان کی مناسبت سے مسلمانوں کو خاص طور سے اپنے سے مسکین روزہ داروں کو افطار کرانا چاہئے اس کے متعلق جاننے کی کوشش کرنی چاہئے کہ ان کے گھر کیا بنا ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ ان کے بچے بھوکے سورہے ہیں انہیں لاک ڈاؤن اور کام نہ ملنے کی بنا پر افطار تک نصیب نہیں ہوپارہا اس لئے وقت اس بات کا متقاضی ہے کہ مالدار مسلمان غرباء و مساکین کے مسائل کو سلجھائے اور ان کی مدد و نصرت کرے کیونکہ ایسا کرنا بہت ثواب کا کام ہے جسے ہم اور آپ تصور بھی نہیں کر سکتے ۔
ذیشان الہی منیر تیمی چمپارنی
مانو کالج اورنگ آباد مہاراشٹر