حجاب معاملے پرفیصلے میں اگر تاخیر ہوجائے ؟

0
0

محمد اعظم شاہد
حجاب معاملے پر کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد ملک کی عدالت عالیہ میں داخل شدہ عرضی پر سپریم کورٹ میں سماعت اور فیصلہ کا مسلم طالبات کو شدّت سے انتظار ہے۔ ملک کے آئین میں مذہبی آزادی کے مراعات پر یقین رکھتے ہوئے طالبات پُر اعتماد تھیں کہ حجاب پر تنازعہ اٹھنے سے پہلے جو ماحول تھا وہ بحال ہوکر رہے گا۔ مگر جن دلائل پر ہائی کورٹ نے فیصلہ سنایا وہ تعجب خیز اورغیر متوقع ثابت ہوا۔ سپریم کورٹ میں طالبات کی جانب سے داخل عرضی پر وکالت کرنے والے وکلاء نے تاویلات پیش کی ہیں کہ مذکورہ عرضی پر فوری سماعت کو یقینی بنایا جائے۔ وکلاء نے جواز یہ پیش کیا ہے کہ امتحانات سر پر ہیں اور طالبات بے چین اور اضطرابی کیفیات سے ہمکنار ہیں۔ وہ اگلے مہینے 22؍اپریل تا18؍مئی کے درمیان منعقد ہونے والے بارہویں جماعت (سکینڈ پی یو سی) امتحانات یونی فارم اورحجاب کے ساتھ لکھنے کی آرزو مند ہیں۔ اس بات پر پرامید ہیں طالبات کے سپریم کورٹ جلد حجاب کی حمایت میں فیصلہ سنائے گایا پھر عبوری طورپر کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے پر اسٹے (نفاذ کے احکامات روکنے فیصلہ سنائے گا) کے احکامات جاری کرے گا۔ طویل مدتی سماعتوں کی روایات کے پیش نظر یہ تجسس طالبات میں ہر گذرتے دن کے ساتھ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ سپریم کورٹ نے اشارہ دیا تھا کہہولی تہوار کی تعطیل کے بعد کرناٹک میں حجاب معاملے پر سماعت ممکن ہوسکے گی۔ سماعت کے آغاز کے منتظر ہیں حجاب کی پابند مسلم طالبات اور ان کے والدین۔ اس دوران حکومت کرناٹک کے محکمۂ تعلیمات نے ان مسلم طالبات کی گزارش کو مسترد کرتے ہوئے کہاہے کہ دوبارہ سائنس کے پریکٹیکل امتحانات کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ واضح ہوکہ حجاب تنازعہ کے دوران جب کرناٹک ہائی کورٹ میں مسلسل مذکورہ طالبات کی عرضی پر سماعت ہورہی تھی۔ ہائی کورٹ کی تین رکنی بینچ نے اپنے عبوری فیصلے میں کلاس روم میں کسی بھی نوعیت کے مذہبی لباس کے ساتھ حاضری پر روک لگادی۔ اس دوران با حجاب طالبات کو سائنس پریکٹیکل امتحانات ( جو تیس مارکس پر مشتمل ہوتا ہے جب کہ تھیولری امتحان کے لئے سترمارکس رکھے گئے ہیں) میں شریک ہونے نہیں دیاگیا۔ مسلم طالبات امید کررہی تھیں کہ فیصلہ منصفانہ ہوگا اور دوبارہ انہیں پریکٹیکل امتحان کا موقع مل پائے گا۔ ہائی کورٹ کے حتمی فیصلے کے بعد مسلم طالبات اور ان کے والدین نے پی یو بورڈ سے گزارش کی تھی کہ انسانیت نوازی کی رو سے دوبارہ مذکورہ امتحانات کے مواقع فراہم کئے جائیں۔ وزیر برائے ثانوی تعلیم نے دو ٹوک انداز میں کہا ہے کہ اس سے پہلے امتحانات میں غیر حاضر طلبہ کو دوبارہ امتحان میں حاضری کا موقع نہیں دیا گیا ہے ،اس لئے اس کی گنجائش نہیں ہے جب کہ وہ سپلمینٹری امتحان لکھ سکتے ہیں۔ یعنی حالیہ تعلیمی سال کے بعد۔ اب مسلم طالبات پریشان ہیں کہ سائنس کے سبجکٹس کے لئے 70مارکس کے امتحان لکھنے اور امتیازی نشانات (مارکس) بغیر پریکٹیکل امتحان کے حاصل کرنا ان کے لئے دشوار مرحلہ ہے۔ ساتھ ہی پروفیشنل کورسز میں داخلے کے لئے مسابقتی امتحانات کا سامنا بھی ذہنی آسودگی اور بھرپور تیاری کا تقاضہ کرتا ہے۔ ایک سوچی سمجھی منصوبہ بند سازش کے طور پر حجاب کو زعفرانی رومال کے مقابل کرتے ہوئے کالجوں میں ماحول کو فرقہ وارانہ نفرت میں بگاڑاگیا۔ طلبہ میں مذہب کے نام پر تفریقات کو بڑھاوا دے کر پہلی بار طلبہ کو ہندو اور مسلمان کے طور پر دیکھاگیا۔ دراصل یہ سارا معاملہ مذموم فتنہ پروری سے عبارت ہے۔ امتحانات شروع ہونے سے پہلے سپریم کورٹ سے حتمی طور پر فیصلہ اگر نہیں آیا اور مسلم طالبات باحجاب ہی امتحان لکھنے کی خواہاں ہیں تو ظاہر ہے ان کا ایک تعلیمی سال بیکار جائے گا۔ ان حالات میں اپنے مضبوط موقف پر مسلم طالبات اور ان کے والدین کو نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ امتحان کے لئے کلاس روم تک حجاب کی پابندی کے ساتھ جائیں اور کلاس روم میں حجاب کے بغیر امتحان لکھنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ پھر امتحان لکھنے کے بعد حسب معمول حجاب کے ساتھ واپس ہوسکتی ہیں۔ یہ مرحلہ کافی صبر آزما ہے۔ مگر حالات کی نزاکت کے تحت اس پورے معاملے کو سنجیدگی سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ مقصد یہی ہونا چاہئے کہ عقیدہ اور ایمان کی پابندی ہو اوردانشمندی اور حکمت کے ساتھ تعلیم کی تکمیل بھی کسی طرح متاثر نہ ہو۔ انفرادی طورپر طے کرنا اور اجتماعیت کے ساتھ والدین اورمسلم طالبات کو حالات کے تحت فیصلہ کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ اللہ کرے اگر فیصلہ عدالت عالیہ سے بروقت بہ عجلت آجائے تو مسئلہ اپنے آپ حل ہوجائے گا۔ اگر تاخیر ہوجائے ( جس کا اندیشہ بھی ہے) تو مشکلات سے نبرد آزما ہونے کی حکمت عملی پر سنجیدگی سے غورکیا جاسکتا ہے۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا