ازقلم: محمد شعیب رضا نظامی فیضی گورکھ پوری
ایڈیٹر: ہماری آواز، گولابازار، گورکھ پور
9792125987 +91
اس میں کوئی شک نہیں کہ علماے کرام امت مسلمہ کے بہترین قائد ہوتے ہیں، کہ باب نبوت بند ہونے کے بعد تبلیغ واشاعت دین کی پوری ذمہ داری انھیں علماے کرام کی ہوتی ہے، صرف یہی نہیں کہ دین کی ترویج وترقی ہی علماے کرام کا فریضہ ہوتا ہے بلکہ دنیاوی اعتبار سے قوم وملت کو مضبوطی فراہم کرنا، قوم کو یکجائیت کے دھاگے میں پرونا بھی انھیں علما کا اولین فریضۃ ہوتا ہے۔ اور الحمدللہ ہمیشہ سے علماے کرام اپنی اس ذمہ داری کو بھی بحسن خوبی سرانجام دیتے آرہے ہیں اور اس قوم کی دین ودنیا دونوں سنوارتے آرہے ہیں۔
اس وقت جب کہ کورونا کا قہر پوری دنیا پر بلاتفریق مذہب وملت پڑ رہا ہے اور پوری انسانیت اس کی زد میں ہے، اکثر وبیشتر ممالک میں لاک ڈاؤن جاری ہے، متوسط طبقے کے لوگ بھی فاقہ کشی پر مجبور ہیں تو غریب بھوک مری کرنے پر، گھر میں رہنے والوں کو باہر کی یادیں ستا رہی ہیں تو پردیس میں رہنے والوں کو گھر کی، مساجد ومدارس اور عبادت گاہوں پر پابندی ہے، جہاں امسال تراویح کی نماز باجماعت پڑھنا دشوار ترین معامہ بن چکا ہے وہیں امسال عازمین حج کے ارادے ملیا میٹ ہوتے نظر آرہے ہیں، مگر ان سب کے باوجود خدا کے رحم وکرم سے مایوس نہ ہونا ہی ایمان کی علامت ہے (لاتنطوا من رحمۃ اللہ) اور پھر ایک دن بعد تو رحمتوں میں موسلا دھار بارش ہونے والی ہے؛ رمضان سراپا رحمتِ رحمان کی آمد آمد ہے، خدا کی رحمتوں کا نزول، گناہوں کی بخشش، جہنم سے نجات کا پروانہ، جس کے تین عشروں کی خصوصیت ہے۔ تو اب بھلا نبی مختارﷺ کی اس پیاری امت خدا کے ان انعامات سے مالا مال کیوں نہیں ہوگی؟ لہذا سب سے پہلے ضروری ہے کہ خود علماے کرام رحمت خداوندی سے امیدوں کادامن وابسطہ رکھیں اور پوری قوم کو اس کا احساس دلاتے رہیں کہ (رحمت حق بہانہ می جوید) اور شاید وہ بہانہ یہی رمضان المبارک کی آمد مسعود ہو۔
اس پریشانی اور ہیجانی صورت حال میں دوسرا جو سب سے اہم مسئلہ ہے وہ اطعام طعام کا ہے، جہاں اس سے قبل رمضان میں علماے کرام کی قیادت افطار پارٹیاں کراتی تھی جس میں دعوت عام ہوتا تھا؛ امیر وغریب سب اس میں شریک ہوتے تھے، مگر امسال تو ایسے افطار پارٹیوں کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے لہذا اب علماے کرام کی بیش بہا قیادت سے یہ امیدیں ہیں کہ وہ امسال افطار پارٹی نہ کراکر قوم کے غریب اور پریشاں حال مسلمانوں کی دست گیری کریں؛ کہ بہت سارے غریب ایسے ہیں جن کے گھر ابھی چولہا نہیں جل رہا ہے تو رمضان المبارک میں ان کا حال کیا ہوگا؟
نبی کریمﷺ نے اطعام طعام کو اسلام کا سب سے بہترین عمل بتایا ہے اور صرف بتایا نہیں بلکہ اسے عملی جامہ پہنایا ہے جس کی گواہی تاریخ کے اوراق میں آپ کے گھر کئی کئی روز تک چولہا نہ جلنے کے باوجود صدقات وخیرات اور غریبوں کی داد رسی میں کمی نہ ہونا ہے۔ یہی حال خلفاے راشدین اور دیگر صحابہ کرام کا بھی رہا کہ وہ خود بھوکے رہ کر غریبوں اور پریشان حالوں کی اعانت کرتے رہیں۔ لہذا قوم کے امرا کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے غریب بھائیوں کی اعانت کریں اور قوم کے رہنما علماے کرام کی ذمہ داری ہے اگر وہ خود کے جیب خاص سے کچھ نہیں کرسکتے تو ان امرا کی ذہن سازی کر کے اس امر ضروری کی طرف متوجہ کر سکتے ہیں یقینا یہی وقت کی ضرورت اور مذہب اسلام کی خصوصیت ہے۔
اس زمن میں بہت ساری جگہوں سے یہ خبر آئی کہ خود علماے کرام نے آگے بڑھ کر اس بہترین کام کو سرانجام دیا، یقینا اس کام سے اسلام کی وہی پرانی تصویر جھلکتی ہے جو آج سے سیکڑوں سال پہلے ہوا کرتی تھی۔ اس زمن میں اپنے قصبہ گولابازار کی مدنی کمیٹی کو مبارک باد پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں جس نے کئی ایک علماے کرام(مولانا عمران صاحب، حافظ امتیاز احمد، مولانا امیرعالم صاحب، حافظ صدام صاحب وغیرہ) کی سرکردگی میں غریبوں کو کھانے کا سامان مہیا کرایا۔
ایک بات اور گوش گزار کرنی ضروری ہے کہ خدارا! اعانت ومدد کرتے وقت غریبوں کی عزت وناموس کا جنازہ نہ نکالیں! ویسے ان کلمات کی ضرورت علماے کرام کو نہیں کہ وہ درد دل سے واقف کار ہیں مگر آج معاشرے میں نام ونمود اور دکھاوے کی بلا نے اس قدر پیر جمالیئے ہیں کہ ایک شخص کی چھوٹی سے چھوٹی اعانت کرنے پر دسوں تصویریں نکال کر اس غریب کی غربت ولاچاری کا مذاق بناتے ہیں، خدا کی پناہ! لوگوں کو خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے درس عبرت حاصل کرنی چاہیئے جو راتوں کو فقیرانہ لباس پہن کر عوام کی دست گیری کرتے تھے غلاموں کی موجودگی میں خود غلوں کے بوجھ اٹھاتے تھے تاکہ لوگوں کو کان وکان خبر نہ ہو کہ فلاں غریب کی مدد وقت کے بادشاہ نے کی ہے۔
اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دست بدعا ہوں کہ مولی رمضان المبارک کی رحمتوں، برکتوں کے صدقے جلد از جلد اس ”کورونا“ وبا کو دور فرمائے اور تمام مسلمانوں، انسانوں کی حفاظت فرمائے اور جو حضرات مذہب اسلام کی بہترین خصوصیت ”اطعام طعام“ کا فریضہ انجام دے رہے ہیں، غریبوں کی داد رسی کررہے ہیں انھیں دین ودنیا کی بے پناہ ترقیوں سے سرفراز فرمائے۔آمین