افغان پائیدار امن ابھی نہیں تو کبھی نہیں !

0
0

کالم :صدائے سحر
تحریر:شاہد ندیم احمد
طالبان اور امریکہ میں تاریخی امن معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد سے افغانستان میں 19سال سے جاری جنگ مکمل طور پر ختم ہونے کی راہ ہموار ہوگئی تھی ،مگرمعاہدے کی خلاف ورزی پر طالبان نے سرے سے مذاکرات ہی ختم کرنے کا اعلان کردیا ہے ۔، افغانستان جو عرصہ دراز سے غیر ملکی قوتوں کی پنجہ آزمائی کیلئے میدان جنگ بنا ہوا تھا، اس کا واحد حل مذاکرات ہی تھے۔پاکستان جو افغان قوم اور افغانستان سے واقف ہے، عرصہ دراز سے خطے میں نبردآزما قوتوں کو مذاکرات کی میز پر لانے میں اپنا مثبت کردار ادا کر رہا تھا اور اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ان مذاکرات کی کامیابی پاکستان کی کاوشوں سے ہی ممکن ہوئی ہے ،اب فریقین کو یہ بات حرزجان بنانا ہو گی کہ عہد شکنی دنیا کے کسی بھی مذہب اور اخلاقیات کے خلاف ہے، چنانچہ جو بھی مشترکہ طے پایا ہے، سب کو اس پر من وعن عمل کرکے خطے کو امن کا تحفہ دینا ہو گا۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی ذہن نشین رکھنا ہو گی کہ چند ایسی قوتیں جن کو ان مذاکرات کا حصہ نہیں بنایا گیا، وہ اس معاہدے کو سبوتاژ کرنے کیلئے کسی بھی حد تک جانے کی کوشش کریں گی، ان کا ناطقہ بند کرنا سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ افغان حکومت ، طالبان یا دیگر گروہ سب کو اپنے ملک کو پُرامن بناکر سیاسی عمل کے اجرا کیلئے متحد ہونا ہوگا اوردحہ سمجھوتے پر فریقین کو منوعن عمل کر نا ہو گا،ورنہ افغانستان میں امن کا خواب کبھی پورا نہی ہو گا۔
پاکستان ہمیشہ سے ایک پرامن، متحد، خوشحال، مستحکم اور جمہوری افغانستان کی حمایت کرتا رہا ہے ، گذشتہ چالیس برس سے افغانستان میں عدم استحکام کا خمیازہ دونوں ممالک یکساں طور پر بھگت رہے ہیں۔پاکستان صدق دل سے سمجھتا ہے کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں، قیام امن کے لئے“مذاکرات”ہی مثبت اور واحد راستہ ہیں۔پاکستان نے افغان امن عمل میں مشترکہ ذمہ داری کے تحت نہایت ایمانداری سے مصالحانہ کردار ادا کیا جس کے باعث طالبان اور امریکہ میں تاریخی امن معاہدے پر دستخط ہوئے،افغان امن معاہدہ میں پیش رفت نے مایوسی پھیلانے والوں کو مایوس کر دیاہے۔ معاہدے کی رو سے قیدیوں کی رہائی کا عمل شروع ہو گیا ہے اوربتدریج معاہدے کی دیگر شقوں کے تحت افغان گروہوں میں براہ راست مذاکرات کا سلسلہ بھی چل رہا ہے ۔کرونا وائرس وبا کے باعث باہمی مشاورت تعطل کا شکار ہورہی ہے،تاہم وہ وقت دور نہیں کہ جب پاکستان کا یہ عظیم ہمسایہ جو مسلسل چالیس برس سے جل رہا ہے ،یہاں امن کی ٹھنڈک نازل ہو گی اور افغان عوام کسی بیرونی دباﺅکے بغیر اپنی زندگی آزادانہ طور پر گزار سکیں گے اور آتش و آہن کا شور و غل یہاں سے ہمیشہ کے لئے رخصت ہو جائے گا۔
اس میں شک نہیں کہ افغانیوںنے امن کے حصول کے لئے ایک طویل اور کٹھن جدو جہد کی ہے۔اس جدو جہد میں لاکھوں لوگوں کی جانیں گئیں اور افغانستان کے پہاڑوں کا تورا بورا بنا دیا گیا، مگر آفرین ہے افغانیوں پر جنہوںنے حوصلے نہ ہارے ،مسلسل ڈٹے رہے اورا ٓخر کار انہوںنے میدان مار ہی لیا،دنیا کی دو سپر طاقتیں افغانستان کے بے برگ صحراﺅں میں ڈھیر ہو گئیں، سوویت روس تو اس قدر نڈھال اور خستہ حال ہوا کہ ا سکے حصے بخرے ہو گئے ،جبکہ امریکہ اور ناٹو کا حشر ابھی سامنے آنے والا ہے۔ افغان جنگ میں ہار کے بعد ہارنے سپرپاور کو یہ بات سمجھا دی ہے کہ اب طاقت سے کسی قوم کو زیر نہیں کیا جاسکتا، کم از کم افغانیوں کو جھکانا ممکن ہے۔ افغان قوم نے تاریخ کے ہر مرحلے پر معجزے رقم کئے ہیں اور اب جدید دنیا ایک ا ور بڑا معجزہ دیکھ رہی ہے۔
پاکستان کو ایک ہمسائے کے طور پر افغان پا ئیدار امن اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہے، پاکستان نے افغان امن کی حفاظت کے لئے کسی قربانی سے کبھی دریغ نہیں کیاہے۔ پاکستان سے امریکہ نے ہمیشہ ڈو مور کا تقاضہ کیا، مگر پاکستان نے بڑی دانشمندی سے کبھی افغانیوں کے خلاف کوئی قدم نہیں اُٹھایا،ماسوائے جنرل مشرف کے دورمیںجب کہ افغانیوں پر ڈرون برسانے کے لئے پاکستان نے اپنے اڈے امریکہ کو فراہم کر رکھے تھے ،اس مجبوری افغانیوں نے اچھی طرح
سمجھا کہ اگر پاکستان، امریکی دباﺅکے ا ٓگے نہ جھکتا تو یہی سہولت بھارت بھی امریکہ کو دینے کے لئے دل و جاں سے تیار تھا ،افغانی اچھی طرح جانتے ہیں کہ بھارت اگر امریکہ کااتحادی ہوتا تو اس علاقے کا نقشہ ہی بدل چکا ہوتا اور یہ دن کبھی نہ آتا کہ جب امریکہ شکست کھا کر افغانستان سے نکل رہا ہے اور یہ پورا خطہ امن کے نور سے جگمگانے کو ہے۔
وزیر اعظم عمران خان ہمیشہ جنگ کی بجائے مسائل کا حل مذاکرات سے تلاش کرنے کا کہتے رہے ہیں، برسوں جنگ کے بعد بھی مذاکرات کی میز پر ہی بیٹھنا پڑتا ہے، عمران کا یہ نسخہ تیر بہدف ثابت ہواہے۔ پاکستان نے امریکہ اور طالبان کے مابین مذاکرات کے لئے سہولت کاری کی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے طالبان کو سمجھایا اور امریکیوں کو مذاکرات کی اہمیت پر قائل کیا ہے، اس دوران ا ونچ نیچ بہت آئی، مگر پاکستان کی پر خلوص کوششوں کی وجہ سے امن معاہدہ ہو گیا جس کی کسی کو توقع نہیںتھی۔ پاکستان کو افغانستان کے ساتھ اپنے ہاں بھی امن عزیز تھا ، اس لئے خلوص نیت اور نیک جذبات کو فتح حاصل ہوئی ہے ،جبکہ بھارت نے آخری دم تک افغان امن معاہدے کو ثبوتاژ کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے ، ا س نے اپنی سازشی چالیں چلیں، مگر منہ کی کھائی اور اب کچھ عرصہ بعد افغانستان میں بھارتی تخریبی عناصر خورد بین سے بھی نظر نہیں آئیں گے ، بھارت کی کوشش تھی کہ وہ پاکستان کی گوادر کی بندر گاہ کی توسیع نہ ہونے دے اورا سکے مقابل چاہ بہار میں اپنے اڈے قائم کر لے، مگر اس کی سب سازشی تدابیرا لٹی پرگئی ہیں۔
بھارت اپنے تخربی مقاصد کے حصول کیلئے جتنا مرضی سازشی جال بچھا لے ،مگرامریکہ پچھلے انیس برس سے جاری جنگ میں ناکامی کے بعد اپنے تیرہ ہزار فوجی افغانستان سے نکالنے کے حوالے سے ذہن بنائے بیٹھا ہے۔امریکی صدر اس قدر تباہ کن جنگ میں جانی و مالی بے ا نتہا نقصان اُٹھا نے کے بعد اپنے فوجی افغانستان سے نکالنے کا اٹل فیصلہ کر چکے ہیں ، اب صرف ایک ہی صورت ایسی بچی ہے جو امریکہ کا فیصلہ بدل سکتی ہے اور وہ یہ کہ افغانستان کی سرزمین امریکہ کیخلاف دہشتگردی کیلئے ایک مرتبہ پھر استعمال ہونے لگے۔بھارت خطے میں قیام امن کی کاو¿شوں کوخراب کرنے میں کوشاں ہے ،مگر اس بار فریقین چوکناں بھارتی سازشوں پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں ۔افغانستان میں دیرپا امن کا قیام پاکستان سمیت پورے خطے کیلئے ناگزیر ہے، البتہ اس دیرپا امن کو قائم ہونے میں ابھی کچھ وقت لگے گا،کیو نکہ کابل حکومت امن معاہدے پر عمل در آمد میں ہچکچا ہٹ کا مظاہرہ کررہی ہے ۔ افغان حکومت کے ایسے رویے سے انخلا میں تاخیر ہو سکتی ہے جس کے اثرات ٹرمپ کے لیے امریکی انتخابات میں منفی انداز میں مرتب ہو سکتے ہیں۔اس وقت امریکہ کا تو فوکس کرونا پر ہے، مگر افغان امن معاہدے پر بھی اسے مکمل عملدرآمدکروانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ دوسری صورت میں افغان سرزمین پر آگ برستی اور خون بہتا رہے گا۔افغانستان میں بہت جنگ و جدال ہو گیا، اب ضرورت اس امر کی ہے کہ امن کے اس موقع کو غنیمت سمجھ کر اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا جائے، اگر یہ موقع بھی ضائع کیا گیا تو پھرشایدافغانستان میں قیام امن ابھی نہیں تو کبھی نہیں ہو گا۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا